
مولانا احمد نصر بنارسی ،اورخانقاامدادیہ بنارس
اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت میں جہاں تعلیم و حکمت ہے، وہیں تزکیہ نفس و اصلاح باطن بھی ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ سلم نے اپنےصحابہ کو جہاں قرآن کے الفاظ و معانی کی تعلیم دی، وہیں اخلاقی تربیت،احسانی کیفیات، اور اعلی اقدار کا بھی انہیں حامل بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام علم و ہنر، سپہ سالاری و جواں مردی، قیادت وسیادت کے میدان کے شہ سوار ہونےکےساتھ اخلاق وکرداراور روحانیت و للہیت کے پیکر جمیل کاعملی نمونہ تھے۔انہوں نے دین اسلام کے پیغام کوپورے عالم تک پہونچانے کے ساتھ احسانی کیفیات کو بھی دوسروں تک منتقل کیا۔ دین اسلام کی ترسیل وترویج کا عظیم کارنامہ انجام دے کر صحابہ کرام نے دین مبین کی تمام پہلووں سے حفاظت فرمائیں، اوراس کے دائرہ اثرکو وسیع سے وسیع ترکیا، ان کے بعد یہ سلسلہ تابعین سے ہوتا ہوا امت کے جلیل القدر مصلحین عظام ، مجددین کرام،اور اصحاب دعوت و عزیمت تک پہونچا، اور ہرعہد میں تزکیہ نفس کا نظام بڑے پیمانہ پرجاری و ساری رہا –
تزکیہ نفس کا نام بعد میں تصوف زبان زد عام و خاص ہوگیا، جس سے علوم وفنون کی دنیا میں ایک اورفن وجود میں آیا جو فن تصوف کے نام سے مشہور ہوا ۔حالانکہ یہ کوئی نیا فن، یانئی چیز نہیں ہے، بلکہ مقاصد بعثت کا تزکیہ والا عمل ہے، جس کو حدیث و قرآن کی زبان میں احسان ، علم اخلاق اورتزکیہ کہاگیا ہے ، ہزاروں ، محدثین، مصلحین، ومجددین اورقرآن و حدیث کا گہرا علم رکھنے والے علمائے کرام کا اس فن سے بڑا گہرا، اور مستحکم رشتہ رہا ہے. ان میں امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ ، ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ ،ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ ،مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ ، شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمتہ اللہ علیہ ،شاہ اسمعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ جیسے ہزاروں دین و شریعت کا گہرا علم رکھنے والے عبقری حضرات نے بھی اس فن تصوف کی ترویج واشاعت میں بے مثال اورلازوال کردار اداکیا ہے ۔ بعد میں ہندوستان کے معروف بزرگ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ کے ذریعہ یہ سلسلہ اس قدر وسیع اورہمہ گیرہوا کہ اس کی نافیعت وافادیت حدود و قیود سے بالاتر ہوگئ، حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ کو یہ اعزازحاصل ہے کہ متحدہ ہندوستان کے بڑے بڑے علماء کی روحانی نسبت آپ ہی سے وابستہ ہے، حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے خلفاء میں سے ایک حکیم الامت مجددین ملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب فاروقی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ بھی ہیں، جو حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے فیضان سے سیراب ہوکر خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون سے پورے برصغیر کو روحانیت کےنورسے پرنور کردیا،حضرت تھانوی کی ایمانی و احسانی زندگی، حرارت قلبی، اورتاثیر ذکر نے برصغیرکی فضاؤں کو انتہائی نورانی اور روحانی بنادیاتھا، خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں محض حاضر ہوتےہی قلب کی کیفیت صاف طور پر بدلتی محسوس ہوتی تھی۔
دوردراز مقامات سے طالبین اصلاح و سالکین طریقت تھانہ بھون آتے، اورحکیم الامت کی پرتاثیر صحبتوں ، روحانی مجلسوں سےفیضیاب ہوکر اپنے دل کی دنیا آباد کرتے،اور اللہ اللہ کا ضرب لگاتے رہتے ، حکیم الامت کےعلوم و معارف کی جو شخصتیں حامل بنیں، اور جنہوں نےتاحیات ان کی روشن کردہ مشعلوں کو فروزاں رکھا،ان میں مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب الہ آبادی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی شمارہوتا ہے،جو اپنے عہد کے ممتاز عالم دین ، اوراسلاف کی اعلی اقدار، و بلند روایات کے محافظ وامین تھے-
حضرت مولانا شاہ احمد نصر بنارسی حضرت مصلح الامت سے زمانہ طالب علمی میں بیعت ہونےاور حفظ قرآن کی ابتدا وتکمیل کاشرف بھی آپ نے حاصل کیا ، حضرت مصلح الامت رحمتہ اللہ علیہ آپ سے بےانتہا شفقت ومحبت رکھتےتھے، اوراکثر وبیشتر آپ کی حوصلہ افزائ فرماتے، اورآپ کوتحفہ تحائف سے نوازا کرتے تھے،حضرت مصلح الامت کے انتقال کے بعد آپ نے( مسیح الامت حضرت مولانا شاہ مسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی رحمتہ اللہ علیہ خلیفہ حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ ) جنہیں علوم ظاہرو باطن میں بےپناہ دسترس حاصل تھی ۔ وہ علمی بصیرت کے ساتھ ذوق روحانی سے بھی اچھی طرح آشناتھے ۔۔
تصوف و سلوک میں بھی بڑے نمایاں خدمات انجام دیئے ہیں۔ اپنی خداداد صلاحیت و فطری صالحیت کی وجہ سے آسمان تصوف پرتادم حيات مہرتاباں بن کر چمکیں، اور ظلمت کدوں میں روشنی کی کرنیں بکھیر کرکے تیرگی کوختم کیا،حضرت مسیح الامت سے (حضرت جی ) نے تجدید بیعت کیا، اورتقریبا ًچوبیس سالوں تک فیضان مسیح الامت سے سیراب وفیضیاب ہوتے رہے، حضرت مسیح الامت نےآپ کےاندرتقوی وطہارت، اور پاکیزگی باطن کو دیکھتے ہوئے ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ” آپ صاحب نسبت ہوکرگزر رہےہیں” حضرت مسیح الامت کےانتقال کےبعد صاحبزادہ مسیح الامت حضرت مولانا صفی اللہ خان صاحب عرف بھائ جان رحمتہ اللہ علیہ مہتمم جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد سے اصلاح و تربیت کاتعلق قائم کیا،اورانکے فیضان سےاپنے دامن کوبھرلئے، آپ کوجہاں صفی الامت نےپہلے اپنے والد حضرت مسیح الامت کی جانب سے زبانی، اور پھر اپنی جانب سے تحریری، اجازت وخلافت سے نوازا، تووہیں حضرت صفی الامت کے انتقال کے بعد حضرت جی نےاپنے استاذ محترم حضرت مولانا قمرالزماں صاحب الہ آبادی سے رجوع کیا، اوران کےفیض سے مستفیذ ہورہےہیں-
