مضامین و مقالات

کیا ہم نے کتاب اللہ کو چھوڑ دیا ہے؟

ریاض فردوسی۔996801296
اور رسول نے عرض کی کہ اے میرے رب! میری قوم نے اس  قرآن  کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرا لیا (سورہ الفرقان۔آیت۔30)
مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے،قیامت کے دن رسول اکرم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے حضور مشرکینِ مکہ کا شکوہ کریں گے۔کہ اے میرے رب ! انہی لوگوں نے دنیا میں تیرے قرآن کے ساتھ بے اعتنائی برتی تھی، جب ان کے سامنے اس کی تلاوت ہوتی تھی تو یہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے، سیٹیاں بجاتے تھے اور مختلف قسم کی آوازیں نکالتے تھے، تاکہ لوگ غور سے نہ سن سکیں۔ اور یہ شکوہ اس لیے ہوگا تاکہ اللہ کا عذاب ان کے لیے بڑھا دیا جائے۔
اس پر غوروفکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے۔اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا، یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کاﺗرﻙ اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کےخلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔
 امام ابن القیم اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ھجر قرآن، یعنی قرآن کریم کو چھوڑ دینا کئی طرح سے ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص اسے غور سے نہ سنے اور اس پر ایمان نہ لائے، اس پر عمل نہ کرے، اپنے تمام معاملات میں اسے فیصل نہ مانے، اس میں غور و فکر نہ کرے، اور اپنے روحانی امراض کا علاج اس کے ذریعہ نہ کرے۔ حافظ سیوطی اور ابو السعود وغیرہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے دھمکی ہے جو قرآن کریم کی روزانہ تلاوت نہیں کرتے ہیں، کہ قیامت کے دن نبی کریم (ﷺ) کے ان کے خلاف اللہ سے شکوہ کریں گے۔
ایک گزارش!
مھجورا کا مادہ ھ ج م ہے اب اگر اس لفظ کو ھجر (ھجرا (سے مفعول تسلیم کیا جائے تو ھجورا کا معنی ایسی مہمل گفتگو ہے جو کوئی شخص بیماری یا خراب یا نیم خوابی یا بےہوشی کی حالت میں کرتا ہے یعنی بڑبڑاہٹ یا ہذیان۔پھر چونکہ ایسی باتیں ہنسی مذاق کا باعث ہوتی ہیں لہذا اس کا مطلب قرآن کی آیات کا ہنسی استہزاء اور مذاق اڑانا ہوگا اور قرآن کو نشانہ تضحیک بنانا جیسا کہ کفار مکہ کا معمول تھا۔اور اگر اس لفظ کو ھجر (ھجرا (سے مفعول تسلیم کیا جائے تو اس کا معنی قرآن کو متروک العمل سمجھتا اور اسے پس پشت ڈال دینا ہوگا۔جیسا کہ آج کل کے مسلمان کیا عوام اور کیا علماء سب کے سب اس جرم کے مجرم ہیں۔
ہم اللہ سے وعدہ کریں کہ اس ماہ رمضان میں کم سے کم ایک مکمل قرآن کریم تلاوت کریں گے۔اگر جو پڑھنا نا جانتے ہیں وہ حفاظ اکرام اور علماء اکرام سے سیکھنے کی کوشش کریں گے‌۔
میرے مسلمان بھائیوں قبر میں ہمارے بد اعمال کے سبب عذاب الٰہی سے صرف اور صرف قرآن کی تلاوت ہی بچا سکتی ہے‌۔یہ فکر کرکے ہی قرآن کا دامن تھام لیں،کتاب اللہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں۔میرے بھائیوں اللہ پاک قرآن کی تلاوت کرنے والے کو بہت پسند کرتاہے۔ان محترم حفاظ اکرام سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ قرآن بھول گیے ہیں،تو آپ سب جان لیں کہ حافظ قرآن کے سینے سے  کبھی قرآن نہیں نکلتاہے۔بس اس حافظ کے گناہوں کی منحوسیت سے اللہ قرآن کو اس دل میں ہی چھپا دیتے ہیں۔حافظ قرآن خوب توبہ کریں۔حفاظ اکرام کم سے کم ماہ رمضان میں 3 یا 5 مرتبہ قرآن کریم کی تلاوت دیکھ کر کریں۔رب کعبہ کی قسم آپ کو سب یاد آ جایے گا۔اگر آپ کو کتاب اللہ مکمل یاد نا ہو تو تراویح میں قرآن نا سنایے۔بعد میں اچھے سے یاد کرکے سنا لینا۔صرف فانی دنیاکے لوگوں کے نگاہوں میں عزت پانے کے لۓ غلط سلط قرآن نا سنایے۔
