اسلامیات،افسانہ و غزلیات

عید الاضحی : مقصداور پیغام

مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی

(مقیم حال مکہ مکرمہ)
چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور ، کرناٹک وجامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور ، بہار

ہر سال ہمارے درمیان عید قرباں کے تاریخی ایام آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے آج بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ اس کی حقیقت کو جانیں اور سمجھیں کہ اس میں ایسی کون سی خصوصیات ہیں کہ اس دن کو قیامت تک کے لیے یادگار قراردیاگیا ہے۔
دراصل اس عید کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اورخدا کے ساتھ محبت اور وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی انسان محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے جو قربانی میں مطلوب ہے، تو وہ ایک ناحق جاندار کا خون بہاتا ہے۔
خدا کو گوشت اور خون کی کوئی حاجت نہیں وہاں تو جو چیز مطلوب ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جو انسان کلمہ لا اِلٰہ پر ایمان لائے وہ مکمل طور پر بندہ حق بن کر رہے۔ یہی قربانی اسلام کی اصل حقیقت ہے۔
اسوۂ ابراہیمی توحید کی علامت ہے، گناہ تو ہر آدمی سے ہوتے ہیں، کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں لیکن زندگی کا رخ بس ایک ہی ہے، ہماری پوری زندگی کا رخ اسی کی طرف ہونا چاہیے جو بیت الحرام کا رب اور مالک ہے۔ زندگی کا ایک رُخ، ایک قبلہ، ایک مقصد، ایک منزل ہو۔ اس فرمان کے مطابق جس کا اقرار ہم ہر دن کرتے ہیں۔ وہ اقرار ہمارا عملی نمونہ بن جائے کہ
إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (انعام:79)
’’میں نے تو یکسو ہوکر اپنا رُخ اس ہستی کی طرف کرلیا ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
آج بھی ہوجو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
عید الاضحی کا بنیادی فلسفہ ہی قربانی،ایثار، خلوص اور اللہ کی راہ میں اپنی عزیز ترین چیز نچھاورکردینا ہے۔ اگرعید الاضحی سے ہرطرح کی قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحی کا مفہوم بے معنی ہوجاتا ہے۔
اس عظیم اور خوشی کے موقع پران لوگوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے ، جو آج پریشان حال ہیں ،جن کے پاس کل تک سب کچھ تھا لیکن آج وہ آپ کے ایک ایک روپیہ کے محتاج ہیں۔
ضروری ہے کہ فرضیت ووجوب کے علاوہ آپ اس موقع پر امدادکریں تاکہ ان میں سے جو مسلمان ہیں وہ بھی تھوڑی دیر کیلئے خوشی مناسکیں اور جو غیر مسلم ہیں توان کی داد رسی ہوسکے ۔
عالم اسلام آج جس گرداب میں الجھ گیاہے یہ کسی اور کی مسلط کردہ نہیں امت کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔
قرآن و سنت ، اتحاد امت کے اصولوں سے روگردانی کے نتائج میں حج کے موقع پر کعبۃ اللہ کے گر د اکٹھے ہونے والے سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے قربانی کرنے والے متوالے فرزندان توحید اپنی انا ، ضد ، نفرت و تعصبات کے بتوں کو توڑ دیں ، قربان کر دیں تو عالم اسلام بحرانوں سے نجات پا لے گا۔
اسلام کی تعلیمات ، حج کا پیغام امن ہے ، برداشت ہے ، بھائی چارہ ہے اور اللہ سے دوستی کا ذریعہ ہے۔ اسلام دنیا میں ہمیشہ امن قائم کرنے کی بڑی تحریک ہے۔ اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ عیدالاضحی کا صحیح حق تو اس وقت اداہوگا جب ہم اس کے تقاضوں کو پورا کریں گے اور اس کی ضرورت، اہمیت، افادیت اور مقصدیت پر غوروفکر کر کے اس کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
درحقیقت بے سہارااوریتیموں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنا اوراخوت ومحبت کے جذبے کو فروغ دینا ہی عیدالاضحیٰ کا حقیقی پیغام ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button