مضامین و مقالات

ڈاکٹر صفدر امام قادری جیسا میں نے دیکھا جیسا میں نے پایا

سہیل انجم

اگر اس عہدِ ناپرساں اور دورِ خود غرضاں میں کوئی ایسا شخص مل جائے جو تعلق اور دوستی کی عمارت خلوص، محبت اور بے غرضی کی بنیاد پر قائم کرے تو اسے غنیمت جاننا چاہیے۔ اس زمانے میں کہاں ایسے لوگ ہیں جو اپنی آستینوں میں خودغرضی وبے مروتی کے سانپ نہ پالتے ہوں اور جو کسی سے تعلق یا دوستی کو مفاد پرستی کا ذریعہ نہ بناتے ہوں۔ یا جو مفاد پرستی کو ہی تعلق کی بنیاد نہ سمجھتے ہوں۔ گوکہ آج ایسے لوگوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم اب بھی اچھے لوگوں سے دنیا خالی نہیں ہے۔ اب بھی ایسے لوگ ہمارے آس پاس موجود ہیں جو صلہ و ستائش کی تمنا کے بغیر اپنی خدمات پیش کرتے اور آگے بڑھنے کے لیے دوسروں کو دھکیلنے کے بجائے ان کو بھی ساتھ لے کر چلنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ سماج کے مختلف طبقات میں مل جائیں گے۔ ادب و صحافت کی دنیا بھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ میں ڈاکٹر صفدر امام قادری کو ایسے ہی لوگوں کی صف میں شمار کرتا ہوں۔ ان سے یوں تو غائبانہ تعارف کئی دہائیوں سے رہا ہے لیکن باضابطہ ملاقات کم و بیش بارہ پندرہ سال قبل دہلی اردو اکادمی کے زیر اہتمام اس کے آڈیٹوریم میں منعقدہ ایک نیشنل سمینار میں ہوئی تھی۔ وہ جس خلوص اور اپنائیت سے ملے تھے وہ آج بھی یاد ہے۔ یہ شناسائی رفتہ رفتہ گہری ہوتی گئی اور پھر وہ ایک تعلق میں بدل گئی۔ حالانکہ ہم دونوں میں ملاقات اور گفتگو کم ہی ہو پاتی ہے۔ ہم دہلی میں مقیم ہیں اور وہ بہار میں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا دنیا گھومتے بھی رہتے ہیں۔ لیکن ہماری کوشش ہوتی ہے کہ وہ جب بھی دہلی آئیں تو ملاقات کی جائے۔ یہ ملاقات کبھی ہو جاتی ہے، کبھی نہیں ہوتی۔ کبھی ہماری مصروفیت آڑے آجاتی ہے تو کبھی ان کی عدم فرصت۔ بہرحال میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ڈاکٹر صفدر امام قادری کو ایک بے لوث، بے غرض اور مخلص انسان پایا۔
صفدر امام قادری اردو کے استاد ہیں۔ لیکن وہ مجھے اردو کے دوسرے اساتذہ سے بالکل مختلف نظر آئے۔ انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز صحافت سے کیا تھا۔ البتہ بعد میں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ یہ اچھا ہی ہوا۔ کیونکہ وہ اس پیشے سے منسلک ہونے کی وجہ سے جتنا علمی کام کر پاتے ہیں صحافی بن کر نہیں کر پاتے۔ میں نے ان میں بڑی خوبیاں پائی ہیں۔ وہ تحریر و تقریر دونوں کے دھنی ہیں۔ وہ ایک منفردا طرز تحریر رکھتے اور موضوع سے حتیٰ المقدور انصاف کرتے ہیں۔ وہ ادبی و تنقیدی مضامین کے ساتھ ساتھ سیاسی مضامین بھی لکھتے ہیںجو ملک کے تقریباً تمام اخباروں میں شائع ہوتے ہیں۔ ان کالموں کے موضوعات عام اور روایتی نہیں ہوتے بلکہ ان میں ندرت ہوتی ہے۔ ان کالموں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان میں زبان کی چاشنی ہوتی ہے۔ وہ اخباروں میں ادبی موضوعات پر بھی لکھتے اور خوب لکھتے ہیں۔ زبان پر گرفت ہے اور انھیں بامحاورہ زبان کے استعمال کا فن آتا ہے۔
آج قحط الرجال کے اس دور میں جبکہ سب سے زیادہ نقصان زبان کا اور بالخصوص اردو زبان کا ہو رہا ہے اور اس کو نقصان پہنچانے والوں میں اردو کے بہت سے اساتذہ بھی شامل ہیں، صفدر امام قادری جیسے قلمکاروں کی موجودگی اطمینان دلاتی ہے کہ اس دور میں بھی اچھے لکھنے والوں کا ٹوٹا نہیں ہے۔ وہ زود نویس بھی ہیں تاہم اس کے باوجود ان کی تحریروں میں رطب و یابس نہیں پایا جاتا یا ان کی کوئی تحریر سرسری نہیں ہوتی۔ ان کی تحریریں زود نویسی یا بسیار نویسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عیوب سے پاک ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اندر یہ خوبی صحافتی تجربات کی وجہ سے بھی آئی ہے۔ اگر ان کو کوئی موضوع شام کو دے دیا جائے تو صبح تک وہ اس پر ایک بھرپور اور معیاری مقالہ قلمبند کر دیں گے۔ جبکہ آج کے بہت سے اردو اساتذہ ایسے ہیں جو موضوع پر غور و فکر کے لیے ہفتو ں لگا دیتے ہیں۔ ان کی لکھنے کی عادت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ان کو کسی ایک پروگرام سے فارغ ہو کر اسی شام کو ٹرین پکڑ کر دوسرے شہر جانا اور دوسرے پروگرام میں شریک ہونا ہے تو وہ ٹرین کے اندر ہی اخبارات کے لیے رپورٹ تیار کر دیں گے۔ اور وہ رپورٹ غیر ضروری تفصیلات سے پاک اور اخبارات میں اشاعت کے لیے بالکل فٹ ہوگی۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا ان میں یہ خوبی صحافت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بھی آئی ہے۔ ایسے بہت سے مشہور صحافی گزرے ہیں جو ادیب بھی تھے اور ایسے بے شمار ادیب گزرے ہیں جو صحافی بھی تھے۔ انھوں نے صحافت کے توسط سے ادب کی خدمت کی۔ خواہ منشی نولکشور کا اخبار ”اودھ اخبار“ ہو یا لکھنو اور دہلی سمیت کئی شہروں سے شائع ہونے والا روزنامہ ”قومی آواز“۔ ان اخباروں کے ادارتی عملے میں ادیبوں کی بھرمار رہی ہے۔ اودھ اخبار کے مدیروں میں سید جالب دہلوی، بینی پرساد سحر، محمد حسن عسکری، یاس یگانہ چنگیزی، پیارے لال شاکر میرٹھی، عبدالباری آسی اور شوکت تھانوی وغیرہ بھی شامل رہے ہیں۔ ان کے علاوہ اس کے شعبہ ادارت میں مولوی ہادی علی اشک، مولوی رونق علی رونق، غلام محمد تپش، رتن ناتھ سرشار، مولانا فخرالدین لکھنوی، راجہ شیو پرشاد، طوطا رام شایاں، امجد علی اشہری، میرزا حیرت دہلوی، مولانا احمد حسن شوکت میرٹھی، نوبت رائے نظر، دوارکا پرشاد افق، پنڈت بشن نرائن در اور امین سلونوی جیسے ممتاز ادیب اور قلمکار رہے۔ یہ وہ نام ہیں جو نہ صرف انیسویں صدی کے اردو ادب اور صحافت میں بار بار ملتے ہیں بلکہ ان کے سلسلے بیسویں صدی میںبھی ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ اسی طرح روزنامہ قومی آواز کے شعبہ ادارت میں بھی شاعروں اور ادیبوں کی بھرما ررہی ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر صفدر امام قادری اب عملی طور پر صحافت سے وابستہ نہیں ہیں لیکن اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے ان کے کالموں اور مضامین کی روشنی میں جی چاہتا ہے کہ انھیں مذکورہ ادیبوں اور صحافیوں کی اگلی کڑی مان لیا جائے۔
ڈاکٹر صفدر امام قادری تحریر کی طرح تقریر میں بھی ماہر ہیں۔ کوئی بھی ادبی یا صحافتی موضوع ہو اس پر گراں قدر خیالات کا اظہار کریں گے اور موضوع کے تمام پہلووں کا احاطہ کریں گے۔ وہ اردو کے ان اساتذہ میں شامل ہیں جن کا علم مستحضر ہے اور جو زبانی گفتگو میں بھی طاق ہیں۔ ادبی تحریکات پر بھی ان کی نظر ہے اور اردو ادب و شاعری کے بدلتے رجحانات بھی ان کی نگاہ میں ہیں۔ لیکن وہ کسی سمینار میں ہوں یا ادبی محفل میں اپنی علمیت کا رعب نہیں ڈالتے اور انتہائی شرافت و شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں سمیناروں میں بحیثیت صدر یا پھر کلیدی خطیب کی حیثیت سے بھی بلایا جاتا ہے۔ وہ مقالہ خوانی بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کا کوئی بھی مقالہ سرسری نہیں ہوتا۔
