مضامین و مقالات

بزدل قیادت گلے کا پھندا ہیں مسلمانوں کو چاہئیے اپنا قبلہ درست کرلیں!

احساس نایاب شیموگہ کرناٹک

سب منافق ہی نظر آتے ہیں باطل کے سوا
ہیں سبھی شاد میرے قتل پہ قاتل کے سوا

گزشتہ روز سوشیل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی ، ویڈیو مظفرنگر کے اسکول کی ہے جس میں ایک سنگھی ٹیچر اپنے ہی کلاس کے التمش نامی مسلم بچے کو ہندو بچوں کے ہاتھوں بُری طرح سے پٹوارہی ہے ،
مسلم بچہ کا قصور بس اتنا سا تھا کہ اُس نے ہوم ورک میں غلطی کی
اس پہ سنگھی ٹیچر نے استاد کے مرتبہ کو داغدار کرتے ہوئے نفرت کا ایسا ننگا ناچ کھیلا کہ انسانیت بھی شرم سار ہوگئی، ٹیچر نے اُس معصوم بچہ کو ہندو بچوں کے ہاتھوں تھپڑ لگواکر بچوں کے دل و دماغ میں نفرت کا بیج بودیا ، ویڈیو میں ہندو بچے باری باری آتے ہیں اور معصوم التمش کے منہ پر زودار تھپڑ رسیدتے ہیں ، اس دوران التمش شرم اور درد سے رو پڑتا ہے التمش کے آنسوؤں سے بھی اُس ناگن کا دل نہیں پسیجتا اور وہ ٹیچر کہلانے والی کمظرف عورت ہندو بچوں کو اور زور سے مارنے کی ہدایت دیتی ہے۔
ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پوری دنیا بھارت میں پنپ رہی مسلم دشمنی پہ تھو تھو کررہی ہے اور عالمی سطح پر اس کی مذمت کی جارہی ہے ۔
باوجود اُس سنگھی ٹیچر پر کسی قسم کی کاروائی نہیں کی جاتی ، اُلٹا معاملے کو الگ رنگ دے کر دبانے کی کوشش جاری ہے۔
اس دوران
محترم ارشد مدنی صاحب کی تنظیم جمعیت علمائے ہند کی جانب سے ایک وفد متاثرہ بچہ سے ملاقات کے لئے پہنچتا ہے، ملاقات کے دوران بچہ کو ایڈاپٹ کرنے کا اعلان بھی کیا جاتا ہے یعنی بچہ کو گود لینا
لیکن سوال اب بھی وہی ہے
اُس معصوم کے ساتھ جو زیادتی کی گئی ہے ، پوری کلاس کے آگے جس طرح بچہ کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے کیا گود لینے سے التمش کو انصاف مل جائے گا ؟
کیونکہ اس ملاقات مین جمیعت کی جانب سے کہین پر بھی سنگھی ٹیچر کے خلاف ایک لفظ نہین کہا گیا نہ ہی اس پہ کسی قسم کی قانونی کاروائی کرنے پہ زور دیا گیا ہے
جبکہ انٹرویو لے رہی اینکر نے اس پر سوال بھی کیا لیکن اینکر کے سوال پر بچے کو گود لینے اور بچے کی تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی بات کہی گئی ۔
اس پورے انٹرویو مین ایک لمحہ بھی یہ محسوس نہیں ہوا ایز آ مسلم، ایز آ ہیومن التمش کے ساتھ کئے گئے ظلم پر کسی کا خون کھولا ہو ۔
خیر یہ ایک غریب التمش کا معاملہ ہے جو چند سکوں کی چھن چھناہٹ سے رفع دفع کردیا جائے گا
لیکن کب تک ؟
ایسے سینکڑون التمش آنکھوں سے گُم ہیں جو مسلمان ہونے کی وجہ سے ہر دن کسی نہ کسی علاقے مین ظلم و ذیادتیون کا شکار ہورہے ہیں ۔۔۔
