مضامین و مقالات

کسی کو بےجا بدنام و رسوا کرنا، اس پر انگلی اٹھانا آسان لیکن۔۔۔

 

۔ نقاش نائطی

نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی

۔ +966562677707

 

صرف اور صرف انبیاء کرام معصیت سے پاک ہیں۔ اور نظام آسمانی مذاہب عمومی کمیوں خامیوں سے مبراء ہوا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کا ہر نظام اور دنیا کے ہر ٹھیکیدار، ہزار کمیوں خامیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ خلافت راشدہ عثمانیہ بعد والا عالم پر ابر رحمت کی حیثیت پیش کیا گیا امریکی جمہوری نظام،جس طرح سابقہ سو سالا عالمی بکاؤ میڈیا کے ذریعہ سے، دانستہ بڑھا چڑھا کر ابر رحمت انسانیت کے طور، عالم انسانیت کے اذہان میں بھردیا گیا تھا، کتنا انسان دوست و دشمن ہے ابھی حال رواں، اسرائیل فلسطین حرب دوران، کچھ اس طرح عالم انسانیت پر عیاں ہوچکا ہے کہ مسیحی ممالک کے اعلی تعلیم یافتہ عوام، اپنے اس بیہودہ جمہوری نظام سے نالاں، اپنے مغربی حکمرانوں کے خلاف، سراپا احتجاج سڑکوں پر نکلے نظر آتے ہیں

عالم انسانیت کے لئے پروانہ آزادی اظہار رائے زنی کا پرچم بلند کئے،عالم پر چھایا جمہوری نظام کتنا انسانیت دشمن ہے یہ کوئی مصر و پاکستانی جمہوری اقدار تقابل کر دیکھے، عوام کے چہیتے اخوان پارٹی سربراہ محمد مرسی کو فوجی ڈکٹیٹر یہود و امریکہ نواز عبدالفتح سیسی، قانون وعدلیہ کو بالائے طاق رکھے، زنداں میں قید و بند مرسی کے لئے اسی زنداں کو ‘جائے موت’ بنادیتا ہے، لیکن جمہوریت کے والی امریکہ و یورپی عوام خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں، اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئے مملکت پاکستان کو سابقہ پچھتر سال میں،پہلی دفعہ قائد اعظم ثانی کی صورت ملے عمران خان کو،اپنے زر خریدقومی لٹیرےزرداران و شرفاء کو آگے کئے، فوجی جرنیلوں کی مدد سے،بے قصور عمران خان کو جیل کی کال کوٹھری میں بند رکھے، کیسے مملکت پاکستان کو معشیتی طور تباہ و برباد کیا جارہا ہے دیکھا جا سکتا ہے۔ آج سے پچاس برس قبل تک اسی کے دہے سے قبل بھارتیہ ریاست کیرالہ سے طبع و نشر ہونے والےکثرت الاشاعت ملیالم اخبار ملیالا منوراما کا اسلام مذہب پر شائع ہوئے،خصوصی شمارہ میں، دین اسلام کا تعارف کرتے ہوئے یہ لکھا گیا تھا کہ آسمانی قرآنی مذہب اسلام کا کم وبیش عملی نمونہ مملکت سعودی عربیہ میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ اور بات پے کہ سابقہ دس بیس سال دوران، اپنی مملکت کو ترقی پزیر عالم سے ہم آہنگ کرنے کی دوڑ میں، سعودی حکمرانوں نے بہت سارے ایسے بدلاؤ کئے ہیں جس سے،سابقہ دس بیس سال قبل کا سعودی دینی ماحول بہت حد تک اثر انداز ہوا ہے۔ لیکن دین اسلام کی اصل روح، ایمان و یقین بالرزق و موت و حیات کے معاملہ میں، شرک و بدعات و قبرپرستی سے ایک حد پاک و صاف، سر زمین سعودی عرب عالم میں اپنی اچھوتی پہچان اب بھی رکھتا ہے۔اگر مملکت سعودی عرب کے حکمران یا عوام ذاتی اعتبار انسانیت خلاف کچھ عمل کر بیٹھتے ہیں تو اس کا اطلاق پورے مملکتی قانون و عدلیہ پرلاگو کئے، مملکت سعودی عربیہ کو ہی بدنام و رسوا کرنےوالے یقیناً اسلام دوست نہیں ہوسکتے ہیں۔خامیوں خوبیوں سے لبریز انسانی معاشروں میں، امریکہ برطانیہ جرمنی فرانس و برصغیر ھند و پاک کے مقابلے،آج بھی سعودی عرب کا ماحول، ہر لحاظ سے انسانیت دوست اور لائق تکریم معاشرہ ہے۔ آج بھی مملکت میں عالم کے کسی بھی ملک کا باشندہ،مملکت میں اپنی قانونی حیثیت سکونت پزیری کے ساتھ،ایک حد تک انصاف کے تقاضوں کے اعتبار سے، سعودیوں ہی کیطرح آزادانہ رہتا آیا ہے۔ یہان مملکت میں نساء، شب کے کسی بھی حصہ میں، مملکت کے کسی بھی حصہ میں، آزادانہ نقل و حرکت کرتی پائی جاسکتی ہے۔ یہاں آج بھی کالا گورا، امیر و غریب، نوکر و مالک کے درمیان تفاوت نہیں پائی جاتی ہے۔ سڑکوں پر صفائی کام سے وابسطہ خاکروب بلدیہ ملازم بھی،مساجد میں،یونیفارم میں، علاقے کے تونگروں کے ساتھ، کندھےسے کندھا ملائے، محمود وایاز کی طرح نہ صرف نماز پڑھتے پائے جاتے ہیں،بلکہ عوامی محافل شادی بیاہ ہی میں نہئں، اکثر و بیشتر امراء کے گھروں میں بھی، نوکر و مالک ایک دسترخوان پر شیر شکر بنے،ساتھ کھانا کھاتے دیکھے جاتے ہیں۔

