
عرض داشت نئی مردم شماری سے کون ڈرتا ہے؟
بڑے انتظار کے بعد حکومتِ بہار کی جانب سے ذات برادری کی بنیاد پرمردم شماری کے جو اعداد و شمار سامنے آئے، سیاست کی بساط کے زیر وزَبر ہونے کے امکانات پیداہو رہے ہیں ۔
صفدرا مام قادری
شعبہَ اردو، کا لج آف کا مرس ،آرٹس اینڈ سائنس ،پٹنہ
ہندستان کی بنیادی شناخت وَرنا آشرم کے تعلّق سے ہے، اِسی لیے عہدِ قدیم سے ذات برادری کی بنیاد سے آبادیوں کے اندر طرح طرح کی قوموں کو پہچاننے کا ایک انداز رَوا رہا ہے ۔ ہندستان میں جب آریوں کے یہاں یہ تقسیم راءج رہی تو جو غیر آریائی اقوام تھی، اُن میں بھی یہ سلسلہ قائم رہا ۔ ہندستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد باضابطہ طور پر برادری کی شناخت کا جو طور نظر آتا ہے، اُس میں قومِ عرب کے قبائل کے بر خلاف ہندستانی ہندو اقوام کی برادری سے ملتی جلتی نئی برادریاں گڑھنے کا ایک خاص شعورنظر آتا ہے ۔ اِس کی توجیح اِس طور پر بھی دی جاتی ہے کہ ہندستان کی مسلم آبادی حقیقت میں ہندستان کی ہندو آبادی سے تبدیلیِ مذہب کے بعد اپنی نئی شناخت میں پچھلی برادری کی روایت کے ساتھ موجود رہی ہے ۔ حالات تو ایسے ہوئے کہ ہندستان میں عیسائی آبادیوں میں بھی برادری کی سطح پر پہچان کا ایک خاص انداز دیکھنے کو ملتا ہے ۔ جین اور بودھ مذاہب کا ہندستان سے سیدھا رشتہ تھا، اِس لیے وہاں بھی وَرنا آشرم کے اثرات کھُلے طور پر ظاہر ہوئے ۔
عہدِ جدید میں اکثر ترقی پسند نقطہَ نظر کے حامل افراد نے وَرنا آشرم کو اِستحصال کی بنیادپر قائم درجہ بندی قرار دیا کیوں کہ اِس درجہ بندی میں کچھ آبادیوں کے لیے زیادہ آسانیاں تھیں اوربعض اقوام کے لیے گھُٹ گھُٹ کر مرنا لکھا ہوا تھا ۔ شودر کے لیے عرصہّ حیات تنگ تھا ۔ اُسی کے بر خلاف برہمن اور چھتریہ کے لیے زندگی کی ساری بہاریں لہلہارہی تھیں ۔ وشیہ کے لیے محنت سے کام کرنا تو لکھاتھا لیکن زندگی کا کوئی وقار اُس کے مقدّر میں نہیں تھا ۔ یہ نا انصافی ایسی مستقل اور قابلِ اعتبار رہی کہ منو اسمرتی نے شودر اور استری (عورت) کے لیے ’ویدِ مقدّس‘ کے جملے سُن لینے کے بعد بہ طورِ سزا کان میں سیسہ پگھلا کر ڈال دینے کا حکم سامنے آیا ۔ مطلب یہ کہ شودراور عورت تعلیم کے فیضان سے دُور رہیں ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوا کہ تعلیم پر برہمنوں کا اختیارِ واحد قائم رہے ۔
یہی وہ بنیادی مسائل ہیں جن کی کوکھ سے ہندستان میں سماجی انصاف کے لیے آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں ۔ جمہوریت کا حصول اور غلامی سے نجات کے معاملات توبعد میں آئے لیکن ہندستانی سماج میں اُنیسویں صدی میں ہی یہ بیداری سامنے آنے لگی کہ برادریوں میں منقسم ہندستانی سماج کو آگے بڑھنے کے لیے اِن سے آزادی حاصل کرنا اور کم از کم اُن زنجیروں کو توڑنا لازم ہے جن کی وجہ سے برابری کے حقوق بھی نہیں حاصل ہو رہے ہیں ۔ سماج میں یہ بھی نظر آنے لگا تھا کہ مالی اور تعلیمی اعتبار سے پس ماندہ وہی لوگ ہیں جو حقیقت میں وَرنا آشرم میں وشیہ اور شودر طبقے پہچانے گئے ۔ اِس کا واضح مطلب یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ہندو دھرم میں موجود وَرنا آشرم ہزاروں سال میں بھی اپنی اُن خامیوں کو دُور نہیں کر سکا اور سماج میں نا برابری کی کھائی بڑھتی چلی گئی اور سب سے افسوس ناک بات یہ رہی کہ اِس خلیج کی پشت پر نام نہاد مذہبی اُصول اور نظریات کام کر رہے تھے ۔ مہاتما بدھ نے ہندستانی سماج کے استضاد کو سمجھا تھا اور اپنے مذہب میں وَرنا آشرم اور ذات برادری کی تقسیم اور ممنوع قرار دیا تھا لیکن بعد کے زمانے میں اِس کا عمومی اثر قائم نہ ہو سکا ۔ جمہوری اداروں کے مستحکم ہونے اور جنگِ آزادی کے دَوران اپنے حقوق اور فراءض کے نئے سِرے سے پہچان کرنے کے جو معاملات سامنے آئے، اُن میں ہمارے مجاہدینِ آزادی اور دیگر ماہرین کا یہ کھُلا تجزیہ تھاکہ نا انصافی کی بنیاد پر کھڑے اِ س نظام کو نئے حالات اور ضروریات کے تحت جائزہ لینا ہوگا اور تدارک کی کوشش کرنی ہوگی ۔ ورنہ سماجی استحصال کے معاملات ناسور بن جائیں گے ۔
اِنھی اسباب سے آئین کے معماروں کو اور جنگِ آزادی میں شامل افراد کو ریزرویشن دینے کا خیال آیا جو سماجی اور معاشی سطح پر حاشیے پر ہوں ، اُنھیں اوسط سماجی سطح پر لانے کے لیے ایک فلاحی ریاست کا یہ فریضہ بھی تھا کہ وہ اُس جماعت کے معاونت کا سلوک رَوا رکھے ۔ ہندستان کے آئین میں متعدد ترمیمات کے بعد ریزرویشن کے بہت سارے اُصول شامل کیے گئے ۔ ملازمتوں میں ریزرویشن اِس لیے دیا جانا تھا کیوں کہ اُن طبقوں میں بے روز گاری زیادی تھی ۔ اِن سب کاموں کے لیے ابتدائی اور بنیادی اعداد و شمار مردم شماری کے ریکارڈ سے جمع کیے گئے ۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی ایک مبسوط نظام قائم تھا ۔ بے شک انگریزوں کی جانب سے ہی یہ سارے انتظامات تھے مگر اِس کا فائدہ یہ تھا کہ اپنے ملک کے بارے میں ہ میں تازہ صورتِ حال جس میں خاص طور سے معیشت اور تعلیم کے بڑے پیمانے پر ا عداد و شمار ہوتے تھے، وہ حاصل ہو جاتے تھے ۔ منڈل کمیشن کی سفارشات بھی جو ۰۸۹۱ء میں پیش کی گئیں ، اُس میں بھی مردم شماری کے ریکارڈس کو ہی بنیاد بنا کر گفتگو کی گئی ۔ تحقیق یا پالیسی سازی کا یہ ایک بنیادی اور اُصلوی طریقہَ کار ہے کہ جب کوئی بڑافیصلہ کرنے جا رہے ہوں توآپ کچھ اعداد و شمار یا کچھ حقائق کو بنیاد بنائیں ۔
جس زمانے میں من موہن سنگھ ہندستان کے وزیرِ اعظم تھے،اُس وقت پچھلی مردم شماری کے اعداد و شمار جاری ہونے تھے ۔ ہندستان کے بڑے بڑے سیاسی رہ نماؤں نے حکومت سے کہا کہ جب مردم شماری میں مذہب اور برادری کو پورے ملک میں شامل کیا گیا تو اِس تفصیل سے گریز کا راستہ کیوں چنا جا رہا ہے ۔ حکومت بھی اِس بات کے کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھی کہ اُس کے پاس یہ ریکارڈس نہیں ہے ۔ سچائی یہ تھی کہ مردم شماری کے فارم میں مذہب اور برادری کے خانے تھے اوراِسے پُر کرایا گیا تھا لیکن سیاسی مصلحت کے تحت اِس کے اعلان سے حکمراں جماعت گریزاں تھیں ۔ لاکھ ہنگامہ آرائی ہوئی لیکن حکومت نے بہر طور اِسے قبول نہیں کیا اوربرادری کی سطح پر ملک میں کس کی کتنی آبادی ہے، یہ پتا نہیں چل سکا ۔