حال ہی میں بھارت کی راج دھانی دہلی میں بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا ہے ،،، جہاں پورا بھارت چندریان کی کامیابی کی خوشیان منارہا تھا، مٹھائیاں بانٹی جارہی تھی، سجدوں میں گر کر شکرانے ادا کئے جارہے تھے وہین پرانی دہلی کے
سرودیا بال ودیالئے کی ٹیچر ہیما گُلاٹی چار مسلم بچوں کو پاکستان جانے کا طعنہ دے کر اسلام کی توہین کررہی تھی ۔
ویسے یہ کوئی ایک یا دو معاملے نہیں ہیں بلکہ ہردن ایسے کئی معاملے ہمارے آس پاس پیش آرہے ہیں جہان مسلم بچوں کو دہشتگرد کہہ کر پریشان کیا جارہا ہے، جان بوجھ کر انہیں سزائیں دی جاتی ہیں ، یہاں تک کہ امتحان میں نمبرات کم کرکے فیل کردیا جاتا ہے ۔۔۔
ایسا ہی ایک معاملہ شہر شیموگہ کی دو اسکولوں مین پیش آچکا ہے لیکن افسوس اس پہ ہلکی مذمت کے سوا کسی قسم کا ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا جو پوری انسانیت کےلئےلمحہ فکریہ ہے
ہمارے معصوم بچوں کو ذہنی و جسمانی ہراساں کیا جارہا ہے کبھی حجاب کے نام پر تو کبھی ٹوپی کے نام پر پریشان کیا جاتا ہے اور ہماری قیادتین ٹھنڈے کمروں، اسٹجوں اور بریانی کے دسترخوانوں سے اٹھنے کو تیار نہیں ہیں ۔
شاید انہیں جگانے کے لئے سیلاب کا آنا ضروری ہے یا کسی فساد زدہ علاقے کی مکمل تباہی جس کے بعد یہ لوگ ریشن کٹس کے ساتھ سیلفیان لیتے ضرور نظر آئیں گے اس کے علاوہ قوم مسلم پر کوئی قیامت بھی آجائے کسی کے کان پہ جوں بھی نہیں رینگے گی ۔
ابھی بینگلور ہی کی مثال لیجئیے ، ڈی جے ہلی معاملے میں
کتنے نوجوان آج بھی قید و بند کی اذیتین برداشت کررہے ہیں ، کرناٹک میں حکومت بدل گئی، دو مسلم منسٹروں کی صورت مسلمانوں کو خلافت مل گئی، سنہرے دن لوٹ آئے جدھر دیکھو خوشیون کے رنگ برنگے دیپ اور ہریالی ہی ہریالی ہے مگر اُن گھروں کے آنگن آج بھی اپنے لخت جگر کی چہل قدمی سے محروم ہیں ۔
آخر کب تک ہماری سوچ کا دائرہ ریشن کٹس، اسٹیج اور سیلفی تک محدود رہے گا ؟؟ آخر کب تک ہمارے نوجوانوں کی بےجا گرفتاریاں ہوں گی اور کب تک رہائی کے نام پر قانونی کاروائیوں کا کھیل کھیلا جائے گا ؟
اس دوران یہ اور ان کے اہل خانہ جن اذیتون پریشانیون سے گزرتے ہیں دن ، ہفتے ، مہینے اور سالوں کا جو نقصان ہورہا ہے اس کا خامیازہ کون ادا کرے گا ؟
مسلمان آخر کب تک بلڈوز کے نیچے دھائے جانے والے ملبے میں زندگیان تلاش کریں گے ؟
کب تک مذمت اور اپیلوں کے نام پہ تھوک مالش کی جائے گی ۔
آخر کیوں ہماری آوازین حلق سے باہر نہیں نکلتی ، کیوں ان مظالم کے خلاف سخت درعمل نظر نہیں آتا ؟