وہ ان اساتذہ میں شامل ہیں جن کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے شاگرد ان پر جان چھڑکتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ وہ اپنے شاگردوں سے انتہائی شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں اور دوسرے ان کا اچھی طرح خیال رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی کوئی سمینار یا پروگرام کرتے ہیں تو ان کے شاگرد ان کا اس طرح ہاتھ بٹاتے ہیں جیسے کہ یہ انھی کا کام ہو۔ ان کے اندر خرد نوازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ تعلیمی اداروں میں اپنے اہل شاگردوں کا تقرر کرانے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے متعدد شاگردوں کا کسی نہ کسی کالج یا یونیورسٹی یا کسی اہم ادارے میں تقرر کرا دیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اپنے شاگردوں کے علمی کاموں میں ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ایسے متعدد لوگ ہیں جو ان کی توجہ سے آج کسی نہ کسی کالج یا کسی نہ کسی تعلیمی ادارے میں برسرِکار ہیں۔ اگر ان کے کسی کام میں ان کے کسی شاگرد کا بھی تعاون رہا ہے تو وہ اسے گمنام نہیں رہنے دیتے، بلکہ مرتبین میں اس کا بھی نام شامل کر دیتے ہیں۔ یہ خوبی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر صفدر امام قادری تحقیقی ذہن کے مالک ہیں۔ انھوں نے اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر ہندوستان میں سب سے پہلے سمینار کا انعقاد کیا اور وہیں کیا جہاں سے اردو صحافت کا آغاز ہوا تھا، یعنی کلکتہ سے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے پٹنہ اور حیدرآباد میں بھی سمیناروں کا انعقاد کیا جن میں ملک و بیرون ملک کے ادیبوں اور صحافیوں نے شرکت کی۔ ان صحافیوں اور ادیبوں کی خدمات کے اعتراف میں ان کو ایوارڈز سے نوازا بھی گیا۔ انھوں نے یہ کام ”بزم صدف انٹرنیشنل“ کے بینر سے کیا۔ یہ ادارہ پروفیسر ناز قادری کے لائق فرزند جناب شہاب الدین احمد نے قائم کیا ہے اور صفدر امام قادری اس کے ڈائرکٹر ہیں۔ اس منصب پر رہتے ہوئے انھوں نے ہندو بیرون ہند کئی سمیناروں اور مشاعروں کا کامیاب انعقاد کیا ہے۔
ان کے تحقیقی ذہن کا اندازہ ان کی مرتب کردہ کتاب ”صحافت: دو صدی کا احتساب“ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اس کے مرتبین میں دو مزید نام دیو راج کمار اور محمد مرشد کے بھی ہیں لیکن دراصل ان دونوں نے جناب قادری کی رہنمائی میں اپنی خدمات پیش کیں۔ اس کتاب کی ضخامت 752 صفحات ہے اور اس میں جس دیدہ ریزی سے کام لیا گیا ہے وہ قابل داد ہے۔ انھوں نے اس کتاب کو مکتبہ صدف کے شعبہ اشاعت سے شائع کیا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے ایک اور ضخیم کتاب شائع کی۔ جس کا نام ”صحافت: کتابیات“ ہے اور اس کی ضخامت 624 صفحات ہے۔ اسے ڈاکٹر محمد ذاکر حسین نے مرتب کیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے اس میں بھی صفدر امام قادری کی رہنمائی شامل رہی ہے۔ ان کتابوں کا تذکرہ اس لیے ضروری محسوس ہوا کہ یہ انتہائی جامع، معلوماتی، مفصل اور معیاری ہیں۔ اول الذکر میں گزشتہ دو سو برسوں کے دوران اردو صحافت میں آئے نشیب و فراز او راس کے معیار کا مختلف ابواب کے تحت جائزہ لیا گیا ہے۔ ان ابواب میں تقریباً 70 مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ اس میں گزشتہ دو سو برسوں کے دوران اردو صحافت کا پورا منظر نامہ بہت واضح ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ جبکہ ثانی الذکر میں ان دو سو برسوں کے دوران اردو صحافت سے متعلق شائع ہونے والی کتابوں کا موضوعاتی اعتبار سے جائزہ لیا گیا اور ان کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ رسائل و جرائد میں اردو صحافت پر شائع ہونے والے مضامین پر بھی نظر ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں الگ سے موضوعات کے اعتبار سے صحافت پر شائع ہونے والی کتابوں کی ایک گراں قدر فہرست شامل کی گئی ہے۔ اس فہرست میں 168 کتابوں کے نام مع مصنف اور پبلشر کے نام شامل ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اردو صحافت کے تعلق سے صحافیوں کے لیے انتہائی گراں قدر تحفے ہیں۔ اس تحقیقی کام کے لیے ڈاکٹر صفدر امام قادری کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں ”جانے پہچانے لوگ“ جیسی خاکوں کی کتاب ہے تو ”بنگلہ دیش کو میں نے دیکھا“ جیسا سفرنامہ ہے۔ اخبارات کے کالموں کا مجموعہ ”عرضداشت“ ہے تو کتابوں پر بھرپور تبصروں پر مبنی کتابیں ”ذوق مطالعہ“ اور ”نئی پرانی کتابیں“ ہیں۔ تنقیدی کتاب ”عہد سرسید کے ادبی و علمی نقوش“ ہے تو عربی ادب کے انتخاب و ترجمے پر مبنی کتاب ”روشن ہے ریگزار“ ہے۔ ان کے علاوہ بھی ان کی کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ میں نے ساری تو نہیں البتہ ان میں سے کچھ کتابیں ضرور پڑھی ہیں اور میں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے یہاں بڑا تنوع ہے۔ انھوں نے خود کو کسی ایک صنف یا کسی ایک موضوع تک محدود نہیں رکھا بلکہ متعدد اصناف پر قلم اٹھایا اور متعدد موضوعات کو دائرہ تحریر میں رکھا ہے۔
مثال کے طور پر ”جانے پہچانے لوگ“ میں پندرہ شخصیات پر خاکے یا تاثراتی مضامین ہیں جوان کے زرخیز ذہن کی عکاسی کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے والد جناب اشرف قادری ایڈووکیٹ مرحوم کا جو خاکہ لکھا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے قلم پر جذبات کو حاوی نہیں ہونے دیا ہے۔ بلکہ اپنے والد کی سرگرمیوں اور ان کی خدمات پر، جو کہ وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے، اس انداز سے روشنی ڈالی ہے کہ قاری ان پر جانبداری کا الزام نہیں لگا سکتا اور نہ ہی یہ کہہ سکتا کہ انھوں نے اپنے والد کی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔57 صفحات پر مشتمل اس مضمون میں، جو کہ بجائے خود ایک کتابچہ ہے، بڑی باریک بینی سے کام لیا گیا۔ جزیات پر بھی نظر رکھی گئی ہے اور صاحبِ موصوف کی زندگی کے اوراق کو اس طرح کھولا گیا اور ان کا مطالعہ کیا گیا ہے کہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے والد یا والدین کے خاکے لکھے ہیں لیکن بیشتر میں جذبات نگاری نظر آتی ہے۔لیکن یہ خاکہ اس سے پاک ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھوں نے اپنے والد کی حیثیت کو کہیں کم کیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے انھیں جیسا دیکھا، جیسا پایا اور جیسا سمجھا ویسا من و عن پیش کر دیا۔ اس خاکے کی زبان بھی بہت اچھی ہے۔ مثال کے طور پر ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”بغیر کسی مفاد اور توقع کے دوچار برس نہیں بلکہ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک وہ بہت کچھ کرتے رہے۔ ناکامیاں اور مایوسیاں بھی ساتھ ہوئیں، کبھی اپنوں کے تیر بھی لگے ہو ںگے اور جگر چھلنی ہوا ہوگا مگر توقع امید اور مفاد کی بھٹی میں جو نہیں تپا ہو اور فقر و درویشی کے مدارج کو جس نے پیمانہ حیات بنا رکھا ہو اس کے لیے دنیا میں کام کرنا اور بغیر کسی صلے کے گزر جانا مشکل نہیں۔ اس بے لوثی نے ادبی طور پر انھیں زیادہ مشہور و معروف نہیں ہونے دیا مگر جس اعتماد اور وقار کے ساتھ وہ اس دنیا سے اٹھے اس سے مجھے یقین ہے کہ وہ بہت چین اور آرام سے اگلے سفر کے لیے نکلے“۔
چودھ صفحات پر مشتمل والدہ کا خاکہ بھی پڑھنے کے قابل ہے۔ اس کو پڑھ کر مجھے اپنی والد کی یاد آگئی۔ وہ بھی اپنی ماں کو اماں کہتے تھے اور ہم لوگ بھی اپنی ماں کو اماں ہی کہتے تھے۔ مجھے پتہ نہیں کیوں ان دونوں ماوں میں کئی قدریں مشترک محسوس ہوئیں۔ مثال کے طور پر محلے کے لوگوں کا ان کے اردگرد جمع رہنا اور ان کا ان کے دکھ سکھ میں شامل ہونا۔ لوگوں کی مدد کرنے کا جذبہ اور گھر کی ضرورتوں کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری۔ البتہ فرق صرف اتنا نظر آیا کہ وہ ایک امیر و کبیر باپ کی بیٹی تھیں اور ہماری اماں ایک غریب باپ کی بیٹی۔ لیکن مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ اس خاکے نے مجھے اپنی والدہ کی یادوں کو تازہ کر دیا اور میں تادیر ان یادوں میں کھویا رہا۔ میرے خیال سے یہی کیفیت بہت سے قارئین کی ہوئی ہوگی۔
