تازہ ترین خبریںمضامین و مقالات

موجودہ کشمکش کا حل اور متنوع شعری مجموعہ ___ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا محمد مکرم حسین ندوی بن مولانا معظم حسین قاسمی کا تعلق علمی خانوادے سے ہے، اس خانوادہ کی علمی خدمات کا دائرہ متنوع بھی ہے اور وسیع بھی، خود مولانا محمد مکرم حسین ندوی اچھے حافظ قرآن ، بہترین نثر نگار، اور اچھے شاعر ہیں، انہوں نے جامعہ رحمانی مونگیر ، جامعہ عربیہ باندہ ، جامع العلوم پٹکا پور اور ندوۃ العلماء لکھنؤ سے کسب فیض کیا ہے، اور ان اداروں اور یہاں کے اکابرین کی خصوصیات کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے، عالمانہ وقار، داعیانہ کردار اور سماج میں علم کو پھیلانے کی جد وجہد میں لگے رہے ہیں ان کی اس جد وجہد کا مرکز ان دنوں ماڈرن ویلفئیر اکیڈمی خان مرزا سلطان گنج پٹنہ ہے، وہ ابو البیان، ابو الکلام تو نہیں ہیں، لیکن ابو العمل ہیں، خاموشی سے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، شور وغوغا، جلسے جلوس اور ہنگامی زندگی کو پسند نہیں کرتے ، سنجیدگی مزاج میں ہی نہیں چال ڈھال ، بود وباش سبھی میں ہے، اتنی سنجیدگی کہ کبھی کبھی خشکی کا احساس ہوتا ہے، سنجیدگی کا غیر معمولی غلبہ ہوتا ہے، اس لیے ہم جیسے لوگ بھی ان کے سامنے زیادہ نہیں کھلتے، شاید یہ کیفیت ان کے اوپر ان کے صاحب زادہ با بو حذیفہ کے انتقال کی وجہ سے ہوا ہو ، اس زخم جگر نے انہیں باضابطہ شاعر بنا دیا ، اس سانحہ اور حادثہ کی کہانی مولانا موصوف کی پہلی کتاب ’’کار نامۂ حیات‘‘ اور ’’زخم جگر‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں۔


’’موجودہ کشمکش کا حل او رمتنوع شعری مجموعہ‘‘ ان کی دوسری تصنیف ہے، جس کے صفحات ایک سو ساٹھ ہیں او رقیمت سو روپے زائد نہیں ہے، کمپوزنگ ان کی صاحب زادی صالحہ فردوس نے کی ہے، طباعت ایجوکیشنل پبلیکیشن نئی دہلی سے ہوئی ہے، آپ اسے پٹنہ کے مختلف مکتبوں او رمرکز سے حاصل کر سکتے ہیں۔ آسانی سے ملنے کے لیے ماڈرن ویلفیئر اکیڈمی سلطان گنج پٹنہ ، یا موبائل نمبر 9801266615 سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصہ نثری مضامین کے لیے اور ایک حصہ شعری ہے، جو نعت پاک، قصیدے، ترانے، سپاس نامے اور مرثیوں پر مشتمل ہے، چند اشعار کی ایک نظم احقر کے بارے میں بھی اس کتاب میں شامل ہے، اردو کے نام پر اور الیکشن کے احوال پر بھی ایک نظم شامل کتاب ہے، آخر میں قطعہ اور مناجات سے بھی آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
نثری حصہ کا آغاز انتساب سے ہوتا ہے جو روایتی انداز سے بالکل ہٹ کر ہے ، آپ روایتی انداز کے انتساب کی تلاش کرنا چاہیں تو مایوسی ہاتھ لگے گی،البتہ مصنف نے اس انتساب میں تصنیف کتاب کی غرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے، لکھتے ہیں:
’’موجودہ کشمکش اور اضطرابی کیفیت کا علاج وحل ڈھونڈھنا اور بتانا وقت کی اہم اور اشد ضرورت سمجھتے ہوئے حصول دنیا کے تذکروں اور تبصروں میں گم خدائے واحد اور رب کائنات کو کھل کر قرآن وسنت سے دور، قوت ایمانی اور غیر ت اسلامی سے محروم لوگوں کا رخ اس طرف موڑنا ضروری تھا کہ موجودہ کشمکش کا حل حدیث وقرآن پر عمل ، قوت ایمانی میں اضافہ ، اللہ سے دور اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
ایک پیراگراف پورے ایک جملہ میں سما گیا ہے، مقصد تصنیف کی پوری وضاحت ہو گئی، عموماطویل جملوں کی وجہ سے تعقید پیدا ہوجاتا ہے،ا سی لیے مختصر جملوں کا چلن آج عام ہے، لیکن جن معنی کی ترسیل میں رکاوٹ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
کتاب کے نثری حصہ میں کل اکسٹھ (۶۱) مضامین ہیں اور تین نعتیں، ہوسکتا ہے ان میں اور نعتوں کا اضافہ ہو، یہ نعتیں نثری حصہ میں برکتاً اور تیمناً شامل ہیں، شعری حصہ میں دوسری تین نعتوں کو شامل کیا گیا ہے، مضامین میں بڑا تنوع ہے، جس طرح شعری حصہ میں تنوع ہے، بات قرآن کریم سے شروع کی گئی ہے، اللہ کی بندگی کے تصور پر روشنی ڈالی گئی ہے، سیرت رسول سے دوری کو زوال کا سبب بتایا گیا ہے، دشمن کو شکست دینے کے فارمولے کا ذکر ہے، مساجد کے انہدام پر رجائیت بھری تحریر ہے اور کئی مضامین اس حوالہ سے سپرد قرطاس کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنی قدرت سے اپنے گھر کی تعمیر کرائیں گے ، مساجد توڑنے کے عوض لا تعداد مسجدوں کی تعمیر ہوئی ہے، مؤمن کامل بننے، تعلق مع اللہ پیدا کرنے، عمل وکردار سے اسلام کی اشاعت پر زور دیا گیا ، مجموعی طور پر جو مضامین ہیں، ان میں موجودہ کشمکش کے حل کے طور پر دین وایمان پر ثبات، اللہ پر بھروسہ کو ضروری اساس قرار دیا گیا ہے، مولانا نے حالات کا تجزیہ اپنی بصیرت اور تجربہ کی روشنی میں کیا ہے ، جو دلوں کو اپیل کرتا ہے ، اور عمل پر ابھارتا ہے۔
شعری حصہ بھی سہل ممتنع کا بہترین نمونہ ہے، بعض اشعار میں تخیل کی رفعت بھی ہے اور فکر کی ندرت بھی بہتر تو یہی ہوتا کہ نثری اور شعری حصہ الگ الگ کتاب کی شکل میں ہوتا ، کیوں کہ موجودہ دور مین یہ اختلاف مقبول نہیں ہے، لیکن مولانا کی اپنی کچھ مصلحت ہوگی، جو راقم الحروف نہیں جانتا، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو ملت کے لیے مفید بنائے اورمولانا کو فکر وخیال کے گلستاں آباد کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین یا رب العالمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button