
مسلمانوں کو مسلکی اتحاد نہیں بلکہ سیاسی اتحاد کی ضرورت
ندیم عبدالقدیر
مسلمانوں کے نام نہاد دانشور ان ، مفکرین اور مدبرین کا سب سے پسندیدہ مشغلہ قوم کو متحد کرنے کی نصیحت دینا ہے۔ قوم کی بدحالی کا سبب صر ف اور صرف قوم کی نااتفاقی کو قرار دیاجاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب تک قوم ایک پلیٹ فارم پر نہیں آئے گی تب تک قوم کی حالت نہیں بدلے گی۔ اس نصیحت کے ساتھ ’مسلکی‘ اتحاد پر لمبی چوڑی تقریر کی جاتی ہے۔ایسے جاہل دانشوران صرف ہمارے ہی قوم کے مقدر میں ہیں جنہیں اتنا تک نہیں پتہ کہ قوموں میں خوشحالی یا بدحالی کا سبب کبھی بھی مسلک نہیں ہوسکتا ہے۔ جس ملک میں حکومتیں ووٹ کے ذریعے طے کی جاتی ہیں اُس ملک میں آپ مسلکی اتحاد کا کیا اچار ڈالیں گے؟
اس بات کو آپ ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی سے سمجھ سکتےہیں۔گائے ہندو دھرم میں انتہائی مقدس شئے سمجھی جاتی ہے ۔گائے کی قربانی کوسب سے بڑا پاپ قرار دیاجاتاہے اس کے باوجود نہ ہی ہندو قوم مغل دور میں گائے کےذبیحہ پر پابندی لگاسکی تھی اور نہ ہی انگریزوں کے دور میں، بلکہ انگریزوں نے تومسلم حکمرانوں سے زیادہ گائے کا ذبیحہ کروایامسلم حکمران تو پھر بھی ہندوؤں کے جذبات کا کافی خیال رکھتے تھے۔ گائے کا گوشت انگریزوں کی مرغوب غذا ہے اسلئے انہوں نے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ کو فروغ دیابلکہ ہندوستان کا پہلا مذبح بھی انگریزوں نے ہی کولکتہ میں کھولا۔ انگریزوں کے دورمیں بھی ملک کی اکثریت ہندو ہی تھی لیکن وہ چاہنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کرسکی۔ ملک میں گائے کے ذبیحہ پر پہلی پابندی اُس وقت عائد ہوئی جب کانگریس کے ہاتھ میں چند ریاستوں کی حکومت آئی۔ یہ آزادی سے پہلے کی بات ہے ۔ آزادی کے بعد جب ہندو قوم پوری طرح سیاسی طو رپر طاقتور ہوئی تب انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگائی بلکہ اب تو گائے کے ساتھ ساتھ بیل کے بھی ذبیحہ پر پابندی لگادی گئی ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اصل تبدیلی سیاست کے ذریعے آتی ہے، کسی اور ذریعہ سے نہیں۔ ہندو قوم چاہنے کے باوجود بھی گائے کے ذبیحہ پر اُس وقت تک پابندی نہیں لگا سکی تھی جب تک وہ سیاسی طور پر طاقتور نہیں ہوئی تھی،لیکن اتنی سی بات مسلم دانشوروں اور مسلم سیاسی لیڈروں کی سمجھ سے بالاتر ہےاور وہ لگاتار مسلکی اتحاد کی رٹ لگائے رہتےہیں جبکہ سیاسی اتحاد پر ان کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلتا۔ یا تو ان بےچاروں کو پتہ ہی نہیں کہ تبدیلی سیاسی اتحاد سے آتی ہے مسلکی اتحاد سے نہیں،یا پھر یہ جان بوجھ کر قوم کے سیاستدانوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے قوم کوہی موردِ الزام ٹھہرادیتےہیں اور سیاستدانوں کو بچالیتےہیں کیونکہ یہ کام قدرے آسان بھی ہے۔اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو پچھلے ۷۵؍سال سے نکلتا رہا ہے ۔ یعنی حالات بہتر ہونے کی بجائے بد سے بدتر ہوتے جارہےہیں اور افسوس کہ اس کے بعد بھی قوم کے ان نام نہاد دانشوروں کو عقل نہیں آئی۔
قوم کو مسلکی اتحاد کے بارے میں چیخ چیخ کر جتنی نصیحتیں دی جاتی ہیں، اخبارات میں جتنے صفحات سیاہ کئے جاتے ہیں اگراس کا اثنا عشیر بھی قوم کے سیاسی اتحاد کی بات کی جاتی تو شاید قوم کا کچھ تو فائدہ ہوجاتا۔
مَیں مسلکی اتحاد کے خلاف نہیں ہوں۔ یہ یقینا اچھی بات ہے ۔ اگر مسلکی اتحاد ہوتا ہےتو بلا شبہ یہ قابل ستائش پہل ہوگی لیکن افسوس کہ اس سے قوم کی سیاسی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر آپ مکمل مسلکی اتحاد کربھی لیں اورآپ کی قوم کے لیڈران مختلف سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اٹھائے رہیں، مختلف پارٹیوں اور مختلف لیڈروں کے زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتے رہیں اور قوم کا ووٹ مختلف سیاسی جماعتوں کی جھولی میں تقسیم ہوتا رہے تو ایسا اتحاد قوم کے کسی بھی کام کا نہیں۔ حکومتیں ووٹ سے بنتی ہیں مسلک سے نہیں۔میونسپلٹی، اسمبلی اور پارلیمنٹ تک رسائی ووٹ کے ذریعے ملتی ہے اسلئے ضروری ہے کہ اتحاد بھی ووٹوں کا ہونا چاہیے۔
