مضامین و مقالات

اپنے دفاع میں حملہ آور کو جان سے مارنے کی اجازت، قانون بھارت ہمیں دیتا ہے

 

 

۔ ابن بھٹکلی
۔ +966562677707

مشہور سائینس دان نیوٹن کا اوصول "اپنی جان بچانے حملہ آور پر ہی حملہ کردینا”("فائیٹنگ فور سروائیول”) غالبا” یہی جہادی جذبہ کی ادنی مثال ہے۔ مسلمان کسی بھی مصلحت سے اپنے دفاع ہی میں، ہاتھ اٹھانے سے رہ جاتے ہیں اور دہشت گرد بھیڑیوں کتوں کی بھیڑ کے آگے، اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ اپنی اور اپنی آل اولاد و قوم ملت کی جان، عزت آبرو بچانے کے لئے حملہ آور دہشت گردوں کو، اپنے دفاع میں ہی، مارنے کی اجازت نہ صرف اس دیش کا سیکیولر قانون بھی ہم بھارت کے ہر شہری، ہر مسلمان دلت کو دیتا ہے۔ اور اسلام تو اپنی جان بچانے کے لئے،ہر موذی چیز کو بھی، ماقبل حملہ آوری مارنے کی اجازت دیتا ہے۔ اگر بھارت کےچند مسلمان بھی ان دہشت گرد ھندو تنظیموں کے سنگھی جنونی نوجوانوں کے،ان پر حملے بعد، اپنا دفاع کرتے، تڑپتے، تل تل بے عزتی والی مجبور موت مرنے کے بجائے، حملہ آوروں ہی سے ہتھیار لوٹ کر، اپنے دفاع ہی میں، ان حملہ آوروں پر حملہ کرتے ایک دو کو موت کے گھاٹ اتار کر یا انہیں کاری مار سے نقصان پہنچاتے ہوئے، خود انکے ہاتھوں مر بھی جائینگے تو شہید کی عزت والی موت مرتے ہوئے بھی، اولا” خود بعد موت جنت کے حقدار بن جائیں گے، بلکہ اپنے پیچھے ہم مسلمانوں کے لئے دلیری، ہمت والا انمول سبق دئیے چلے جائیں گے۔مہارآشٹرا خاندئش کے شیخ وسیم کا اپنے دفاع میں دہشت گرد مسلم منافرتی چار شرابی ھندو نوجوانوں کو جان سےمارنے کے باوجود، سیکیولر قانون بھارت خود حفاظتی حملے میں چار دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے باوجود، قانون ھند کے دفاعی حملہ آوروں سے بچ نکلنے کا واقعہ ہم مسلمانوں کو اپنے دفاع میں حملہ آور کو مارنے کی اچھی سیکھ نہ صرف دیتا ہے بلکہ ہمارے پیچھے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں سے اٹھ گئے جہادی جذبہ جہاد کو جلا بخشنے کا سبب بنتا ہے

موب لنچنگ کا وہ واقعہ جس کو سن کر آپ کے سینے میں نہ صرف ٹھنڈک اتر جائیگی بلکہ ان دہشت گرد ھندو جنونیوں کے ہاتھوں بے عزتی کی موت مرنے کے بجائے،قانون بھارت میں حق دفاع کے لئے حملہ آور کو مارنے کی اجازت دفعات کے چلتے، بےعزتی والی مدافعتی موت مرنے کے بجائے حملہ آور کو مرنے سے پہلے مارنے والے جہادی جذبات سے ہم مسلمانوں کو شرشار کرتے ہیں،،،،