انھوں نے ”وہاب اشرفی: ایک شخصی مطالعہ“ کے عنوان سے جو خاکہ لکھا ہے اس میں جہاں وہاب اشرفی سے اپنے قریبی مراسم پر خاصی گفتگو ہے وہیں اس میں ان کے جذباتی تعلق پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو جو جیل سے پٹنہ میڈیکل کالج میں ان کے منتقل ہونے کے بعد کے کے تاثرات پر مبنی ہے:
”جیل ہو یا اسپتال وہاب اشرفی کا اصل مسئلہ ان کی تنہائی تھا۔ اہل و عیال پیچیدہ قانونی داو پیچ سلجھانے میں پٹنہ اور دلی الجھے ہوئے تھے۔ میں نے اپنے ایک دو عزیز شاگردوں پر یہ لازم کر دیا کہ انھیں روزانہ دن میں ایک بار ضرور اسپتال جانا ہے اور وہاب اشرفی کے پاس گھنٹہ دو گھنٹہ رہ کر ان سے باتیں کرنی ہیں، ان کی دلجوئی کرنی ہے۔ دوپہر میں کالج سے واپس ہوتے ہوئے میں سیدھے اسپتال پہنچتا اور گھنٹہ دو گھنٹہ وہاب اشرفی کے ساتھ ان کی خوشی کے لیے دنیا جہان کے موضوعات پر گفتگو کرتا رہتا۔ یہ سلسلہ تقریباً چھ ماہ سے زیادہ قائم و دائم رہا۔ ان کے رشتے دار، احباب اور بہت سارے شاگرد بھی آتے جاتے رہے۔ تنہائی میں بعض لوگوں کے بارے میں وہاب اشرفی نے بہت دکھ بھرے جذبات کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ بہت سارے لوگ جنھیں میں نے ہزا رفائدے پہنچائے لیکن وہ میری اس مشکل گھڑی میں مجھ سے کنارہ کش ہو گئے“۔
اس اقتباس سے جہاں وہاب اشرفی سے صفدر امام قادری کے تعلق کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ان کی انسان دوستی اور بیماروں کی عیادت کے سلسلے میں اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ انھوں نے صرف ایک جملے میں وہاب اشرفی کے عزیزوں کے بارے میں اشارتاً جو کہا ہے وہ ایک مضمون پر بھاری ہے۔ اس خاکے سے وہاب اشرفی کی زندگی کے ان گوشوں پر بھی روشنی پڑتی ہے جو عام طور پر لوگوں کی نظروںمیں نہیں ہیں۔
چونکہ ڈاکٹر صفدر امام قادری درس و تدریس سے وابستہ ہیں اس لیے وہ محرمِ اسرارِ درونِ خانہ ہیں۔ وہ یہ بات خوب جانتے ہیں کہ کون درس و تدریس کا فریضہ حقیقتاً انجام دے رہا ہے اور کون اسے محض ایک پیشے کے طور پر اختیار کیے ہوئے ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ یونیورسٹیوں میں بہت سی صلاحیتیں کس طرح انتظامی امور کی انجام دہی کے بوجھ کے نیچے دب کر ختم ہو جاتی ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان انتظامی ذمہ داریوں کی آماجگاہ میں پھنسے رہنے کے باوجود کچھ لوگوں کی تخلیقی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں لیکن باہر کے لوگ ان سے واقف نہیں ہو پاتے۔ پروفیسر ناز قادری پر آپ کا مضمون جہاں بہت سے اسرار سے پردہ اٹھاتا ہے وہیں اس صورت حال سے بھی قارئین کو آگاہ کرتا ہے۔ ورنہ وہ ان کی انتظامی سرگرمیوں پر رائے زنی کرنے کے بعد یہ نہیں لکھتے:
”جنھیں اپنے علمی نتائج دنیا کے سامنے لانا ہے انھیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک ایسی دنیا کا قیدی بن جائیں جہاں علم دوستی کے بجائے اقرباپروری اور بے انصافی کا باضابطہ کاروبار چلتا ہے۔ اس دوران انھوں (پروفیسر ناز قادری) نے بڑے ادبی اجتماعات سے خود کو خاصا دور رکھا جس کے سبب نئے نئے موضوعات پر وہ کس انداز سے غور و فکر کر رہے ہیں، یہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔ اس موقعے سے ہر اس باصلاحیت استاد کو یہ احتساب کرنا چاہیے کہ آخر ا س نے اپنے طلبا کو کتنا ہنرور بنایا اور موضوعاتِ تعلیم و تدریس پر اس نے کن نئے پہلووں سے غور و فکر کیا اور مضامین یا کتابوں کی شکل میں کون سے نئے علمی نکتے سامنے لائے“۔
