مضامین و مقالات

مسئلہ حلالہ اور اس تعلق سے غلط فہمیوں کا ازالہ

مسئلہ حلالہ اور اس تعلق سے غلط فہمیوں کا ازالہ

مولانا محمداحسان اشاعتی اشرفی
شریعت مطہرہ کاہر حکم نہایت ہی موزوں اور عقل و دانش کے موافق ہے جس کا اعتراف حقیقت پسندوں، منصف مزاجوں اور تعصب و تنگ نظری سے پاک شخصیات نے ہر دور میں کیا ہے وہیں دوسری طرف ہر زمانے میں کچھ کوتاہ نظروں، متعصبین اور معاندین کے ذریعہ اسلام کے روئے شفاف کو داغدار بنانے کی اور عام لوگوں میں اسلام کے خلاف بدگمانیوں کے بیج بونے کی ناپاک کوشش ہوتی رہی ہے اور اس کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ کسی حکم شرعی کے بارے میں اشکال اور اعتراض کیا جائے، اور بتکلف اس کی ایسی توجیہ پیش کی جائے کہ حقیقت سے نا آشنا شخص شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جائے،چنانچہ ان ہی میں سے ایک مسئلہ حلالہ ہے؛ باطل پرستوں نے اس کی ایسی توجیہ او راس کی ایسی کریہہ شبیہ پیش کی کہ سادہ لوح اور عام لوگوں کے ذہن اس تعلق سے غلط فہمی پیدا ہو گئی اور وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ مسئلہ حلالہ عورتوں پر سراسر ظلم و تعدی ہے، حالانکہ حلالہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیدے (جوکہ شرعا گناہ اور ناپسندیدہ عمل ہے) یا یکے بعد دیگرے تین طلاق دے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی فقط نکاح سے وہ حلال نہیں ہو سکتی، البتہ وہ کسی اور سے اپنی مرضی سے نکاح کر لے اور دوسرا شوہر کسی وجہ سے بعد الوطی طلاق دیدے یا اس کی موت ہو جائے تویہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال شمار ہوگی،یہی مفہوم ہے اس آیت پاک میں فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ (بقرہ ۰۳۲) اولاً تو تین طلاق انتہائی ناپسندیدہ ہے چناچہ اس کو ابغض الحلال کہا گیا کہ حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ عمل ہے نیز اس کو طلاق بدعت بھی کہا گیا ہے، جب ایک یا دو طلاق سے خلاصی مل سکتی ہے تو تین طلاق کااقدام بالکل ہی مناسب نہیں، تاہم بہ سوء اتفاق تین طلاق کا وقوع ہو جائے تو قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس عورت پر طلاق ثلاثہ اور مضی مدت کے بعد نہ تو کسی سے نکاح کرنے پر جبر ہے اور اگر وہ اپنی مرضی سے کسی سے نکاح کر لے اور اس کا دوسرا شوہر اس کو کسی وجہ سے طلاق دیدے تو بعد مضی مدت، پہلے شوہر سے نکاح پر بھی وہ مجبور نہیں بلکہ خود مختار ہے چاہے تو پہلے شوہر سے نکاح کر لے یا کسی اور سے؛
اس صورت میں مسئلہ حلالہ کو عورت پر ظلم قرار دینا در اصل حقیقت سے ناواقفیت یا اسلام سے عناد کا نتیجہ ہے۔
اور یہ بات بھی واضح رہے کہ جو شخص مزاجِ شریعت کے برخلاف مطلقہ ثلاثہ سے فقط پہلے شوہر کے لیے حلال کرنے کی نیت سے نکاح کرے اس شرط کے ساتھ کہ بعد میں لازما ًطلاق دیدے گا تو ایسے حلال کرنے والے اور کرانے والے پر اللہ کی لعنت ہے، ابو داؤدشریف کی روایت ہے کہ لعن اللہ المحلل والمحلل لہ (ابوداؤد ۱/۶۷۰۲)
ایک اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ حلالہ کی نوبت اس وقت آتی ہے جب تین طلاق دی جائے، تو جب ایک طلاق یا دو طلاق سے خلاصی مل سکتی ہے تو تین طلاق کو کیوں مشروع قرار دیا گیا، نہ تین طلاق مشروع ہوتی نہ حلالہ کی نوبت آتی؟
اس اشکال کا جواب آیت کریمہ الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان (بقرہ ۹۲۲)کے پس منظر میں مفسرین کے اقوال سے مل جاتا ہے، کہ زمانہ جاہلیت میں بے شمار طلاقیں دی جاتی تھیں،مردجب جتنی چاہتے طلاق دیکر ان کو جدا کر دیتے اور طلاق کے بعد عور توں کو یونہی چھوڑ دیتے اورعدت پوری ہونے سے قبل رجعت کر لیتے، اس طرح عور ت مردوں کے ہاتھ کا کھلونا بن کر رہ گئی تھی، شریعت مطہرہ نے آیت مذکورہ کے ذریعہ زمانہ جاہلیت کے اس ظالمانہ رواج کا خاتمہ فرمایا اور کہا وہ طلاق جس کے بعد رجعت کی جا سکتی ہے، فقط دو طلاقیں ہیں، اگر تین طلاقیں دے دیں تو رجعت ممکن نہیں،اور طلاق کی آخری حد تین ہوگی؛ مقصود اس سے طلاق کے باب میں حد تجاوزی اور ظلم و تعدی سے روکنا ہے،؛ اور طلاق ثلاثہ کے بعد رجعت کے حق کا سلب ہونا اور بغیر نکاحِ زوجِ آخر مع الوطی کے پہلے شوہر کے لیے حلال نہ ہونا در حقیقت حقوقِ نسواں کے تحفظ کی خاطر اور مردوں کو طلاق مغلظہ (ثلاثہ) بدعیہ کے اقدام پر زجر و توبیخ کرناہے کیوں کہ کسی بھی با غیرت مردکو کیسے گواراہو سکتا ہے کہ اس کی بیوی کسی غیر کی فراش بنے۔
غرضیکہ مسئلہ حلالہ بھی دیگر مسائل شرعیہ کی طرح انتہائی مناسب وموزوں ہے، ضرورت ہے تو بس منصفانہ ذہنیت کے ساتھ اس کو سمجھنے کی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button