
مضامین و مقالات
سعودی کا ناچ ۔غزہ کی آگ
گذشتہ25 دنوں سے فلسطین میں جو ظلم و بربریت کے نظارے دُنیا دیکھ رہی ہے،اُس سے ایک عام انسان کا دل بھی تڑپ رہاہے۔دُنیابھرمیں فلسطین کیلئے افسوس کا اظہارکیاجارہاہے۔دُنیا کے مختلف مقامات پر فلسطین کیلئے دعائیں کی جارہی ہیں،وہاں کے بچوں کا یتیم ہونا ،عورتوں کا بیوہ ہوناعام بات ہوچکی ہے۔ہزاروں لوگ جامِ شہادت نوش کررہے ہیں اور فلسطین سے لیکر دُنیاکے ہر مسلمان کی طرف سے ایک ہی سوال اُٹھ رہاہے کہ آخرعرب ممالک فلسطین کے ساتھ صیہونیوں کے خاتمے کیلئےکیوں آگے نہیں آرہے ہیں،انہیں سوالات کے درمیان گذشتہ دنوں سعودی عرب کے ریاض میں ایک میوزیکل نائٹ کا نظارہ دیکھاگیاجس میں سعودی عرب کے ہزاروں لوگ اس میوزیکل نائٹ کی شان بنے ہوئے دکھائی دئیے۔دف کی آواز پر تھرکتے ہوئے سعودی نچیوں نے یہ ثابت کردیاکہ دُنیا اِدھر کی اٗدھر ہوجائے ہم اپنی عیاشیوں سے باز نہ آئینگے۔
سر پر عمامہ ،جسم پر توپ پہن کر بالکل مغربی رقاصائوں کی طرح ناچتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔اس سے بات واضح ہوگئی ہے کہ سعودی عرب صرف نام کیلئے مسلمانوں کا ہمدرد ملک ہے،نہ اُنہیں فلسطین کی مائوں اور بہنوں کا خیال ہے ،نہ ہی تڑپتے ہوئے بچوں کا احساس ہے۔یقیناً سعودی عرب میں شراب،جوا، سور،زنا،سود اور رشوت حرام ہے،لیکن خیرہے کہ ان تمام میں سے ابھی تک سور بچاہواہے،باقی سب کام زور وشور کے ساتھ پس پردہ انجام دئیے جارہے ہیں۔کہنے کو تویہ ملک اسلامی ملک ہے اوریہاں حرمین شریفین ہونے کی وجہ سے اس ملک کی عظمت بڑھ جاتی ہے،لیکن نیوم نامی جو منصوبہ سعودی عرب میں جاری ہے،اس منصوبے سے پورے کا پورافائدہ یہودی کمپنیوں کو ہورہاہے،جبکہ نیوم پر جو سرمایہ لگایاجارہاہے وہ حرمین سے ہونےوالی آمدنی ہے۔
سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے فلسطینیوں کیلئے امدادکے نام پر بھیک ضرور جاری کی ہے،جس کی تشہیرکیلئے کچھ ریالی اہلِ علم کو سوشیل میڈیاپر بٹھادیاہے اوریہ ریالی شیخ چیخ چیخ کر بھونک رہے ہیں کہ سعودی عرب تو امدادکے دروازے کھول رکھاہے اور جو لوگ سعودی عرب کی تنقید و مذمت کررہے ہیں وہ ناشکرے اسرائیلی ایجنٹ ہیں۔دُنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیلی ایجنٹ کون ہیں اور کس طرح سے فلسطین میں مسلمانوں کو بے یارومددگار شہیدہونے کیلئے چھوڑ دیاہے۔کہنے کوتو اس وقت عرب ممالک ترقی یافتہ ممالک ہیں اور ان کےپاس بھی وہ تمام ہتھیارموجودہیں جو مغربی ممالک کے پاس ہیں،باوجود اس کے وہ فلسطین کی مددکیلئے آگے نہیں آرہے ہیں۔