یہ اقتباس جہاں درس و تدریس کے پیشے کی خامیوں کی جانب انگشت نمائی کرتا ہے وہیں ڈاکٹر صفدر امام قادری کے اس اندرونی کرب کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ ایک استاد کا کام صرف اپنے شاگرودں کو پڑھا دینا نہیں ہے بلکہ ایک طرف انھیں ہنرور بنانا ہے اور دوسری طرف انھیں نئے نئے موضوعات کے سمندروں میں غوطے بھی لگانا ہے تاکہ وہ علمی نکتوں کے ایسے موتی نکال کر سامنے لا سکیں جو آگے چل کر طلبا کو مزید باصلاحیت بنانے کے ساتھ ساتھ ادب میں ایک نئی راہ بھی قائم کرنے میں مدد دیں۔
اسرار جامعی ہمارے عہد کے ایک ایسے طنزیہ و مزاحیہ شاعر تھے جو حالات کی ستم ظریفی اور اپنوں کی بیوفائیوں کی وجہ سے تازندگی عسرت وتنگ دستی میں اور مصائب و مسائل کے جلو میں رہے۔ حالانکہ وہ شاعر بھی بڑے تھے اور انسان بھی۔ لیکن لوگوں نے ان کی قدر نہیں کی۔ ان سے میری دہائیوں کی شناسنائی رہی ہے۔ وہ جب بھی دہلی میں ہوتے تو اکثر و بیشتر غریب خانے پر بھی تشریف لاتے اور آتے ہی کوئی نہ کوئی مزاحیہ جملہ اچھال دیتے۔ میں نے ان کی زندگی کے آخری ایام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جب وہ جامعہ نگر میں بٹلہ ہاوس کے پاس حسرت موہانی کالونی میں مشتاق احمد ایڈووکیٹ کے فلیٹ میں (مشتاق بھائی بھی راہی ملک عدم ہو گئے) تن تنہا مصائب و مشکلات سے نبردآزما رہے۔ وہ نہ صرف مختلف عوارض کے بھنور میں رہے بلکہ ایک طرح کی فاقہ کشی سے بھی دوچار رہے۔ میں نے ان کو جس حالت میں دیکھا تھا وہ ناقابل بیان ہے۔ لیکن اس عالم میں بھی انھوں نے خودداری اور غیرتمندی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ میں نے بھی ان پر کئی مضامین سپرد قلم کیے ہیں لیکن ڈاکٹر صفدر اما م قادری کا سترہ صفحات پر مشتمل مضمون کئی پہلووں سے اچھوتا اور یادنگاری کا اچھا نمونہ ہے۔ اس میں ان کے شب و روز پر بھی روشنی پڑتی ہے اور ان کی شاعری پر بھی اور ان کے ساتھ لوگوں نے جو ناانصافی برتی ہے اس کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
یہ اردو والوں کے لیے کتنی بڑی بدنصیبی کی بات ہے کہ دہلی میں اسرار جامعی کو بقید حیات ہوتے ہوئے بھی مردہ قرار دے دیا گیا۔ اس طرح دہلی اردو اکادمی کی جانب سے دیا جانے والا اعزازیہ بند ہو گیا۔ انھیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت اس وقت کی دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دیکشت کے سامنے ذاتی طور پر حاضر ہو کر پیش کرنا پڑا۔ اس کے بعد شاید ان کا اعزازیہ بحال کر دیا گیا تھا۔صفدر امام قادری نے اسرار جامعی کے حوالے سے شعرا و ادبا کے ساتھ اردواداروں کی جانب سے کی جانے والی ستم ظریفیوں پر جس دلی کرب کا اظہار کیا ہے وہ سو فیصد درست ہے۔ ان کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”اسرار جامعی کی زندگی جس قدر دردانگیز ہے اس سے بڑھ کر عبرت آموز بھی ہے۔ اسے جبرِ مشیت کہہ دیں تو آسانی سے صبر کیا جا سکتا ہے۔ مگر اسرار جامعی زندگی کی شام میں اندھیری رات کے مسافر ہو گئے۔ …. ہندوستان میں بنگلہ اور مراٹھی یا جنوبی ہندوستان کی بعض زبانوں کے مصنفین آزادانہ طور پر اپنی تصنیفات کی رائلٹی کی بدولت اپنی اور اپنی اولاد کی پرورش و پرداخت کرتے ہیں۔ مغرب اور انگریزی کے لکھنے والوں میں ایک طویل فہرست ہے جو صرف تصنیف و تالیف کی بدولت کشادگی سے رہتے ہیں۔ اردو ان معنوں میں عجیب و غریب انداز کی زبان ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بھرے پڑے ہیں۔ کتابوں کی اشاعت کے لیے مالی تعاون ، کتابوں پر انعامات اور مجموعی خدمات کے لیے تھوڑے بہت انعامات۔ کتابوں پر بازار کی شرح کے مطابق رائلٹی کوئی دینا نہیں چاہتا۔ کسی ادارے نے یک مشت ادائیگی کا کچھ اصول بھی بنایا تو وہ رقم بھیک جیسی ہی ہوتی ہے“۔ ایسے دردانگیز متعدد اقتباسات اس مضمون میں ملیں گے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ اسرار جامعی ہماری یادوں میں زندہ رہیں گے۔