(مملکت حرمین شریفین کو بدنام و رسوا کرنے کی مذموم کوشش)

https://x.com/Mohammedfarooq8/status/1830367188383043649?t=rtaqLSpEMElgIdtXljofjQ&s=08

ایسے پرامن اور عمومی طور انسانیت کے درمیان برابری و انصاف بکھیرتے ماحول میں،ذاتی نوعیت کے ایک دو ھند و پاک تارکین وطن کے ساتھ ہوئے، ناانصافیوں پر مبنی واقعات کو بڑھا چڑھا کر مرچ مصالحہ لگاتے ہوئے فلم نکالتے ہوئے، سعودی عرب کے ایک حد تک اسلامی ماحول کو پراگندہ و بدنام کرنا،یقیناً مملکت سعودیہ کے ساتھ نا انصافی ہے ۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے فی زمانہ بھارت پر، اپنی مسلم منافرتی دور حکومت میں، سنگھی حکمرانوں نے، بھارت میں ہم مسلمانوں کے اعلی اقدار و تاریخ کو مسخ کرتی بیشمار فلمیں ریلیز کئے ہیں۔ حالیہ دنوں کیرالہ کے فلم پروڈیوسر بلیسی نے اپنے گھریلو گلم پروڈکشن ہاؤس کے نام سے، مملکت سعودی عرب کو بدنام کرتے،جس واقعہ کو بنیاد بنا فلم ریلیز کی ہے ہوسکتا ہے وہ واقعہ صحیح بھی ہو۔ اور اس کیرالہ ملازم کے ساتھ زیادتی بھی ہوئی ہو، لیکن جس مملکت سعودی عرب میں، نہ صرف ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کم و بیش ہم تارکین وطن مصروف معاش ہوں، یہاں کے انصاف پرور اسلامی حکومتی نظام کے تحت مستفید بھی ہورہے ہوں، اس میں سے ایک دو ایسے واقعات پر جوکہ تناسبی اعداد و شمار میں، اعشاریہ صفر صفر صفر(0.0001%) ایک سے بھی کم آتے ہوں، اتنے قلیل تر تناسبی ناانصافی کا رونا روتے ہوئے، اس پر فلم بنا مملکت کو بدنام و رسوا کرنے کے عمل کو، کسی بھی جدت پسند، مہذب ترین معیار سے بھی صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ وہ جس کسی ملیالی پروڈیوسر نے مملکت کو بدنام کرنے والی فلم بنائی ہے اگر اسکے بدن میں، اسکے ماں باپ کا ہی اصلی خون دوڑ رہا ہے تو، وہ بھارتیہ سنگھی حکومت دوران, بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہم 300 ملین مسلمانوں پر ہوریے ھندو مذہبی ظلم و انبساط پر، ھندو شدت پسندوں کے، مسلم بزرگوں کو، اکیلے میں پکڑ پکڑ کر، انہیں زد و کوب کرتے، ان سے زبردستی، جئے شری رام کے نعرے لگوانے والے واقعات کی عکس بندی کر، سنگھیوں کے ظلم و ستم کودکھاتے، فلم پروڈیوس کر بتائے،یا آئے دن بھارت کے کونے کونے میں سنگھی حکومتی چھتر چھایہ میں، بھارتیہ ناریوں کے ساتھ ہونےوالے، متعدد یومیہ اجتماعی عصمت دری کے واقعات پر، بیسیوں فلمیں پروڈیوس کئے، بھارتیہ سنگھی ھندوؤں کے مستقبل کے رام راجیہ، مودی یوگی راجیہ کے انسانیت دشمن کرتوتوں کو طشت از بام کرتے،ہر ہر عصمت دری کے واقعہ پرجداجدا فلم پروڈیوس کر، اپنی ساہس و ہمت کو دکھائے۔ بھارت ہھر میں عام، کم سن بچیوں کے ساتھ ہونے والی بدفعلی اور ان بدفعلی کرتے سنگھی مجرموں کو سنگھی حکمرانوں کی طرف سے بچائے جاتے واقعات پر بھی یہ کیرالہ پروڈیوسر فلم پروڈیوس کر بتائے، انجان غیر ملکی سعودی کے عالمی مزدور قوانین خلاف ذاتی عمل کو، کروڑوں عالمی غیر ملکیوں کو مستفید کرنے والے، کسی بھی ذاتی نوعیت کے ہوئے واقعہ کے آدھے سچ کومرچ مصالحہ لگا، دل لبھاؤنی فلم بنا، عوام کے درمیان پیش کرتے ہوئے، انسانیت دوست، اور بھارتیہ حکومت کے سب سے بڑے تجارتی شریک، مملکت سعودی عربیہ ہی کو،اور سب اہم 2،000 ملین عالم کے مسلمانوں کے سب سے متبرک حرمین شریفین کے والی حکومت سعودی عرب کو بدنام و رسوا، کرنے والوں کو، اظہار حق رائے دہی ہی کے بہانے کسی دوست ملک کو بدنام کرتے فلم پروڈیوس کرنے ہی اجازت نہ جائے،بلکہ ان سنگھی ذہنیت پروڈیوسر سے ہوچھا جائے کہ، بھارت کے سنگھی حکمرانوں کے ظلم ستم کے خلاف وہ چپ سادھے خاموش کیوں ہیں؟

