قربانی ایک بڑی عبادت اور عظیم معاشی پیکیج
شیخ رکن الدین ندوی نظامی
گزشتہ چند برسوں سے عید الاضحی کے موقع پر قربانی کی مخالفت اپنی انتہاء کو پہنچ گئی، کانگریس گورنمنٹ میں بھی بہت سی ریاستوں میں گائے ذبح کرنے پر پابندی تھی، متحدہ آندھرا تلنگانہ میں بھی سرکاری طور پر کوئی پابندی تو عائد نہیں تھی مگر عید کے موقع پر نام نہاد گؤرکھشک شہر حیدرآباد اور دیگر بڑے شہروں کی شاہراہوں پر بھیڑ کی شکل میں جمع ہوکر بڑے جانوروں سے لدے ٹرکوں کو روکتے ہوئے غنڈہ گردی کیا کرتے تھے اور جانوروں کو یا تو سڑکوں پر چھوڑ دیتے یا گؤشالاؤں میں جمع کرواتے۔۔۔ اور پولس صرف تماشا دیکھتی رہ جاتی اور ریاستی حکومت صرف بیان بازی کی حد تک سمٹ کر رہ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس طرز عمل سے نام نہاد گؤرکھشکوں کے حوصلے بلند ہونے لگے، مسلم طبقے میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جان کا خوف بھی بڑھنے لگا اور قربانی سے متعلق حوصلے پست ہونے لگے۔۔۔۔۔
مرکز میں بی جے پی حکومت آنے کے بعد تو پورے ملک میں ایک قسم کا تناؤ اور انارکی پھیل گئی۔۔۔
مگر قربانی کی حقیقت اور مالی منفعت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔
گائے میں کسی کی آستھا کو بنیاد بنا کر جانوروں کی خرید و فروخت پر روک لگانا ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کوئی دانشمندانہ اقدام ہرگز نہیں ہوسکتا۔۔۔
بیس کروڑ مسلمانوں کے اس ملک میں کم از کم دس فیصد مسلمانوں کی جانب سے گویا دو کروڑ قربانیاں تو ہوتی ہوں گی۔۔۔ بلکہ اس سے زاید ہی ہوسکتی ہیں۔۔۔
دو کروڑ بکروں کی قیمت اوسطاً فی بکرا بیس ہزار کا تخمینہ بھی لگایا جائے تو چارلاکھ کروڑ ہوتے ہیں۔۔
بقرعید کے ان تین دنوں کی قربانی کے لئے ملک میں چار لاکھ کروڑ روپیوں کی خرید و فروخت ہوگی۔۔۔۔۔
اور گاؤں دیہاتوں کے چھوٹے کسانوں پر ان بیس کروڑ جانوروں کو فی کس دس کے تناسب سے تقسیم کردیا جائے تو کوئی بیس لاکھ چھوٹے کسانوں کے روزگار کا مسئلہ حل ہوگا۔
👈کسانوں کی خودکشیوں کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔۔۔
👈آمدن میں اضافہ ہوسکتا ہے۔۔۔۔
👈خودمکتفی روزگار حاصل ہوسکتا ہے۔۔۔۔
👈مویشیوں کے چارے، حمل و نقل اور مارکیٹ و منڈی کی سرکاری فیس سے آمدن الگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر کٹوائی کی مزدوری، چرم، ہڈی، سر اور پائے بھوننے کی آمدن، ویسٹیج کو ریسائیکل کرکے کھاد وغیرہ کی شکل میں کارآمد بنانا گویا ناقابل تصور حد تک روزگار کے مواقع کا نکل آنا۔۔۔ یقیناً نبی کریم ص کا ایک تابندہ معجزہ ہے۔
نیز عقل حیران اور دنگ رہ جاتی ہے قربانی کے نظامِ تقسیم پر۔۔۔۔۔۔
قربان جائیں رسول اللہ ص کے اس منصوبہ اور حکمت پر کہ اس نظامِ تقسیم سے بیک وقت کروڑوں افراد تک مفت کھانا پہنچ جاتا ہے۔۔۔۔۔
ایک بکرے کا گوشت کم از کم بیس افراد تک بھی پہنچ جاتا ہے تو دو کروڑ بکروں کا گوشت چالیس کروڑ افراد تک رضاکارانہ طور پر مفت پہنچ جاتا ہے۔۔۔۔۔
کیا دنیا میں اس سے بڑا تقسیم غذا کا کوئی اور پروجیکٹ و نظام رائج و نافذ العمل ہے؟؟؟؟…..
ملک کی دم توڑتی جی ڈی پی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔۔۔
لہذا باشندگان ملک اور مرکزی و ریاستی حکومتیں ناحق آستھا کو بنیاد بنا کر قربانی کی مخالفت کرنے کے بجائے مثبت طور پر سوچیں اور فطرت سے بغاوت کرنے کے بجائے انسانی و ملکی ضروریات کی تکمیل کے لئے آگے بڑھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
13/6/2022