حضرت جی کو حضرت حافظ اسید احمد گوپال گنجوی سے بھی اجازت وخلافت حاصل ہے، حضرت جی ان تمام حضرات اکابرکی سرپرستی ماتحتی و رہنمائی میں تصوف وسلوک کے منازل طےکئےاورسلسلہ تھانویہ کے اصول وطریق پرتربیت پائی، آپ کوسلاسل اربعہ چشتیہ، نقشبندیہ، قادریہ، اور سہروردیہ، میں اجازت بیعت کاشرف حاصل ہے، مشائخ کرام کی ان عالی نسبتوں کااثرآپ پرصاف جھلکتاہے۔ ذکرکثیرکی عادت، اتباع سنت کا ہمہ دم خیال ، پیروی شریعت کا اہتمام، معاملات میں حد درجہ احتیاط، اورمعاشرت میں کمال حسن آپ کی زندگی کےاہم جز ہیں ۔
آپ کواسی سلوکی قوت و ایمانی طاقت نے ہمہ دم متحرک و سرگرم اورصابروشاکر بنارکھا ہے،اسی باطنی قوت کی وجہ سے پہلے سے بہت زیادہ مقبولیت ومحبوبیت آپ کے حصہ میں آئی ہے،علماء کرام کا آپ کی جانب رجوع عام ہوا ہے، حضرت جی نےاپنے مرشد کے حکم واصرار پربیعت وارشادکا سلسلہ ان کی حیات ہی میں شروع کردیاتھا، لیکن اس میں آپ حد درجہ احتیاط برتتے ۔ طالب کےاخلاص واعتقادکو دیکھنے کے بعد ہی بیعت فرماتے، وگرنہ دیگر مشائخ کرام کی طرف متوجہ کر دیتے۔آپ کثرت مریدین کے بجائےاصلاح مریدین پرزیادہ نظررکھتےہیں۔اپنے حلقہ کی توسیع اورمریدین کی کثرت اور بھیڑ بھاڑجمع کرنے کے بجائے باکمال بنانے پرتوجہ دیتےہیں، اور مردم سازی ورجال گری کا نبوی مشن بڑی محنت سےانجام دیتےہیں، شروع شروع میں تو آپ نے سلسلہ کا کام بڑی سخت شرائط کےساتھ انجام دیاکرتے تھے،لیکن بعد میں اکابرین کے یکے بعد دیگرے وصال پاجانے، اورمحبین کےکثرت سے رجوع کرنےکی وجہ سے دینی نفع عام کی خاطرآپ نےسلسلہ میں بڑا توسیع اختیارفرمایاہے۔
آپ ہمہ وقت اکابرین کی ویران خانقاہوں، اوراجڑی جگہوں،کو آبادکرنے، اورذکروفکرکی مجلسوں کو وسیع پیمانہ پر عام کرنےکےلئے متفکررہتے ہیں، آپ کامانناہےکہ تمام انسانیت کی فلاح و نجات کا دارومدارایمان واتباع سنت ہے،آپ فرمایاکرتے ہیں، بیعت محض اصلاح کےلئے ہوناچاہئے، بعض حضرات کی نیت ہوتی ہے کہ تجارت میں ترقی ہوگی، یا دکان چل پڑے گی، یاپھر خلافت حاصل ہوجائےگی، یا پھر دیگر مشکلات آسان ہوجائیں گی یہ سب بےکار اور لغو باتیں ہیں۔ اصل مقصد جو بیعت کاہے، وہ مدنظر رہنا چاہئے، وہ ہےاصلاح قلب، وتزکیہ نفس ۔ ہماری پوری زندگی سنت و شریعت کے مطابق ہوجائے ، اخلاق ذمیمہ مغلوب ہو جائے، اخلاق حسنہ غالب ہوجا ئے، اور بحسن و خوبی حقوق اللہ و حقوق العبادادا ہونےلگے، اسی کے لئےبیعت ہواجاتا ہے،
نیز فرماتےہیں اصلاح کےلئےحضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے ملفوظات و مواعظ دیکھتے رہناچاہئے، ان سے دینی مزاج بنتاہے۔ آپ طالبین اصلاح، وسالکین طریقت کو بیعت کرتےوقت درج ذیل ہدایات و نصائح فرماتے ہیں، اور انہیں اس کا احساس دلاتےہیں، کہ یہ بیعت کوئی رسمی چیز نہیں ہے، بلکہ کامل اتباع سنت کواختیار کرکےاپنی زندگی کو نورانی و ایمانی بنانے والا مبارک عمل ہے ۔حضرت جی بیعت ہونے والے حضرات کو معمولات کی پابندی اور گناہوں سے احتراز کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔
ابتدا میں کلمہ طیبہ ،استغفار، استغفراللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ، لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم، سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم، صلی اللہ علی النبی الامی الکریم، صبح شام سوسومرتبہ پڑھنے کی ہدایت فرماتےہیں ،اور حسب فرصت و موقع تلاوت کلام پاک پڑھنے کی ہدایت بھی فرماتے ہیں، اور ارشاد فرماتے ہیں کہ انہی اعمال کو پابندی سے انجام دو۔کبھی کبھار کے زیادہ عمل سے بہتر ہے روزانہ کا تھوڑا عمل ۔ اسی طرح حضرت جی تہجد کی نماز کی بطور خاص ترغیب دیا کرتےہیں، اور یوں فرمایا کرتےہیں کہ جس کو جو بھی ملا شب بیداری اور سحر خیزی سے ہی ملا ہے، نیز دوباتوں کی کثرت سےتلقین فرماتےہیں، ایک توبہ کی نیت سے چند رکعات نفل، اور مراقبہ، فرماتے ہیں کہ جوان دونوں کی پابندی کرے گا، اسے جلد نسبت حاصل ہوجائے گی ۔اسی طرح ایک موقع پر بیعت کرتے وقت فرمایا راہ سلوک میں قدم رکھنے کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں ۔ اپنے اعمال و احوال کی شیخ کو مکمل اطلاع دینا ، شیخ کی کامل اتباع کرنا ، شیخ کے متعلق حسن ظن رکھنا ، واعتقاد کامل رکھنا،اور فرماتے ہیں کہ جوان چار چیزوں کا اہتمام کرے گا،
وہ جلد سے جلد منازل سلوک طے کرلےگا۔جوحضرات آپ سے بیعت و سلوک کا تعلق قائم کرتےہیں، آپ ان کی ترقی کے لئے برابرکوشاں رہتے ہیں ۔انہیں برابراصلاح دل کی طرف متوجہ کرتےہیں، اورذہن ومزاج کو شریعت سے آشنابنانے کی سعی فرماتےہیں، اور انہیں برابر خط و کتابت کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔رسمی بیعت کے بجائے اصلاحی بیعت کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں، راقم الحروف نے مرشد اول حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی رحمتہ اللہ علیہ بانی مہتمم جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ یوپی کے انتقال کے بعد حضرت جی سے تجدید بیعت کیا،بیعت کے وقت خطبہ مسنونہ کے بعد جو کلمات حضرت جی نے ہم سے پڑھوائے تھے ،
توبہ کرتے ہیں ہم کفر سے، شرک سے ، بدعت سے، غیبت کرنے سے ، جھوٹ بولنے سے ، چوری کرنے سے، زنا کرنے سے، پرایا مال ناحق کھانے سے، کسی مخلوق کو ناحق ستانے سے، اور ہرچھوٹے بڑے گناہ سے، اورایمان لاتے ہیں ہم اللہ پاک پر، اور انکے تمام رسولوں پر، اور ان کے تمام فرشتوں پر، اور انکی تمام کتابوں پر ، اور آخرت کے دن پر، اور تقدیر پر، بھلی ہو یا بری، سب اللہ ہی کی طرف سے ہے، اشھد ان لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ عہد کرتے ہیں کہ ہم پانچوں وقت کی نماز پڑھیں گے، رمضان شریف کے روزے رکھیں گے، اگر مال ہوگا تو زکوۃ دینگے، زیادہ گنجائش