بنگلہ دیش کا سفرنامہ ”بنگلہ دیش کو میں نے دیکھا“ بہت معلوماتی ہے۔ یہ دراصل دو سفرناموں کا ایک سفرنامہ ہے یا یوں کہیں کہ دو اسفار کا ایک سفرنامہ ہے۔ انھوں نے اپنے ابتدائیہ میں اس پر اظہار خیال کیا ہے کہ لوگ کن ملکوں کا سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن بنگلہ دیش کا سفر! وہ نہ تو یوروپی ملک ہے نہ خلیجی۔ وہاں کوئی کیوں جائے۔ ان کے بھی لاشعور میں کچھ اسی قسم کے خیالات تھے۔ لیکن جب ڈھاکا کے شعبہ اردو سے انھیں سمینار میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو انھیں اس کا احساس ہوا کہ ہاں بنگلہ دیش کا بھی سفر کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ڈھاکہ کے پانچ روزہ قیام نے بنگلہ دیش کے بارے میں ان کے خیالات بدل دیے۔
سفرنامے دراصل بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ قاری سفر کے حالات اور جہاں کا سفر کیا گیا ہے وہاں کی تفصیلات پڑھتا ہے جس سے ایک تو اس کے علم میں اضافہ ہوتا دوسرے اس حوالے سے سفرنامہ نگار کے بارے میں بھی اس کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن سفرنامے ایک اور چیز سے ہمیں روشناس کراتے ہیں اور وہ بہت اہم ہے۔ یعنی اس ملک کی تہذیب و ثقافت، رہن سہن، آدابِ معاشرت، لوگوں کے اخلاق وغیرہ وغیرہ۔ ڈاکٹر صفدر امام قادری نے کتنی اچھی بات لکھی ہے کہ ”سفرنامے تہذیب و معاشرت کے جلوے لٹانے کے لیے ہی شاید لکھے جاتے ہیں۔ کھلی آنکھو ںاور کھلی باہوں سے زندگی کے نئے ذائقے کی تلاش میں ہم ملکوں ملکوں اور شہروں شہروں سرگرداں رہتے ہیں۔ اپنے علم یا تجربے یا مشاہدے کو دوسروں کی زندگی میں حلول کرکے اس دوران ہم ایک ایسی دنیا تک پہنچنا چاہتے ہیں جو حقیقی بھی ہو اور ہماری تمناوں کا سہارا بھی بن سکے۔کہنے کو سفرنامے آنکھوں دیکھے احوال اور حقیقی گوشوارہ ہیں۔ مگر یہ اس سے سوا بھی بہت کچھ ہیں“۔ اس سفرنامہ کی کئی قسطیں روزنامہ انقلاب میں شائع ہوئی تھیں۔ لیکن اس کو کتابی شکل میں بالاستیعاب پڑھنے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔
بنگلہ دیش کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ وہ ایک پسماندہ ملک ہے۔ لیکن اس نے جس طرح تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کی ہے اور اس کی معیشت نے جو چھلانگ لگائی ہے تو وہ ہندوستان سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ انھوں نے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے کہ آخر وہ معاشی ترقی میں ہمارے ملک سے کیسے آگے نکل گیا۔ صفدر امام قادری نے بالکل درست لکھا ہے کہ ”اب پسماندگی کی مثال نہیں ہے بنگلہ دیش“۔ لیکن ڈھاکہ کے بارے میں 1976 میں شیخ محمد عبداللہ کے کلکتہ کے دورے اور اس موقع پر کیے گئے ان کے تبصرے کے حوالے سے انھوں نے بڑی دلچسپ بات کہی ہے۔ ان کے بقول ڈھاکہ پہنچتے ہی ہمیں ان کا قول یاد آگیا اور محسوس ہوا کہ ”ڈھاکہ شہر کی ساری جدید ترقیات کے باوجود ٹریفک کی رفتار کچھ اس قدر سست ہے کہ جیسے بیل گاڑیوں کے دور میں کسی جگہ چلنے پھرنے کی رفتار رہتی ہوگی۔ ٹریفک پولیس ہر جگہ موجود ہے۔ الیکٹرانک سگنل بھی چوراہوں اور گلیوں تک میں کام کرتے نظر آئے۔ سڑکیں بھی خوب چوڑی۔ ڈبل ڈیکربس کی بھی بھرمار۔ ون وے اور ٹو وے کا بھی خاص اہتمام۔ مگر سب کا نتیجہ صفر“۔ یہاں تک کہ فور ویلر سے دس کلومیٹر سے زائد کی رفتار سے نہیں چل سکتے۔ لیکن اس کے باوجود وہاں کی معیشت نے چوکڑی بھری ہے اور کافی آگے تک نکل چکی ہے۔