کاش مسلم رہنماؤں کی جانب سے مذمت و امن کی اپیلوں کے بجائے سخت اقدامات اٹھائے جاتے،
ملک کے نااہل حکمران سے دوٹوک بات کی جاتی، اپنے شرائط کے ساتھ اپنے مطالبات رکھے جاتے، ملک کی دوسری بڑی اکثریت کی طاقت کا ایسا شاندار مظاہرہ کیا جاتا جسے دیکھ کر دشمن کی ٹانگیں لڑ کھڑا جائے ۔ کرنے کے لئے کام بہت ہیں لیکن
افسوس سب کچھ چھوڑ کر آج ہر اچھے بُرے حالات میں امداد کے نام پر چندوں کا دھندا شروع ہوجاتا ہے
آخر کب تک مسلمان اپنے زخمون پر امدادی مرہم ہی لگواتے رہیں گے ؟
قوم مسلم کے اندر وہ ایمانی حرارت و حمیت کہان کھو گئی ہے ؟
جو غیروں کی بہن بیٹیوں پر اُٹھنے والی آنکھ نوچ لیا کرتے تھے، بہنوں کے ایک آنسو پہ تخت و تاج الٹ دئے جاتے، آج کیوں ان کی اپنی عزتین ان کی غیرت، ان کی اپنی ماں بہن بیٹیاں کفار کی چوکھٹوں پر سسک رہی ہیں ؟
بڑے دُکھ کے ساتھ ہم یہ لکھ رہے ہیں جس قوم کے لیڈر رہنما رہبر بےحس بےشرم بزدل و بےغیرت ہوجائیں اُس قوم کی ماں بہنوں اور بچوں کے مقدر میں ذلت و رسوائی کے تھپیرے ہی ہوں گے ۔
افسوس کہ آج کنتری کُتوں کا جھُنڈ شیروں کا شکار کررہا ہے ۔
سرکاری بسوں میں بےحیا کمظرف عورتیں مسلم کنڈیکٹر کے سر کی ٹوپی اتروارہی ہیں۔
غریب اپاہج مسلم مزدوروں کو سنگھی مردوں و عورتوں کے ہاتھوں لات گھونسوں سے پٹوایا جارہا ہے۔
ہمارے کھانے پینے پہناوے ، عبادتیں و تجارت سے لے کر ہنسنے بولنے پر بھی پہرے لگائے جارہے ہیں ۔
چلتی ٹرینوں میں محافظ کہلانے والی پولس کے ہاتھوں مسلم مسافروں کا قتل کروایا جارہا ہے۔
نیشنل چینل پر بےحیا کمظرف عورتیں بظاہر عالم نظرآنے والے نام نہاد مولوی کو تھپڑ ماررہی ہیں،
سامنے بیٹھی اینکر آپ کے ساتھ ساتھ پوری قوم کی دھجیاں اڑارہی ہیں اور آپ چہرے پہ مسکراہٹ لئے بےغیرتی کا مظاہرہ کررہے ہیں جو ایک مسلمان کے لئے شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔

دنیا جب سے بنی ہے اللہ والوں نے خدائے ایکتا پر ایمان لایا ، بت پرستوں کے آگے ڈٹ کر اللہ سبحان تعالی کی شان اُس کی وحدانیت کی گواہی دی تبلیغ کی ، نتیجتا یہود و نساری کفار و مشرکین اللہ والوں کے بدترین دشمن بن گئے، اللہ سبحان تعالی کا پاکیزہ کلام کہتا ہے کہ یہ لوگ رہتی دنیا تک دشمن ہی رہیں گے ۔۔۔ بھلے مسلمان انہیں لاکھ محبتوں کے نزرانے پیش کریں، اپنے جسم کی چمڑی اڈھیڑ کر ان کے پیروں کی جوتیاں بنادیں تب بھی یہ اپنی زہریلی نفرت سے باز نہیں آئیں گے