ہوگی تو حج کرینگے، اللہ ورسول کے سب حکموں کو جہاں تک ہوسکےگا بجالائیں گے، اگر کوئ نافرمائ ہوجائےگی ، تو فورا توبہ کریں گے، بیعت ہوتے ہیں ہم چاروں سلسلوں میں: چشتیہ، قادرریہ، نقشبندیہ، اور سہروردیہ میں، یااللہ ان چاروں خاندانوں کی برکت ہم کو نصیب فرما، اور قیامت میں ہم کو ان بزرگوں کے ساتھ اٹھا، یااللہ ہماری توبہ قبول فرما، ہمیں اپنے نیک بندوں میں شامل فرما،ان کلمات کو پڑھنےکے بعد سے لیکر اورتب سےاب تک حضرت جی کے فیضان سے اپنےدامن کوترسے تر کررہے ہیں، اور وقتا فوقتازیارت وملاقات کا بھی شرف حاصل ہوتارہتا ہے۔
احقر نے بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہےکہ حضرت جی مشائخ کے طریقہ پرصد فیصد عمل پیرا ہیں، آپ کے نزدیک خلافت کا معیار تقوی و طہارت ، اتباع سنت اورتکمیل سلوک ہے۔اسی لئےتفویض خلافت کے وقت یہ احساس دامن گیر رہتاہے کہ کہیں نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں ناچلی جائے،جس سے اکابرین کامبارک سلسلہ بدنام اورداغ دارہو ۔چونکہ حضرت جی کا تعلق سلسلہ تھانویہ سے ہے، اورآپ کو حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ سے مزاجی ہم آہنگی بھی ہے، ان کی تصنیفات وتعلیمات ، مواعظ و ملفوظات کا آپ گہرائی سے مطالعہ بھی کرتے ہیں، اوران کی فکر و مزاج کو اپنے اندر جذب کئےہوئےہیں،اسی لئے تصوف کےتمام امور میں انہیں کی پیروی کرتے ہیں ، تعلیم وتربیت کا بھی وہی انداز ہے، اور بیعت لینے کی بھی وہی شرائط،حتی کےخلافت و اجازت دینے کا معمول بھی وہی ہے،جو حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں تھا ۔
آپ اپنےاعلی استعداد لوگوں کو ہی تکمیل سلوک کے بعد ترویج سلسلہ و اشاعت دین کے لئےاجازت و خلافت سے نوازتے ہیں ،اور یہ اجازت حضرت تھانوی کی طرح تین طرح کی ہوتی ہے ۔ اجازت بیعت ، اجازت بیعت لغیر العلماء ، اجازت صحبت ۔خلافت واجازت دینے کے بعد بھی آپ اپنے مریدین و متعلقین کی کڑی نگرانی فرماتے ہیں ، نامناسب باتوں پر سخت تنبیہ فرماتے ہیں،اوروقتا فوقتاانہیں مقام و ذمہ داری سے آگاہ بھی کرتے ہیں۔ آپ کواپنےخلفاء کی تربیت کا ازحد اہتمام رہتاہے،اکثرو بیشتراپنے خلفاءکو نصیحتیں کرتےہوئےفرماتے ہیں کہ آپ لوگ تلاوت کلام پاک کاکثرت سے اہتمام کیجئے ، حرام مال سے مکمل اجتناب کیجئے؛ اور جن لوگوں کی آمدنی مشتبہ ہے، ان کی دعوتوں سے پرہیز کیجئے، ہدایاصرف انہیں لوگوں کے قبول کیجئے، جن کے متعلق مکمل شرح صدر اور آمدنی کا صحیح علم ہو ،توبہ اورخشوع وخضوع کو حرزجان بنالیجئے ، ہر کام میں اتباع سنت کا خیال کیجئے، اورفرماتے ہیں،خوب سمجھ لیجئے، باب تصوف میں اعمال کا اعتبار ہے، نا کہ کیفیات کا۔ ہمیشہ اختیاری امورکی طرف توجہ دیجیئے،اورغیر اختیاری امور سےبچئے، اس لئے کہ انسان اعمال کامکلف ہے، ناکہ کیفیات کا ۔
حضرت جی کا اللہ پاک نے بڑاوسیع حلقہ عطا فرمایا ہے۔ملک کےطول وعرض خصوصاً بہار بنگال وجھاڑکھند میں آپ کے ہزاروں مریدین و متوسلین ہیں ، آپ کی جانب رجوع عام ہے ۔محدثین کرام ، فقہائے عظام ، علمائے دین کے علاوہ عصری تعلیم یافتہ طبقہ نے بھی بڑی تعداد میں آپ سے اصلاحی تعلق قائم کیاہے، اور منازل سلوک طےکئےاورکرہےہیں ہیں، حضرت جی نےکثرت مریدین کے باوجود ابھی تک صرف پچپن افراد کو ہی اجازت و خلافت کی نعمت سے مشرف فرمایاہے- حضرت جی تقریباچالیس سال سےاصلاحی روحانی مجلسیں سجارہےہیں، اور جگہ جگہ ذکر وفکر کے حلقے قائم کرکےتزکیہ نفس کا عظیم الشان کارنامہ انجام دے رہےہیں۔اصلاحی وروحانی مجالس کا سلسلہ بھی جاری ہے، آپ کے مریدین ومتوسلین کاحلقہ بھی کافی وسیع ہے۔
آئیئے آپ کو خانقاہ امدادیہ بنارس لئےچلتے ہیں جو پیر طریقت رہبر شریعت مفلح الامت حضرت جی مولاناشاہ احمد نصربنارسی صاحب دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ امدادیہ بنارس کی سرپرستی میں تقریباً چالیس سالوں سے جاری وساری ہےاس خانقاہ کی مختصر تعلیمات اور معمولات سے روبرو کراتے ہیں، خانقاہ امدادیہ بنارس کے شب و روز میں بعد نمازِ فجر کی مجلس میں طلبہ اساتذہ نیز خانقاہ میں آنے والے مہمانان شریک ہوتے ہیں، مقتدی حضرات میں سے بھی کبھی چند افراد شریک ہوتے ہیں، تقریباً تینوں مجالس میں مجموعی طور پر یہی صورتحال رہا کرتی ہے،
مجلس نمبر ایک بعد نمازِ فجر
سورہ فاتحہ ایک مرتبہ، آیت الکرسی ایک مرتبہ، سورہ آل عمران کی کوئ چار آیات کی تلاوت کے بعد ایک مرتبہ درود شریف بڑھکر، لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ایک سو مرتبہ، استغفراللہ ایک سو مرتبہ، یامغنی یاغفورایک سو مرتبہ، اللہم عافنی واعف عنی ایک سو مرتبہ، اللہم ارفع عنا الابلاء والوباءایک سو مرتبہ، آیت کریمہ ایک سو مرتبہ، پڑھکر پھر دورود پاک ایک مرتبہ، پڑھ کر فوراً ذکراللہ شروع کر دیا جاتا ہے، اور یہ سلسلہ پانچ سات منٹ تک رہتا ہے، اور مجلس ختم ہو جاتی ہے، آگے اپنی اپنی مرضی کے مطابق تلاوتِ قرآن کریم، یا دیگر اذکار میں لوگ لگ جاتے ہیں، بعض لوگ گھروں کو چلے جاتے ہیں، اور بعض لوگ نماز اشراق پڑھکر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں، بعد نمازِ عصر بھی قدرے ترمیم کے ساتھ تسبیحات پڑھکر دعا ہوتی ہے، اور سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں ، بروز جمعہ بعد نمازِ عصر سورہ نباء کی تلاوت کے بعد درود شریف کی مجلس ہوتی ہے، موسم کے اعتبارسے کمی زیادتی کر لی جاتی ہے، اورخصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے، عام طور پر نمازِ مغرب سے پندرہ بیس منٹ پہلے دعا مکمل ہو جاتی ہے، ہاں رمضان میں بعد نمازِ فجر، ظہر، عصر، وعشاء بھی وقت و موسم کے اعتبارسے مجالس مختصر یا کچھ طویل ہوتی ہے،حضرت جی فرماتے ہیں کہ ذکر اللہ جیسی عظیم عبادت کو اپنی زندگی بھر کی عادت بنائیے۔ ذکر اللہ کی پابندی اور اس پر ہمیشہ پختگی اختیار کیجئے ، جولوگ بھی حضرت مفلح الامت سے بیعت ہوتے ہیں آپ انہیں” بیعت ” سلاسل اربعہ (نقشبندیہ، قادریہ، چشتیہ اور سہروردیہ) میں کرتےہیں – تاہم اذکار مشائخ چشت کی ترتیب کے مطابق کراتے ہیں۔ مشائخ چشت کی تجویز کردہ اذکار میں دوازدہ تسبیحات ہیں۔ جن کی ترتیب یہ ہے: ذکرنمبر1 : لا الہ الا اللہ : 200 بار (اس ذکر کو نفی و اثبات کہتے ہیں ) اس ذکر میں پوری کائنات کی نفی کی جاتی ہے اور اللہ تعالی کے لئے ہرقسم کے اختیار واقتدارکا دل کی گہرائ سے اقرار کیا جاتا ہے :
شروع میں ایک بار مکمل کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لیں۔ اس کے بعد ہر 5/10 مرتبہ لا الہ الا اللہ کے بعد ایک مرتبہ محمد رسول اللہ، صلی اللہ علیہ و سلم پڑھ لیں۔
ذکر نمبر 2 : الا اللہ 400 بار (اس ذکر کو ذکر اثبات کہتے ہیں ) اس ذکر میں حق تعالی کے لئے تصدیق کی جاتی ہے کہ ہر چیز کو فنا ہے، سوائے اللہ کے -ہمارے دلوں میں صرف اللہ کی حکمرانی ہونی چاہئے –
ذکر نمبر 3 : اللہُ اللہ 600 بار (اس ذکرکو ذکر مرکب اسم ذات دو ضربی کہتے ہیں )
گنتی میں اللہُ اللہ کو ایک ہی بار شمار کریں، پہلے اللہ کی ہا پر پیش پڑھیں اور دوسرا ہا سکون کے ساتھ پڑھیں-
ذکر نمبر 4 : اللہ 100بار (اسے ذکرمفرد اسم ذات یک ضربی کہتے ہیں )
اللہ کی ہا سکون کے ساتھ پڑھیں، اس تسبیح کو وقت کے پیش نظر بڑھاتے رہیں ۔
نوٹ : ذکر اللہ کرنے والے عام طور پر غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں، کہ لفظ اللہ کوصحیح طور پر ادا نہیں کرتے۔ خوب اچھی طرح یاد رکھیں کہ اللہ کے لام پر کھڑی زبر ہے، جسے ایک الف کے برابر کھینچ کر پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح دوسری غلطی یہ کرتے ہیں کہ لفظ اللہ کے آخر میں (ہ)کو ظاہر نہیں کرتے ۔ لفظ اللہ کو ادا کرتے وقت لام کی کھڑی زبر اور آخر والی (ہ) کو اچھی طرح ادا کریں ۔
اس کا ذاکر یہ تصور کرکے ذکر کرے کہ حق تعالی مجھے دیکھ رہے ہیں ، اور میرے بالکل قریب ہے، جب بندہ کثرت سے ذکر کرتا ہے تو اس کو ہمہ وقت حق تعالی کی معیت اور اسکے قرب کا احساس ہونے لگتا ہے، یہی نسبت احسان ہے، جس کا ذکر ان تعبداللہ والی حدیث میں کیاگیا ہے- اللہ پاک ہمیں اپنے اولیاء اللہ کے مبارک سلاسل کی تمام برکات نصیب فرمائے، آمین ،اور زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
- دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت جی کے جملہ علمی دینی اصلاجی اور روحانی خدمات کو قبول فرمائےاور ان کے فیوض وبرکات کو عام، تام، اور عالم گیر فرمائے، اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری وساری رکھے،اور ان کا سایہ امت پر دراز فرمائے، اور ان کے ذریعہ اصلاح وارشاد کا خوب خوب کام لے، آمین،
مولانا احمد نصر بنارسی، اورخانقاہ امدادیہ بنارس
محمد صدرعالم نعمانی صدر جمیعت علماء سیتامڑھی بہارومہتمم جامعہ نعمانی مصباح العلوم ہرپوروا عالم نگر باجپٹی سیتامڑھی بہار 9006782686