
شدید گرم موسم میں عام انتخابات کی تاریخ کون متعیّن کرتا ہے؟
عرض داشت
صاحبِ اقتدار کی سہولت پر شاید زیادہ توجّہ ہے اور ووٹروں کی صحت اور مشکلات پر دھیان کم ہے جس کی وجہ سے دس فی صد ووٹنگ میں تخفیف دیکھنے کو ملی۔
صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس ،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
گذشتہ روز ہندستانی پارلیمنٹ انتخاب کے پہلے مرحلے کے مکمّل ہونے کے بعد یہ بات شاہ سرخیوں میں سامنے آئی کہ تقریباً دس فی صد ووٹ دینے والوں کی کمی پورے ملک میں نظر آئی۔ یہ یاد رہے کہ ۱۰۲؍ سیٹوں کے لیے پہلے مرحلے کے انتخابات ہوئے یعنی کل انتخاب کا پانچواں حصّہ مکمّل ہوا۔ گذشتہ انتخاب سے دس فی صد کی تخفیف اگر آنے والے وقت میں بھی قائم رہے تو معلوم ہوگا کہ یہ انتخاب کم و بیش آدھے ووٹروں اور پینتیس فی صد ہندستانی عوام کی شراکت سے مکمّل ہوگا۔ اب ایسے میں چاہے جیسی سرکار چُنی جائے، وہ ہندستانی عوام کی حقیقی ترجمان کیوں کر ہوگی او ر اُسے ہندستان کا نمایندہ ہونے کا اخلاقی حق بھلا کیوں کر ملے؟
پہاڑی علاقوں کو چھوڑ دیں تو پورے ہندستان میں نصف اپریل سے لے کر جون کے مہینے تک شدّت کی گرمی اور لُو کے آثار قائم رہتے ہیں۔ درجۂ حرارت ۴۰؍ سے بڑھنے لگتا ہے اور کچھ علاقوں میں وہ اب پچاس ڈگری تک پہنچنے لگا ہے۔ آگ سے جھلستی گرمی، گرد و غبار میں اَٹی ہوئی فضا، دو پہر میں دھواں کی طرح دھوپ اور مضمحل چہرے۔ سخت سردی کے زمانے میں گھر کے بوڑھے بزرگوں پر مار پڑتی ہے۔ بیمار چہروں کو دیکھتے ہوئے لوگ چہ می گوئیاں کرتے ہیں کہ یہ اب کی بار جاڑا دیکھ لیں تو اللہ کی مہربانی لیکن ہندستان کے ۷۵؍ فی صد علاقے میں جس شدّت کی گرمی پڑتی ہے اور لُو، قَے دست، سرد گرم اور مختلف طرح کے امراض کی چپیٹ میں شیر خوار بچّوں سے لے کر بوڑھوں تک سب کے سب آتے چلے جاتے ہیں۔ اسپتالوں میں ڈائریا کے لیے الگ سے وارڈ بنانے پڑتے ہیں اور ہر گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ملے گا جو اِس کی چپیٹ میں نہ آیا ہو۔ دیسی طریقۂ علاج کو آزمانے کے لیے گھروں میں تیّاری ہوتی ہے۔ جو لوگ ضروری کاموں سے گھر کے باہر نکلتے ہیں، اُنھیں اُن کے بڑے بزرگ گرمی سے بچنے کے لیے دس طرح کی حفاظتی تدابیر بتاتے ہیں۔ اسکول اور کالج الصباح کھلنے لگتے ہیں اور اِن جگہوں پر مئی اور جون میں طویل گرمائی تعطیل دی جاتی ہے تاکہ وہ لوگ گرمی کی شدّت سے محفوظ رہ سکیں اور اپنے گھروں میں اپنی حفاظت کر سکیں۔
مگر قربان جائیے ہندستان کی مرکزی حکومت، اُس کے قائم کردہ الیکشن کمیشن اور اِس کام میںمشغول تمام فیصلہ کرنے والے افراد جنھوں نے مِل جُل کر سات مرحلوں میں مکمّل ہونے والے جس انتخاب کا اعلان کیا، وہ ۱۹؍ اپریل سے لے کر یکم جون تک مقرر ہے۔ کمال یہ بھی ہے کہ جن صوبوں میں سب سے زیادہ گرمی پڑتی ہے، اُنھیں ساتوں مرحلے کے انتخابات کے لیے سزا وار مانا گیا۔ گذشتہ تین انتخابات میں یہ میعاد مارچ سے کھسکتے کھسکتے اپریل اور مئی کے بعد اب جون تک مکمّل ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ماہرین اگر چہ بند کمروں ایر کندیشنڈ فضا میں مقید رہتے ہیں اور اُنھیں شاید اِس بات کا احساس نہیں ہو کہ موسم پر بھی نظر رکھتے ہوئے بھی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونا چاہیے۔ اب جو تاریخیں ہیں، اُن کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب اپنے ووٹ مرکز پر اپنے گھروں سے نکل کر پہنچیں اور گھنٹوں صف در صف کھڑے ہو کر ووٹ دیں، اِس مرحلے میں سو میں بیس آدمی تو اُس لُو کی چپیٹ میں آئیں گے ہی۔ یہ بھی متوقع ہے کہ بیس فی صد افراد دھوپ کی تمازت دیکھ کر اپنے گھروں سے نکلیں ہی نہیں۔ عمر دراز لوگ اور آرام کی زندگی جینے والے دانش واران بھی ووٹ دینے کے بجاے اپنی جان کی حفاظت کو بر تر سمجھیں گے۔
سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کِن لوگوں کی راے شماری کرانا چاہتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت کو ووٹ دینے والی وہ کون سی حقیقی جماعت ہے جو اِس گرم موسم میں بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھیڑ کی شکل میں ووٹنگ مراکز پر آ کر کچھ اِس طرح سے ووٹ کرے کہ نریندر مودی کی تیسری بار حکومت سازی آسان ہو سکے۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں یہ بات کھُل کر سامنے آئی تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا حقیقی ووٹر ۳۰؍ برس سے کم عمر کا جَوان ہے۔ ۲۰۱۴ء کی انتخابی مہم میں یہ بات قابلِ توجّہ رہی تھی کہ نریندر مودی کو اُس زمانے میں ۱۸؍ سے ۲۱؍ سال کے نوجوانوں کے ووٹوں سے ہی اصلی فائدہ حاصل ہوا تھا۔ یاد رہے کہ کانگرریس کی حکومت نے ہی حقِ راے دہندگی کی عمر ۲۱؍ سے گھٹا کر ۱۸؍ کی تھی اور کوئی دس کروڑ نئے ووٹر ملک میں سامنے آ گئے تھے۔ نریندر مودی نے اُنھیں بڑے سلقے سے نشانہ بنایا اور بے روز گاری جیسے امور کو سامنے رکھا۔ یہ بات کھُلی ہوئی حقیقت تھی کہ اتنی کم عمر کے نوجوانوں سے آسانی سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ہندستان کی مکمّل سیاسی تاریخ سمجھتے ہوں، سیاسی پارٹیوں کے فکر و فلسفے سے واقف ہوں اور اُنھیں معلوم ہو کہ اِس ملک کی تقدیر کون بدل سکتا ہے۔ نریندر مودی نے اُن کے جوش و جذبے اور اور خواہشاتِ ناتمام کو دس کروڑ لوگوں کو ملازمت دینے یا بابا رام دیو کی زبان میں ہر شہری کو ۱۵؍ لاکھ یک مشت ادائگی جیسے خواب پُر کشش معلوم ہوئے اور نتیجہ سامنے ہے کہ ایک بار ہی نہیں دوسری بار بھی نریندر مودی وزیرِ اعظم کے عہدے تک پہنچے اور رفتہ رفتہ چند صوبوں کو چھوڑ کر اُنھی کی سرکار صوبوں میں بھی قائم ہے۔
انتخابات کے اعلانات کے لیے مرکزی الیکشن کمیشن کو کھُلے اختیارات حاصل ہیں۔ اِس بار انتخاب کے اعلان سے ٹھیک پہلے ایک الیکشن کمیشنر کا علاحدہ ہو جانا اور آنَن فانَن دو الیکشن کمیشنر کی تقرری سے ہی یہ بات واضح ہونے لگی تھی کہ کچھ منصوبہ بند طریقے سے اندرونی طور پر تیّاریاں چل رہی ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ گذشتہ دس برسوں میں حکومت کی طرف سے جو شیڈول بھیجے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن اُس پر آمنہ و صدقنا کہہ کر حکومت کی مزید خوشنودی حاصل کرتا ہے۔ ایسی صورت میں ووٹروں کی سہولت اور موسم کے عتابات پر کیوں غور کیا جائے گا۔یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ الیکشن کمیشن بار بار ووٹ کا فی صد بڑھنے کی وکالت کرتا رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے اِس سلسلے سے متعدد مہم چلتی رہتی ہے کہ لوگ اپنا قیمتی حق استعمال کریں اور اپنی پسند کی سرکار منتخب کریں۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن کمیشن چاہتا ہے کہ ملک کا ہر شہری حکومت سازی میں اپنا فیصلہ کُن رول ادا کرے۔ مگر ملک کا ہر آدمی یا زیادہ سے زیادہ آبادی اِس کام کے لیے آ جائے، دل سے شاید وہ سب چاہتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کو ایسے اختیارات ہیں کہ وہ الیکشن کی تاریخوں کے اعلان میں چند مہینے آگے پیچھے کر دے۔ اکثر اسمبلی کے انتخابات میں دو تین مہینے پہلے انتخابات کرانے کی نظیریں ملتی ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن چاہتا تو مارچ کے مہینے میں انتخابات مکمّل ہو سکتے تھے۔ الیکشن کمیشن نے ایک اور بدعت یہ پیدا کی کہ رفتہ رفتہ اِس کی میعاد بڑھائی گئی۔ کہاں ایک موقعے سے ملک کی ساری اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے انتخاب کی وکالت نریندر مودی اور اُن کی پارٹی کے لوگ کرتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ ۵۴۵؍ سیٹوں کے لیے انتخاب کی تکمیل میں ڈیڑھ مہینے کا وقت لگایا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس بہانہ یہ ہوتا ہے کہ پولس اور سیکوریٹی کے عملے کم ہوتے ہیں اور اُنھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنا ہوتا ہے، اِس کے لیے یہ طویل دورانیہ بنایا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت کا عوامی چہرا صرف ایک ہے جسے نریندر مودی کے نام سے ہم جانتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو یہ سہولت بہم پہنچانی ہے کہ وہ ساڑے پانچ سو یا اُن میں سے زیادہ سے زیادہ حلقہ ہاے انتخابات میں پہنچ سکیں، اِس کے لیے ہی یہ اتنا طویل دورانیہ ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے کے انتخاب سے ڈیڑھ ماہ پہلے سے وہ سر گرم ہیں اور کل ملا کر تین مہینے میں وہ چار سو سے کم حلقوں تک نہیں پہنچیں گے، اِسی لیے یہ دورانیہ بڑھایا جاتا ہے۔
سخت موسم میں انتخابات کے لیے وقت مقرر کرنے کے پیچھے کھُلی وجہ ہے یہ کہ سیاسی اور علمی طور پر پختہ نسل، دانش وَر طبقہ، بزرگ شہری انتخاب سے بے رُخ ہی رہے۔ نریندر مودی کو ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو سیاسی اور سماجی اعتبار سے ناپختہ ہیں اور جن میں سے ایک بڑے حصّے کو مذہبی تنگ نظری کا پاٹھ پڑھایا جا چکا ہو۔ ایسے لوگوں کی آبادی تیس فی صد سے کم نہیں ہے اور یہ سب کے سب نریندر مودی یا اُن کی حکومت کے جھانسے میں آنے لیے تیّار بیٹھے ہیں، اِسی لے الیکشن کمیشن یا مرکزی حکومت کو سخت موسم میں ووٹ دینے والوں کی تکلیفوں کی ایک ذرا فکر نہیں اور اُنھیں اِس بات کا بھروسہ ہے کہ ناپختہ ذہن کے نوجوان اور دماغوں میں منافرت کے زہر کو بھر کر پارٹی کا کارکُن بن کر جینے اور مرنے کے لیے اتارو ہوئے لوگ ہی کافی ہیں۔ یہی لوگ اِس موسم کی مار کو سہتے ہوئے ووٹ دینے کے لیے بوتھوں پر آئیں گے اور آسانی سے نریندر مودی کو پھر ایک بار جیتنے کے لیے ماحول قائم کریں گے۔ حالاں کہ جگہ جگہ سے پہلے مرحلے سے یہ خبر آنے لگی ہے کہ وزیرِ اعظم کا جادو سر چڑھ کر نہیں بول رہا ہے اور بڑے پیمانے پر اُن کی جیتی ہوئی سیٹیں حذبِ اختلاف تک جارہی ہیں۔ مگر خدشہ اِس بات کا ہے کہ ای وی ایم اور اُس کے ذریعہ بد عنوانیوں کی کوششوں کے نتائج بالآ خر نریندر مودی کے حق میں کہیں فیصلہ کُن نہ ہو جائیں۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
[email protected]