دراصل 1991 میں کیرالہ کے ایک نوجوان سے کافی پیسے لئے،ممبئی کا ایک ٹریول ایجنٹ،اسے دھوکے سے کسی سعودی کے،بکری چروایے کی ویزہ پر، مملکت سعودی عرب بھیجتا ہے۔اسکا سعودی اسے ایرپورٹ سے سیدھا حفرالباطن کے ریگستان کے بیچ، نخلستان میں لیجا چھوڑتا ہے۔ وہ کیرالہ ملازم ہزار اپنےسعودی کو یہ سمجھانے کی سعی کرتا ہے کہ اس کے ساتھ ممبئی کے ایجنٹ نے دھوکہ کیا ہے بہت سارے پیسے بھی لئے ہیں اور اچھا کام بتاکر بکری چرواہے کی ویزہ پر بھیجا ہے۔ لیکن عربی زبان سے نابلد، نہ اپنے سعودی کو سمجھاپانے میں کامیاب ہوتا ہے نہ سعودی اپنے چرواہے کی ویزہ پر آئے مزدور کو چھوڑنے تیار ہوتا ہے۔ مجبوراً یوں آپسی نااتفاقی میں وہ کیرالہ مزدور پانچ سال غلامانہ زندگی گزارتا ہے۔ پانچ سال بعد،اسکے اور سعودی کے درمیان تو تو میں میں، بات آگے بڑھتے بڑھتے،ہاتھاپائی تک نوبت آجاتی ہے۔جب سعودی اس کیرالہ مزدور کو، اپنے اکال سے مارنے لگتا ہے تو غصہ میں بھرا مزدور ہاتھ لگی کسی چیز سے سعودی کے سر پر پروار کردیتا ہے۔جس سے وہ سعودی موقع پر ہی دم توڑ دیتا ہے۔ اور کیرالہ مزدور سعودی کو قتل کرنے کے جرم میں قید کیا جاتا ہے۔ جب عدلیہ میں قضیہ پیش ہوتا ہے اور کیرالہ مزدور اس پر ہوئے ظلم کی داستان کورٹ کے سامنے پیش کردیتا ہے تب چونکہ مزدور نے سعودی کے حملہ سے بچنے کے لئے سعودی پر حملہ کیا تھا اسلئے اقدام قتل سازشانہ کے بجائے مدافعانہ قرار دیتے ہوئے، قتل کے بدلے قتل کی سزا کے بجائے، سعودی قانون مطابق، مقتول کی جان کےبدلے دیت کی رقم ایک لاکھ ستر ہزار ریال دئیے مزدور کی جان بخشی کی سزا سنائی جاتی ہے۔عدالت میں موجود انسانیت دوست عوام میں،اس کیرالہ مزدور کی کی ہمدردی کا جذبہ سامنے آتا ہے۔سعودی یوٹیوبر عبدالرحمن الدویلج، اپنے کسی سعودی پروگرام میں،اس کیرالہ مزدور کے ساتھ ہوئی ناانصافی پر مبنی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے، اس کے تئین انسانی ہمدردی کا جذبہ سعودی عوام کے دلوں میں جاگزیں کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور یوں، آج اس فلم کے ریلیزہونے سے تین ساڑھے تین سال قبل، سعودی عوام کا، انسانیت کی ہمدردی کے لئے کام کرتا ایک این جی او، اس کیرالہ مزدور کو جیل سے آزاد کرانے سرگرم عمل ہوجاتا ہے۔ اور آپس میں اپنے تعلقات والوں سے اس کیرالہ مزدور کی جیل آزادی دیت کی رقم ایک لاکھ ستر ہزار جمع کرنے لگتے ہیں۔اور یوں 2001 میں وہ انسانیت دوست این جی او سعودی نوجوان، ایک لاکھ ستر ہزار ریال، اس کیرالہ مزدور کے مقتول کفیل کےبچوں کونہ صرف ادا کردیتے ہیں بلکہ اس کے سعودی بچوں سے مکرر ملاقاتیں کئے، اس کیرالہ مزدور کے ساتھ ہوئے، اس کے مقتول والد کے ظلم کے بارے میں ان سےکہتے ہوئے،اپنے مرحوم والد کی مغفرت کی دعا مانگنے اور اسکے گناہ معاف کراتے اپنے مرحوم والد بزرگوار کو دوزخ سے بچانے،اس کیرالہ مزدور پر صلہ رحمی کرنے کا جذبہان میں ابھارتے ہیں اور یوں ان انسانیت دوست این جی اوز سعودیوں کی مدد سے، 2001 میں اس کیرالہ مزدور کی جیل سے رہائی ممکن ہوتی ہے بلکہ اس مقتول سعودی کے بچے، اس کیرالہ مزدور کے سامنے انہیں وصولی پائے ایک لاکھ ستر ہزار ریال رکھتے ہوئے،اسے تحفتاً قبول کرنے کی التجا و درخواسٹ کرتے ہوئے، اپنے متوفی والد کو سچے دل کے ساتھ معاف کرنے کی درخواسٹ کرتے ہیں۔ جو کیرالہ مزدور مجبوری میں اپنے گھر والوں سے دور پانچ سال تک غلامی کرتا رہا تھا اور غیر دانستہ ہی صحیح اسکے ہاتھ سے اسکے کفیل کے قتل کئے جانے کے بعد، وہ کبھی زندہ اپنے وطن اپنوں کے بیچ جانے کی امید چھوڑے، جیل میں سڑ رہا تھا۔اس کے ہاتھوں قتل ہوئے سعودی کے بچوں کی طرف سے، اس کے باپ کے قاتل کو اور تکلیف و اذیت دینے والے انسانی جذبہ بجائے،دیت میں انہئں ملی ایک لاکھ ستر ہزار ریال کی رقم، اسے ھدیتا” دیتے ہوئے،الٹا اس سے، اپنےمرحوم والد بزرگوار کے اس پر ہوئے، ظلم کے لئے معافی مانگنے کے اسلامی آداب و اقدار سے،وہ اتنا متاثر ہوتا ہے کہ برجستہ ایسے اچھے دین آسمانی، دین اسلام کو دل سے قبول کئے، مشرف بالاسلام،مسلمان ہوجاتا ہے۔اس کا اسلامی نام نجیب محمد رکھا جاتا ہے۔ وہ کیرالہ مزدور 2001 میں ایک ھندو سے مسلمان بنتے ہوئے، نہ صرف کیرالہ اپنے وطن واپس آجاتا ہے بلکہ دوبارہ بھی مزدوری کے لئے عرب کھاڑی ملک چلا جاتا ہے۔ اس پورے واقعہ کو جاننے کے بعد، اب قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا اس واقعہ کو ایسا توڑ موڑ کر، آدھے سچ کے ساتھ "دی گوٹ لائف” "بکرا زندگی” فلم بناتے ہوئے، کسی ایک ذاتی سعودی کی غلطی یا زیادتی پر،وہ بھی اس سعودی کے بچوں کے اس مزدور پر کرم فرمائی، معافی تلافی بعد، اس فرضی کہانی کے آدھے سچ پر، فلم بناتے ہوئے، امن عامہ اور اپنے انسانیت نواز خدمات کے لئے عالم بھر میں مشہور، سعودی حکومت،عرب قوم اور 2،000 ملین عالم کے ہم مسلمانوں کے دین اسلام کو بدنام کرتے فلم بنانا کیا صحیح اقدام ہے؟ اور اگرازادی حق رائے دہی کے جذبہ کے تحت فلم بنانا ہی تھا تو اس واقعہ سے منسلک اس کیرالہ مزدور کے ساتھ مقتول سعودی کے بچوں کے طرف سے کئے،احسن سلوک اور اپنے باپ کے قاتل کو انہیں دیت میں ملی ایک لاکھ ستر ہزار ریال کی کثیر رقم تحفتاً دئیے جانے اور انکے حسن اخلاق سے اس کیرالہ مزدور کے مسلمان ہوئے واقعہ کو بھی، فلم میں پورا پورا درشاکر، اسلام مذہب کے برحق ہونے کو عام انسانیت تی پہنچانا چاپئیے تھا۔ اسلام دشمن یہود و ہنود کی طرف سے، عربوں کو،ہم عالم کے 2،000 ملین مسلمانوں کو، اور ہمارے دین اسلام کو، بدنام کرنے کی جتنی چاہے کوشش کریں یہ دین اسلام تو، نصف صد سال بعد پورے عالم پر حکمرانی لائق و قابل بننا ہی ہے۔ خالق و مالک دو جہاں کی طرف سے، اس دکھتی تڑپتی انسانیت کی نجات کے لئے خاتم الانبیاء سرور کونیں مجتبی محمد مصطفی ﷺ کے بعد، اب کوئی اور نبی تو نہیں آنے والا ہے لیکن خاتم الانبیاء سرور کونین محمدمصطفی ﷺ کی عین پیشین گوئی مطابق،اسلامی ڈیڑھ ہزار سال اختتام کے آس پاس یعنی آج سے پچپن سال بعد کم و بیش 2080 کے آس پاس،دوبارہ عالم پر غیر عرب مگر اسلامی خلافت شروع ہونے والی ہے۔ اس پس منظر میں اس بات سے بھی انکار کیا ممکن ہے کہ مابعد خاتم الانبیاء خلافت راشدہ سے 1923 سکوت خلافت عثمانیہ تک،عالم کے زیادہ تر حصہ پر، جو انسانیت دوست سکون و اطمینان والی اسلامی خلافت تھی لیکن سکوت استنبول ترکیہ بعد والے سو سال دوران،عالم انسانیت پر ، عوامی جمہوری حکمرانی کے بہانے، قاتل انسانیت یہود و نصاری حکمرانی کے دوران، امن عامہ عالم ہی کے بہانے،عراق و لیبیا، افغانستان و سوریہ و یمن، کروڑوں مسلمانوں کے قتل عام سے، یہ عالم انسانیت،اب اس نام نہاد جمہوریت سے پوری طرح اوب سی گئی ہے۔ اور دوبارہ اسلامی خلافت نشاط ثانیہ کی آمد کی منتظر پائی جانے لگی ہے۔حالیہ خلیجی ممالک پر حربی بادل گھرتے پس منظر میں، نازی زایونسٹ یہودی ظلم و انبساط سے، قوم فلسطین آزاد ہوتے ہوئے،یہود و امریکہ کے زوال بعد، اسلامی خلافت یقیناً عالم انسانیت کے لئے، ایک خوش آئند ہوگا۔وماالتوفیق الا باللہ