میرے محترم حفاظ اکرام آپ سب کو اللہ کو قرآن سنانا ہے،اس کی تیاری کریں۔دنیا کی عزت و ذلت چند دنوں کی،آخرت کی عزت و ذلت ہمیشہ ہمیش کے لیے۔اس لیے آنے والے اس ماہ مبارک میں اچھے کے دیکھ دیکھ کر ٹھر ٹھر کر خوب کتاب اللہ کی تلاوت کریں۔حافظ قرآن صاحبان کبھی گندی فلم نا دیکھیں، اس کی نحوست بہت زیادہ ہوتی ہے،حافظ قرآن جھوٹ نا کہ برابر بولے،اگر منہ سے نکل جایے تو فوراً توبہ کرے۔حافظ قرآن کو چاہیے کہ ہروقت توبہ کرے،قرآن سے محبت کرے،تلاوت سے پہلے،نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس پر درود شریف پڑھے،قرآن کو اپنی آنکھوں اور دل سے لگایے۔حفاظ اکرام صاحب آپ سب بہت خاص ہو،اور آپ کادل آپ سے زیادہ خاص ہے،اس لیے کہ اللہ اپنا کلام آپ کے سینے میں رکھا ہے،کیوں اپنے کو کمتر سمجھتے ہو؟
آخر میں!
اللہ کی کتاب کے بہت سارے اسم پاک ہیں،جن میں القرآن الكريم، الکتاب، الفرقان، الموعظة، الذکر، اور النور وغیرہ شامل ہیں۔
مسلمان آج تو اگر ذلیل و خوار ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔
مکہّ کے کفار و مشرکین تو اپنی خاص ضد اور ڈھٹائی میں قرآن کو اس موقف کے تحت ترک کیا تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ہی نہیں اور نبی رحمت ﷺ نے خود اپنی طرف سے اسے گھڑ لیا ہے۔(معاذاللہ) لیکن آج اگر کوئی مسلمان کہے کہ میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اور اسے اللہ کا کلام مانتا ہوں،مگر عملی طور پر اس کا رویہ ایسا ہو کہ وہ قرآن کو لائقِ اعتناء نہ سمجھے، نہ اسے پڑھنا سیکھے،نہ کبھی اس کے پیغام کو جاننے کی کوشش کرے،تو گویا اس کے حال یا عمل نے اس کے ایمان کے دعوے کی تکذیب کردی۔
اس آیت کے حاشیے ترجمہ میں مولانا محمود حسن اور مولانا شبیر احمد عثمانی اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں۔
”آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا،اس میں تدبر نہ کرنا،اس پر عمل نہ کرنا،اس کی تلاوت نہ کرنا،اس کی تصحیح قراءت کی طرف توجہ نہ کرنا،اس سے اعراض کرکے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا،یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجران قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں۔“
آج اگر ہم اپنی دنیاوی زندگی سنوارنے کے لیے انگریزی زبان میں تو مہارت حاصل کرلیتے ہیں،لیکن قرآن کا مفہوم سمجھنے کے لیے عربی زبان کے بنیادی قواعد سیکھنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتے۔ پھر سچ بات ہے کہ قرآن پر ہمارے ایمان کے دعوے اور اس کو اللہ کا کلام ماننے کی عملی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن کے حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کرے۔اس سلسلے میں عملی تقاضوں کو سمجھے اور ان تقاضوں پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتا رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button