اسلام سے ان کی بغض و نفرت کا یہ عالم ہے کہ ہر دور میں ان خبیثوں نے مسلمانوں کو ہراسان کیا ہے مسلمانوں کو سخت ترین اذیتیں پہنچائی ہیں، لاکھوں بےگناہ مسلمانوں کو شہید کیا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، ہمارے بچوں کو یتیم اور بوڑھے مان باپ کو بےسہارا کیا جارہا ہے، ہمارے آشیانے جلائے جارہے ہیں بُلڈوز کئے جارہے ہیں لیکن مجال ہے جو مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ ایمان مٹا پائیں ، خدائی دعوے کرتے ہوئے ناجانے کتنے فرعون آئے اور خاک ہوگئے لیکن اپنی گندی نیتوں سے دین اسلام کے سائے تک کو چھو نہ سکے، البتہ کائنات کے کونے کونے میں اسلام کے پرچم کو لہرانے سے کوئی روک نہ سکا ۔
باطل طاقتوں کی جانب سے پریشانیان آزمائشین اذیتین، ظلم و جبر اپنی جگہ اور قوم مسلم کے حوصلے و استقامت ، دلیری بہادری شجاعت و جذبہ شہادت اپنی جگہ مستحکم ہیں
یہی وجہ ہے کہ
محمد بن قاسم محض سترہ سالہ نوجوان ایک بہن کی آواز پر لبیک کہہ کر سمندر وادیاں عبور کرکے سندھ فتح کرتا ہے، قوم مسلم نے فتوحات کے ایسے ایسے سنہرے دور دیکھے ہیں جہان مُٹھی بھر مسلمانوں نے میدان جنگ میں دشمنوں کے لاکھوں کے لشکر کو دھول چٹائی ہے ۔
ہم نے کشتیاں جلا کر توکلت علی اللہ کا پیغام دیا ہے ۔
مسلمان نہ کل غیراللہ کا محتاج تھا نہ آج ہے نہ کبھی ہوگا، اسباب وسائل و تعداد کا رونا بزدلوں کا شیوہ ہے مسلمانوں کا نہیں
مسلمانوں نے جہاں جنگ بدر کی عظیم فتوحات دیکھی ہے وہیں، جنگ احد کی شکست نے ہمیں سیکھ دی ہے، ہم نے جہاں جنگ قندق میں پیٹ پر پتھر باندھے غازیوں کو دیکھا ہے ، وہیں نانا کے دین کی سربلندی اور اللہ کی رضا کے خاطر کربلا میں جام شہادت نوش کرتے امام حُسین علیہ السلام اور زخموں سے چور اہل بیت کی قربانیاں دیکھی ہیں جنہونے ، اپنا سب کچھ لٹاکر بھی باطل کے آگے جھکنے سے انکار کردیا، مفلسی و بےسروسامانی کے باوجود ہماری ایک ایک تلوار سینکڑون دشمنوں کو جہنم رسید کرتی رہی ہے، ہم نے سجدے بھی کئے ہیں تو تیروں و تلواروں کی چھاؤں میں، ہماری عبادتیں ہماری دعائیں، خدا سے ہمارا والہانہ عشق محض مسجدوں و خانخاہوں کا محتاج نہیں ہے بلکہ اللہ اور اللہ کے دین سے محبت کا ثبوت ہم نے جنگ کے کھردرے میدانوں، پہاڑوں، سمندر کی خوفناک لہروں و تپتے سحراؤں ریگستانوں میں دیا ہے ، خون اور گرد و غبار سے لت پت ہمارے جسموں نے سینکڑوں زخمون سے چور ایک طرف سپاہی کا فرض تو دوسری طرف امامت کا فریضہ انجام دیا ہے ۔
ہمارے رہنماؤں نے دنیاوی زندگی کے آگے آخرت کی ابدی زندگی کو ترجیح دی ہے ،
تاریخ گواہ ہے
انسانیت کے علمبردارون نے کبھی امن و شانتی کے خاطر اسٹیجس نہین سجائے نہ ہی دشمنان اسلام کی خوشنودی کے لئے گُل پوشی کرکے لمبے چوڑے دستر خوان بچھائے ۔۔
جب بھی امن و بھائی چارگی کے معاہدے طئے ہوئے ہین طاقت کے زور پہ ہوئے ہیں کیونکہ کمزور کا کوئی ہرسان حال نہیں ہوتا۔