یہ واقعہ مہاراشٹر کے خاندیش علاقہ کا ہے، ایک چھوٹے سے غیر معروف دیہات میں غالبا شیخ وسیم نامی نوجوان جو رکشا چلاتا ہے، اس کی گاڑی کو چار آدمیوں نے آواز دیکر روکا،، انکو لیکر وسیم مطلوبہ مقام کی طرف چل پڑا، چاروں شراب کے نشہ میں تھے، شام کا وقت تھا، تب ہی ان میں سے ایک کی نظر رکشا میں لگے 786 کے اسٹیکر پر پڑی، آپ جانتے ہیں دیہاتی مسلمان روانی سے مراٹھی بولتے ہیں، اس لئے مذہب پہچاننا مشکل ہوتا ہے، لیکن اسٹیکر کو دیکھ کر چاروں مسافر نے وسیم سے بازپرس شروع کردی، اور گالی گلوج پر اتر آئے، وسیم انکو نظر انداز کرتا رہا، کہ یہ لوگ نشے میں ہیں، اب گالی کے ساتھ ان لوگوں نے چالو گاڑی میں اس پر ہاتھ اٹھانا بھی شروع کردیا، اور گاڑی روکنے کو کہا، اسے لگا، یہ لوگ گاڑی سے اترنا چاہتے ہیں، لہذا اس نے فورا گاڑی روک دی، لیکن ایسا نہیں ہوا، وہ لوگ مسلسل وسیم پر تشدد کرتے رہے، اور وہ بے چارہ ہاتھ پیر جوڑتا رہا، اسے لگا کہ یہ لوگ مار ٹھوک کے اسے چھوڑ دینگے، لیکن تشدد بڑھتا گیا، ہاتھ پیر کی جگہ لاٹھی ڈنڈوں نے لے لی، وسیم روتا بلکتا دہائی دیتا رہا، پھر دیکھا کہ ایک شر پسند ایک بڑا سا پتھر اٹھا کر لارہا ہے، اسے اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آئی، لیکن اچانک اسکی کوئی حس بیدار ہوئی، اور گاڑی میں رکھا ایک لوہے کا پائپ اٹھا کر اس نے اس کے سر پر مارا، اور وہ سخص وہیں زمین پر گرپڑا، اپنے ایک ساتھی پر حملہ دیکھ کر تینوں بوکھلائے اور اپنے پاس موجود چاقو نکال لیا، ایک کا تو تقریبا کام تمام ہوچکا تھا، اب یا تو ان تینوں کے ہاتھوں مرنا ہے، یا انکو بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا، اس سے پہلے کہ یہ لوگ چاقو سے حملہ کرتے وسیم نے ایک کے بعد دیگرے تینوں کے سر پھاڑ دیے، زمین پر خون میں لت پت چار لاشیں پڑی تھی، راہگیروں نے جب دیکھا تو پاس ہی گاوں میں جاکر خبر دی، پھر کیا تھا، لاٹھی ڈنڈے لیکر ایک بھیڑ آنے لگی، اور وسیم کو ایک مرتبہ پھر موت سامنے نظر آئی، لیکن اب اس نے مارنا سیکھ لیا تھا، لوگ جوں ہی پاس آۓ، خون میں لت پت چار لاشیں دیکھ کر بھیڑ کی بھی سٹی گم ہوگئی، وسیم نےگرج دار آواز میں دھمکی دی کہ جس کو اپنی لاش بچھانا ہے، وہی آگے بڑھے، سب کے سب گھبرا گئے کسی نے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کی، اب وہ لوگ کچھ پیچھے ہٹ گئے لیکن وسیم کا محاصرہ کیے رہے، انہیں میں سے کسی نے پولس کو خبردی، پولس آئی اور وسیم کو گرفتار کر کے لے گئی، جسے اللہ رکھے کے مصداق اسطرح وسیم بھیڑکے ہاتھوں بھی مرنے سے بچ گیا،،
غیر مصدقہ خبروں کے مطابق،،،، وسیم کو ایک مسلم وکیل نےحق دفاع کے تحت، دو برسوں کی محنت سے بری کروالیا،، اب وسیم اس علاقے کو چھوڑ کر کہیں اور اپنی آزاد زندگی گزار رہا ہے، یہ کوئی فلم کی کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقی واقعہ ہے، اس واقعے سے فرقہ پرست طاقتوں کو زبردست شرمندگی اٹھانی پڑی۔
اگر یہ واقعہ معروف ہوجاتا، یا اس نوعیت کے چند ایک مزید واقعے ہوجاتے تو، ملک کا منظر نامہ کچھ اور ہوتا، کوئی تمھاری طرف آنکھ اٹھانے سے پہلے سو بار سوچتا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button