قوم کی بے وزنی کی وجہ ان کا مسلک میں بٹا ہوا ہونا نہیں بلکہ مختلف سیاسی جماعتو ںمیں بٹا ہوا ہونا ہے۔ ووٹ مسلک کے نام پر نہیں مانگے جاتےہیںبلکہ سیاسی جماعتوں کے نام پر مانگے جاتےہیں۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ’’ فلاں شخص بریلوی مسلک کا امیدوار ہے اسلئے اسے کامیاب بنائیے یا پھر فلاں شخص دیوبندی مسلک کا امیدوار ہے لہٰذا تمام دیوبندی عوام سے گزارش ہے کہ وہ اسے اپنا قیمتی ووٹ دیں؟‘‘جی نہیں!!! ایسا نہیں ہوتا ہے ۔
اکثر ایسا ہی دیکھا گیا ہے کہ جو دانشوران قوم کو مسلکی اتحاد کی نصیحت دیتے رہتےہیں وہ خود بل واسطہ یا بلا واسطہ کسی نہ کسی خاص سیاسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ اتحاد کی ساری نصیحتوں کی مکاری کے بعد وہ قوم کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔اس کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کے بڑے سے بڑ ے لیڈر سے لے کر چھوٹے سے چھوٹا ’چھٹ بھیا‘ قسم کا گلی محلے کا لیڈر تک قوم کے اتحاد کا رونا روتا ہے لیکن سیاسی اتحاد کی بات کبھی نہیں کرتا۔
کانگریس کا مسلمان لیڈر کہتا ہے کہ کانگریس کے ہاتھ کو مضبوط کرو، سماج وادی پارٹی کا مسلم لیڈر کہتا ہے کہ کانگریس کے پنجے نے پچھلے ۷۵؍سالوں سے مسلمانوں کا گلا گھونٹا ہے اسلئے مسلمانوں کو پنجہ پر نہیں بلکہ سائیکل کے نشان پر مہر لگانی چاہیے۔ ایم آئی ایم کا لیڈر کہتا ہے کہ سماج وادی پارٹی اور کانگریس دونوں ہی مسلمانوں کے دشمن ہیں مسلمانوں کی اپنی پارٹی صرف ایم آئی ایم ہے اسلئے ایم آئی ایم کو ووٹ دو۔ اُدھر کانگریس کا مسلمان لیڈر ایم آئی ایم کے مسلمان لیڈر کو ووٹ کٹوا کہتا ہے۔
ان چند پارٹیوں کے علاوہ اگر پورے ملک کا جائزہ لیں تو اور نہ جانے کتنی ساری پارٹیاں ہیں جیسے این سی پی، ترنمل کانگریس، آر جے ڈی ، بدرالدین اجمل کی پارٹی ، پیس پارٹی ، راشٹر علما کونسل وغیرہ وغیرہ بلکہ اب تو کئی مسلمان بی جےپی اور شیوسینا میں بھی پہنچ گئے ہیں اور مسلمانوں کو بتا رہےہیں کہ مسلم قوم کی اصل ہمدرد صرف بی جےپی اور شیوسینا ہی ہے ۔ ہر پارٹی میں مسلم لیڈر ہیں ہر مسلم لیڈر دوسری پارٹی کے مسلم لیڈر کو قوم کا غدار کہتا ہے ۔اس پر طرہ یہ کہ ہر لیڈر قوم کو مسلکی بنیاد پر متحد ہونے کی نصیحت کرتے نہیں تھکتا۔دراصل یہ لیڈران جب قوم کو مسلکی طور پر متحد ہونے کا مشورہ دیتےہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوم مسلکی طو رپر تو متحد ہوجائے لیکن سیاسی طور پر بکھری پڑی رہے۔
اب آمد برائے مطلب!۲۰۲۴ء کےعام انتخابات جاری ہیں اوراس موقع پر بھی مسلمانوں میں سیاسی گتھم گتھا بھی اسی طرح جاری ہے۔مضحکہ خیز طو رپر قوم کو مسلکی بنیا دپر متحد ہونے کی نصیحت بھی اسی طرح کی جارہی ہیں۔ ان نصیحت کرنے والوں کو اگر قوم کی تھوڑی سی بھی پروا ہے تو وہ مسلکی اتحاد کی بجائے سیاسی اتحاد پر زور دیں گے۔ یاد رہے کہ ہندو گائے کومتبرک اور مقدس ماننے کے باوجود بھی وہ اس وقت تک اس کے ذبیحہ پر پابندی لگانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے جب تک وہ سیاسی طو رپر طاقتور نہیں ہوئے۔ اصل تبدیلی سیاست کے ذریعے ہی آتی ہے کسی اور ذریعہ سے نہیںلہٰذامسلمانان ہند میں اگر اتحاد کی ضرورت ہے تو وہ سب سے زیادہ سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے مسلکی اتحاد کی نہیں۔۲۰۲۴ء کے عام انتخابات میں اپنے سیاسی اتحاد کا مظاہرہ کریں۔