لیکن افسوس آج چند مسلمان اپنی تاریخ بھول چکے ہیں ، اپنے رہنماؤں کی شجاعت دلیری جرات و قربانیوں کو فراموش کردیا گیا ہے۔
ہم نے شجاعت و شہادت کے اسباق پر منافقت کی سیاہ چادر اڑھادی ہے
دنیا میں حکمرانی کرنے والی قوم آج بزدل غلام بن چکی ہے ۔
طاغوتی طاقتوں کے آگے ہماری نام نہاد قیادتیں جی حضوری کررہی ہیں۔۔
کبھی کبھی تو یون لگتا ہے جیسے ہم بت پرستون جیسے ہوچکے ہین جو ایک خدا کے بعد دوسرے خدا
ایک آقا کے بعد دوسرے آقا میں آسرا تلاش کرتے ہیں۔
آخر یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے ؟
ایک طرف ہم مسلمان ہونے کا دعوی بھی کریں، توحید کی بڑی بڑی باتیں کریں، وہیں دوسری طرف ظالم کے خوف سے سجدہ ریز ہوجائں ۔۔
جس قوم میں مظلوم کی حمایت اور حق و انصاف کے خاطر ظالم کے خلاف اٹھنے والی تلواروں پہ زنگ لگ جائے، جہاں قلم شخصیت ہرستی کی سیاہی میں ڈوب کے رقص کرنے لگیں ، جہاں جذبہ وحدانیت سے سرشار سروں پہ سیکولرزم کا بھوت سوار ہوجائے
جہاں مان بہن بیٹیوں کی چیخ و پکار کو مصلحت کی آڑ میں دفنایا جائے
جس قوم کے رہبر رہنما بےگناہ نوجوانوں کے خون سے اٹے ہاتھون سے ہاتھ ملاکر امن و بھائی چارگی کے نام پہ گُل پوشی کریں
جس قوم کی بوڑھی قیادتین اپنی جانوں کی امان چاہیں ، شہادت کے آگے زندگی کو ترجیح دیں، اپنا حق بھی بھیک کی طرح مانگیں، حکمرانی شہنشاہی کے سب باب مٹاکر غلامی کی حقارت بھری سانسوں کو نعمت سمجھین،
جس قوم کے دینی ادارون و درسگاہون مین چور غنڈے موالی قابص ہوجائیں
جہان انصاف کا ترازو بھی عہدہ، اوقات و حیثیت دیکھ کر جھکتا ہو،
جہاں قاضی بھی ظالم سے پوچھ کر فیصلہ سنائے
جہاں سیاہ پوشوں کے درمیان سفید پوشوں کے قہقہے گونجیں،
جہان عالم ، مفتی بھی حرام محفلوں کے لقموں پر شکر گزاری کرنے لگیں،
جہان امانت کو خیانت اور خیانت کو امانت کہہ کر حقداروں کی حق تلفیان ہوں
جہان نوجوانوں کو بزدلی کے سبق پڑھائے جائیں
وہان قیامت خود کہے گی قیامت کیوں ضروری ہے
پھر ظالم حکمرانوں کی صورت اللہ کا عذاب نازل ہوگا
بھلے لاکھ لمبے سجدون مین گرکر آپ اللہ اللہ کہیں
تسبیح کے دانوں مین خیر و عافیت تلاش کریں
مسجدون کے ممبروں پہ چڑھ کر
مسلک مسلک فرقہ فرقہ کھیل کر خود کو تسلیاں دیں ، گروہ بندیوں میں امت کو تقسیم کرکے ، ایک دوجے کو کافر کافر کہہ کر چلائیں ، حالات پر ایک دوسرے کو موردالزام ٹہرائیں، اور پھر بڑی بےشرمی و بےغیرتی سے خدا کے حضور خیر کی امید بھی کریں افسوس
یاد رہے بزدلی انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے اور ہر بُرائی کی پہلی جڑ بزدلی ہے، جبکہ بہادر قومیں ہوں یا انسان ہر دور میں سرخرو رہتے ہیں۔