مملکت حرمین شریفین کو بدنام و رسوا کرنے کی مذموم کوشش

A nefarious attempt to defame and disgrace the State of Haramain Sharifain

محاولة شنيعة لتشويه سمعة دولة الحرم الشريف والعار

हरम शरीफ़ राज्य को बदनाम और अपमानित करने का एक नापाक प्रयास

"بکرا زندگی” کیرالہ پروڈیوسر کی بنائی ھندی فلم، 1991 حفرالبالطن میں وقوع پذیر واقعہ کے آدھے سچ پر فلمائی گئی مملکت سعودی عرب کو بدنام کرنے کی سازش ہے اس کی عالمی سطح پر پذیرائی کے بجائے کھلم کھلا مذمت ہونی چاہئیے۔اس پر انشاءاللہ بہت جلد مفصل مضمون بھی آئیگا۔ ابن بھٹکلی

https://x.com/Mohammedfarooq8/status/1830367188383043649?t=rtaqLSpEMElgIdtXljofjQ&s=08

(بکرا زندگی کیرالہ پروڈیوسر کی بنائی ھندی فلم، 1991 حفرالبالطن میں وقوع پذیر واقعہ کے آدھے سچ پر فلمائی گئی مملکت سعودی عرب کو بدنام کرنے کی سازش ہے)

Goat life per bani Kerla Film ki Haqeeqt

https://www.facebook.com/61550037685744/posts/pfbid0JAygAuz6ZhoRN1A7yhoehsWXPrm2pNYEgoyiR3efumQ2uYuGzBHx5gnErU9cpoPrl/

کیرالہ فلم”ادھوجیوتھم”، "گوٹ لایف”،”بکرا زندگی” والے کیرالہ کے مزدور نجیب محمد کی کہانی

https://indianexpress.com/article/entertainment/malayalam/who-is-najeeb-muhammad-the-man-on-whom-blessy-prithviraj-aadujeevitham-the-goat-life-is-based-9234169/

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button