افسوس اس بات کا بھی ہے کہ دُنیا کے تمام مسلم ممالک مل کر سوائے مذمتی بیانات وتنقیدکے اور کسی بھی طرح کا قدم نہیں اُٹھارہے ہیں۔جبکہ یہود ونصاریٰ کے تعلق سے قرآن شریف میں مسلمانوں کو بآورکیاگیاہے کہ اُن سے دور رہو اور وہ کبھی بھی تمہارے رفیقوں میں شمارنہیں ہونگے۔اس کے علاوہ قرآن مجید میں باربار یہودیوں کے خاتمے کے تعلق سے بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان موجودہیں۔ایسے میں اہلِ علم کا ایک طبقہ یہ بھی کہہ رہاہے کہ اللہ کی تسبیح بیان کرنا جہادسے افضل ہے۔درحقیقت یہ حدیث مبارکہ اُس وقت کیلئے ہے جب حالاتِ امن قائم ہوں اور جنگ کی کوئی صورت نہیں ہے،مگر یہاں تو کھلےعام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی جارہی ہے،باوجوداس کے حرمین شریفین سے لیکر مسجدوں میں تک صرف گڑگڑاکر دعائیں کی جارہی ہیں۔اگر دعائوں سے ہی حالات تبدیل ہوتے تو اللہ کے رسولﷺکے دورمیں 28 غزوات یعنی جنگیں نہیں ہوتیں اور ان میں سے 9 غزوات میں قتال کی نوبت پیش نہ آتی۔غزوہ بدرمیں 313 مسلمان شریک تھے،جبکہ کافروں کی تعداد1000 تھی،باوجوداس کے غزوہ بدرمیں مسلمانوں نے فتح حاصل کی تھی۔لیکن یہاں محض 6لاکھ یہودی فوجیوں کے سامنےعرب ممالک کے15لاکھ سے زیادہ فوجیوں کی طاقت رکھنےوالے ممالک نرم رویہ اختیارکرچکےہیں۔جبکہ سعودی عرب ایک ایساملک ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ فوجی اخراجات کیلئے خرچ کررہاہے،جو سالانہ46.6بلین ڈالر اپنے فوجی اخراجات پر خرچ کرنےوالاملک ہے جبکہ بھارت اور چین دوسرے اور تیسرے نمبرہیں۔کیایہ سب خرچ اپنے محلوں اور شہروں کےتحفظ کیلئے ہے۔
ان حالات میں مسلم ممالک کو آگے بڑھ کر فلسطین کے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرناتھا،لیکن یہ اپنے ناچ گانوں اور عیش وعشرت کی زندگی میں مگن دکھائی دے رہے ہیں۔بھارت کے اسلامک اسکالر مولانا سجادنعمانی نے عرب ممالک کی اس بے رُخی کو دیکھتے ہوئے بھارت کی نمائندہ شخصیات جن میں مولانا ارشدمدنی،مولاناخالد سیف اللہ رحمانی ،مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی،مولانا ڈاکٹر سیدالرحمان اعظمی،مولانا اصغرامام مہدی،مولانا سید محمود مدنی، مولاناتوقیر رضا،مولاناسیداحمدبخاری،مولانا عثمان لودھیانوی، ضیاء الدین صدیقی، ڈاکٹر منظورعالم جیسی شخصیات کو مکتوب لکھ کر اس جانب توجہ دلائی ہے کہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جو رقص کی محفلیں سجائی جارہی ہیں،عریانیت اور بے حیائی کے عالمی ریکارڈ توڑے جارہے ہیں،اس صورت کے بارے میں سعودی سفارت خانے کے ذریعے سعودی فرمانرائوں کو ایک مکتوب لکھ کر اپنا احتجاج درج کروائیں اور سرزمین اسراء ومعراج کے دفاع کیلئے آگے بڑھنے کیلئے توجہ دلائیں،ممکن ہے کہ کم ازکم اس کے ذریعے سےتو سعودی وعرب کے حکمرانوں کی آگے کھلیں گی یا یہ بھی ہوسکتاہے کہ بھارت کے سرکردہ مسلم نمائندہ سعودی عرب سے اپنی بغاوت کااظہارنہیں کرینگے کیونکہ انہیں اُن کے اداروں کیلئے درہم ودینار جاری ہوتے رہے ہیں وہ بندہوسکتے ہیں۔
از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔ 9986437327