قدرت کبھی یہ نہیں دیکھتی کہ اس نے کتنے سجدے کئے تسبیح کے کتنے دانے پھیرے، قدرت کا انعام نیک اعمال و مسلسل جدوجہد سے ہے ۔

غیر اللہ کے محتاج بننے سے بہتر ہے کٹ کر مرجائیں
یہ قوم حکمرانی کے لئے ہے غلامی کے لئے نہی
تم ہی غازی ہو، سپاہی ہو، مجاہد ہو، تم ہی منصف ہو چمن کے پاسبان بھی ہو تم، تم ہی محافظ ہو نگہبان بھی ہو تم ، دنیا کے لئے رب کا انعام ہو تم ۔
جہاں سب کچھ آپ سے ہے وہاں دشمنان اسلام کے آگے سانسوں کی بھیک کیوں ؟
آخر کب تک ایک کے بعد دوسرے مین سہارا تلاش کرتے رہیں گے
کیا آپ کے پیر کٹ چکے ہیں، آپ کے بازو شل ہوچکے ہین یا آپ کی سوچ آپ کی عقلین مفلوج ہوچکی ہیں جو آپ انصاف کو بھیک اور حق کو خیرات کی طرح مانگ رہے ہیں۔
ہم اس غلامی کے طوق سے خود کو کب آزاد کریں گے ؟؟
یہ وہ قوم ہے جو ایک دن کی شادی و جلسے جلوس کے لئے کروڑوں روپیہ پانی کی طرح بہاتی ہے
وہیں جب بچیوں کے لئے تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو اسباب وسائل کا رونا روتی ہے
ہماری بچیاں کفار کے چنگل میں ہیں لیکن ہماری بےغیرتی کی انتہا کہ ہم اپنی بچیون کے لئے تعلیمی ادارے نہیں بناپارہے
ہماری نوجوان نسلوں کو نشیڑھی بنایا جارہا ہے انہیں نشے کے دلدل مین ڈھکیل کر رفتہ رفتہ مسلمانوں کا وجود ختم کیا جارہا ہے باوجود ہم ہوش کے ناخون نہین لے رہے
آج ہمارے پاس نہ کاؤنسلنگ سینٹرس ہین نہ ریہبٹیشنس ۔ اگر کچھ ہے تو فقط غلام ذہنیت کبھی اس لیڈر تو کبھی نام نہاد رہنماؤں کی چاپلوسی ۔۔
یاد رہے ان رہبران قوم و ملت کی
غیرت کا جنازہ اُسی وقت اُٹھ چکا جب سربازار مسلم بہن بیٹیوں کے سروں سے آنچل کھینچے جارہے تھے اور ہماری نام نہاد قیادتین اے سی کے کمروں میں بیٹھ کر حکمت و مصلحت کا راگ آلاپ رہی تھیں
اب وقت ہے کہ ان بےغیرت مردہ قیادتوں پر فاتحہ پڑھی جائے جنہونے اپنی زبانوں پہ دنیاپرستی کے قفل لگالئیے ہیں ، جن کی نظر میں بقا کے معنی ظالم آقاؤں کی خوشنودی ،جی حضوری ہے۔
ان کی جگہ مضبوط بیباک قیادت کو ابھارا جائے جس کے نام سے ظالموں سے ہسینے چھوٹ جائیں
یہاں کچھ بھکتوں کے پیٹ میں مروڑ ہوگا کیونکہ یہ لوگ مردہ قیادتوں کی پرستش مین لگے ہیں جنہیں اندھ بھگت کہنا غلط نہیں ۔
یاد رہے لاشیں صرف بےجان جسموں کی نہیں ہوتی ، بلکہ لاشیں وہ بھی ہیں جن کے اندر غیرت مرچکی ہو ، جن کا ضمیر مردہ ہو یہ وہ بدترین بدبودار لاشیں ہیں جو بےجان لاشوں سے بھی کئی گنا زیادہ خطرناک ہیں، ایسے میں وقت اور حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ مسلمان اپنا قبلہ درست کریں ۔۔۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button