یہ دنیا جانتی ہے کہ بنگلہ دیش کا قیام زبان کی بنیاد پر ہوا تھا۔ مغربی پاکستان کی آبادی اپنی ہی اس مشرقی پاکستان کی آبادی سے اس کی لسانی تہذیب کی وجہ سے ہم آہنگ نہیں ہو سکی اور اس نے اپنے ہی اس بازو کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا نتیجہ اس شکل میں نکلا کہ وہ بازو، ہی اس سے الگ ہو گیا۔ اب وہی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی شکل میں پاکستان کو متعدد شعبوں میں پچھاڑ چکا ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی بھی اپنی زبان کے حوالے سے دوسروں کی طرح حساس ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اردو سے دشمنی نہیں رکھتی۔ بلکہ اگر ہم صفدر امام قادری کے ڈھاکہ یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی سمیناروں کی تفصیلات پڑھیں جو رپورتاژ کی شکل میں ہیں تو یہ اندازہ ہوگا کہ وہ بھی اردو زبان کی چاشنی، حلاوت اور کشش کے دیوانے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس زبان کے سمیناروں کے لیے جو ان کی اپنی نہیں ہے، دنیا بھر کے اردو ادیبوں کو کیوں مدعو کرتے اور ”معاصر دنیا میں اردو“ اور ”اکیسویں صدی میں اردو ادب“ کے زیر عنوان سمیناروں کا انعقاد کیوں کرتے۔
اس کتاب میں بنگلہ دیش اور وہاں اردو کی صورت حال کے بارے میں اتنی تفصیلات جمع کر دی گئی ہیں کہ سفرنامہ انتہائی معلوماتی اور سبق آموز ہو گیا ہے۔ اہل اردو کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے اس سفرنامہ کی بدولت ہندوستان کے اردو والوں کے سامنے ایک ایسی کھڑکی کھول دی جو ابھی تک بند تھی یا کم کھلی تھی۔ اس کھڑکی سے اردو زبان کے حوالے سے جو ٹھنڈی ہوائیں آتی محسوس ہوئیں اس نے دل و جان میں فرحت و انبساط کی لہر دوڑا دی۔ اس کتاب کی زبان انتہائی سہل، سادہ، سلیس اور شستہ ہے اور دوسری کتابوں سے الگ اپنا انداز رکھتی ہے۔ پوری کتاب قلم برداشتہ معلوم ہوتی ہے۔ اس سفرنامہ میں یہ خوش خبری بھی پڑھنے کو ملی کہ بنگلہ دیش میں ”بزم صدف انٹرنیشنل“ کی شاخ قائم کر دی گئی ہے۔ اس میں وہاں کے مختلف مقامات کی سیر اور اردو کے بعض قلمکاروں کے بارے میں جو تفصیلات پیش کی گئی ہیں وہ نہایت دلچسپ ہیں۔
ڈاکٹر صفدر امام قادری کثیر المطالعہ ادیب ہیں۔ انھوں نے مختلف کتابوں پر اظہار خیال بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے دو مجموعے ”نئی پرانی کتابیں“ اور ”ذوق مطالعہ“ شائع ہوئی ہیں۔ ان کتابوں کو پڑھنے سے جو پہلا تاثرپیدا ہوا وہ یہ ہے کہ یہ مضامین کتابوں پر روایتی تبصروں سے مختلف ہیں۔ بلکہ بعض مضامین تو تحقیقی نوعیت کے ہیں۔ اس کے لیے کسی خاص صنف کو منتخب نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان کو جو کتاب اچھی لگی اس پر انھوں نے اظہار خیال کر دیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ بیشتر مضامین بڑی دلجمعی سے لکھے گئے ہیں۔ ان کتابوں میں تحقیقی، تنقیدی، ادبی، کلاسک، ڈرامہ، فکشن اور شاعری سب کچھ ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے انھوں نے خود کو کسی ایک مخصوص میدان یا مخصوص صنف کا قیدی نہیں بنایا بلکہ جس طرح انھوں نے مختلف النوع موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اسی طرح مختلف النوع کتابوں پر اظہار خیال بھی کیا ہے۔ متعدد مضامین کی بڑی ادبی اہمیت ہے۔ اگر اردو شعبوں کے طلبا ان مضامین کا مطالعہ کریں تو ان کے علم میں کافی اضافہ ہوگا۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر صفدر امام قادری ایسے اساتذہ اور ادیبوں میں شامل ہیں جن کی علمی سرگرمیاں انھیں تادیر زندہ رکھیں گی اور کم از کم اس وقت تک زندہ رکھیں گی جب تک کہ ان کی کتابیں موجود ہیں اور جب تک کہ ان کے شاگردوںکی یہ نسل موجود ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button