گذشتہ کئی برس سے بہار اور یوپی اور اِن کے شامل حذبِ اختلاف کے لیڈروں نے حکومتِ ہند پر یہ دباوَ قائم کرنے کی کوشش کی کہ برادری کی بنیاد پر الگ سے کوئی سروے کرا لیا جائے یا۱۲۰۲ء کی مردم شماری میں جو ریکارڈس برادری کے سلسلے سے آئے ہیں ، اُنھیں ظاہر کیا جائے ۔ کُل جماعتی وفود حکومتِ ہند تک پہنچے مگر وزیرِ اعظم نے اِس سلسلے سے کوئی پیش رفت نہیں کی ۔ اِس دَوران بہار کے وزیرِ اعلا نتیش کمار اور نائب وزیرِ اعلا تیجسوی یادو نے برادری کی سطح پر صوبہَ بہار میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ کر لیا ۔ طرح طرح کی ہنگامہ آرائی اور عدالتی داؤں پیچ کے بعد اُس کے ابتدائی اعداد و شمار جو جاری ہوئے ہیں تو ہماری آنکھیں کھُل گئی ہیں ۔ یہ بات بھی سمجھ میں آ رہی ہے کہ لوگ کیوں برادری کی سطح کے اعداد و شمار عوام کے سامنے نہیں لانا چاہتے تھے یا یہ بات بھی سمجھ میں آرہی ہے کہ اِس سلسلے سے سیاسی حلقے میں ایک طبقہ کیوں بار بار یہ ڈیمانڈ کر رہا تھا ۔
بہار کے سروے کے نتاءج چونکانے والے ہیں ۔ مرکزی سطح پر جِسے او ۔ بی ۔ سی (پس ماندہ طبقات) کہتے ہیں ، اُسے صرف ۷۲;241; فیصد ریزرویشن دیا جاتا ہے جب کہ اُس کی اصل آبادی ۵۶;241; فیصد سے زیادہ ہے ۔ جِسے غیر ریزرویشن زُمرہ کہاجاتا ہے یعنی جنرل اُس کی بہار میں آبادی ۵۱;241; فیصد کے قریب ہے جب کہ اُسے ای ۔ وبلو ۔ ایس میں ۰۱;241; فیصد اور جنرل کٹیگری میں ۰۵;241; فیصد یعنی کُل ۰۶;241; فیصد مواقع حاصل کرنے کی آزادی مِلی ہوئی ہے ۔ اِن اعداد و شمار سے یہ بات کھُل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ریزرویشن میں جو حد بندی ہے، اُسے بڑھانا ناگزیر ہو گیا ہے ۔ ورنہ یہ ایک الگ طرح کی نا انصافی کی بنیاد قائم کرے گا ۔
اب سیاسی جماعتوں پر اِن اعداد و شمار کے سبب دباوَ قائم ہونے لگے گا کہ وہ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں آبادی کے تناسب کے مطابق اپنے امیدوار میدان میں اتاریں ۔ یہ صرف راشٹریہ جنتا دل یا کانگریس یا جنتا دَل یونائیٹڈ کے لیے نہیں ہوگا بلکہ دیر سویر بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی ایسے سوالوں کے جوابات دینے ہوں گے ۔ جب پورے ملک میں اُسے ایک یا دو اُمید واراقلیتی طبقے سے ملتا ہے تو نمایندگی میں نا انصافی کا سوال سامنے آئے گا ہی ۔ اقلیتی جماعت کے افراد بھی جتنی تعداد میں سیکولر پارٹیوں سے سیٹیں حاصل کرتے ہیں ، وہ اُن کی حقیقی تعداد سے کم ہے ۔ بہار میں اقلیت آبادی یادو برادری سے تین فیصد زیادہ ہے ۔ اب راشٹریہ جنتا دَل سے یہ سوال پوچھا جائے گا کہ یادو اُمید واروں سے زیادہ تعداد میں کیا آپ مسلمانوں کو نمایندگی دینا پسند کریں گے ۔ نیتش کمار کی پارٹی جن برادریوں پر ٹکی ہوئی ہے، اُس کی چوگنی تعداد میں مسلمان موجود ہیں ، اب عوامی سطح پر اِس کے حساب کتاب کی تیّاری شروع ہوگی ۔ مسلمانوں میں کہیں کہیں ریزوریشن کے سوالوں پر بے رُخی کا رویّہ رہتا ہے مگر اُنھیں بھی یہ پورے طور پریاد رکھنا ہوگا کہ اُن کے اندر جس جس برادری کی جتنی آبادی ہے، اُسی تناسب میں مواقع دیے جائیں ۔ انصاف کی آخری حد یہی ہوگی ۔ ہ میں یقین ہے کہ آنے والے وقت میں بہار اور اُتر پردیش میں ہی نہیں پورے ہندستان کی سیاست میں تبدیلیاں آئیں گی اور جس کی جتنی تعداد ہے، اُس کے اعتبار سے اُسے موقع دیا جائے گا ۔ رام منوہر لوہیا نے آج سے ساٹھ برس پہلے سماج وادی تحریک کا جو نعرہ دیا تھا، وہ آج بھی موزوں ہے: ’ووٹ ہمارا راج تمہارا;234; نہیں چلے گا نہیں چلے گا ۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں ]