مضامین و مقالات

بھاگوت مسلم مذاکرات کے معنیٰ 

مسلم دانشوروں سے موہن بھاگوت کی گفتگو اور مسجد، مدرسہ میں ان کا جانا اس وقت زیر بحث ہے ۔ وہ آر ایس ایس کے پہلے سر سنگھ چالک ہیں جو کسی مسجد، مدرسہ میں گئے ۔ انہوں نے وہاں پڑھ رہے بچوں، ان کے اساتذہ سے باتیں کیں اور مشورے دیئے ۔ اس سے قبل بالا صاحب دیورس کے جماعت اسلامی ممبران سے ایمرجنسی کے دوران جیل میں تعلقات بنے اور قریب بڑھی تھی ۔ جس کا سلسلہ دیر تک رہا ۔ کے سدرشن کے بھی مسلمانوں سے اچھے روابط تھے ۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی مسجد یا مدرسہ میں جانے کی ہمت نہیں کر سکا ۔
سوال یہ ہے کہ موہن بھاگوت کو مسجد، مدرسہ جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا آر ایس ایس کے روّیہ میں نرمی یا اس کے نظریہ میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ جبکہ ان کے نظریہ کی حامی اترپردیش کی بی جے پی حکومت مدارس اور وقف آراضی کا سروے کرا رہی ہے اور آسام حکومت کئی مدارس کو منہدم کر چکی ہے ۔ مجبوری میں چند منٹ اکیلے میں نماز پڑھنا بھی یوپی حکومت کو برداشت نہیں ہو رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے مسلمان تشویش میں مبتلا ہیں ۔ ایسے میں سنگھ کے مکھیا کا مسجد، مدرسہ میں جانا فطری طور پر سوال پیدا کرتا ہے ۔
مسلمانوں کے مسائل کا تعلق حکومت کی پالیسی، پروگرام اور رویہ سے ہے ۔ ان کا حل بھی حکومت ہی کے پاس ہے ۔ حکومت کو اپنی پریشانیوں سے واقف کرانے کے بجائے مسلمان آر ایس ایس سے مل رہے ہیں ۔ شاید مسلمانوں کو حکومت کے مقابلہ سنگھ سے ملنا آسان لگتا ہے ۔ ایسی تصویر پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی ۔ یہ صحیح ہے کہ 2014 کے بعد مسلمانوں کو حاشیہ پر دھکیلنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔
ان کے اندر عدم تحفظ اور مایوسی کا احساس پیدا کیا گیا ۔ وہ اپنے ہی ملک میں بے گانوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ۔ رہی سہی کسر برسراقتدار جماعت کے ترجمانوں، ممبران، وزراء اور خود وزیراعظم کی انتخابی بیان بازی اور مسلمانوں کو ستانے والوں کی عزت افزائی نے پوری کر دی ۔ مسلمانوں نے یہ مان لیا کہ حکومت ان کی ایک نہیں سنے گی اور وہ حکومت سے دور ہو گئے ۔ جبکہ دونوں مرتبہ پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم نریندرمودی نے کہا کہ یہ سب کی حکومت ہے اور وہ سب کے لئے کام کریں گے ۔ مارچ 2016 میں وزیراعظم صوفی کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ وہ بوہرا کمیونٹی کے امام سیدنا سے ملے ۔ انہوں نے مسلمانوں کے وفود سے بھی ملاقاتیں کیں ۔ کئی ایسے حضرات بھی ان وفود کا حصہ تھے جو آر ایس ایس سے مذاکرات کے وکیل ہیں ۔
آر ایس ایس لمبے وقت سے مسلمانوں کے درمیان "مسلم راشٹریہ منچ” کے نام سے کام کر رہا ہے ۔ لیکن اسے کوئی خاص کامیابی نہیں ملی، بلکہ ایم آر ایم سے جڑے شخص کو عام مسلمان بد عقیدہ، گمراہ سمجھتا تھا ۔ 2014 میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد آر ایس ایس کے ساتھ مسلم راشٹریہ منچ کا دائرہ بھی وسیع ہوا ۔ 2019 میں بابری مسجد کا فیصلہ آنے سے پہلے بڑے پیمانے پر آر ایس ایس نے تعلیم یافتہ مسلمانوں اور دانشوروں سے مذاکرات شروع کئے ۔
بات چیت میں عدالت کے فیصلے کو ماننے پر زور تھا ۔ گفتگو میں مسلم ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، وائس چانسلر، سول سرونٹس، صحافی، سابق وزراء اور ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ شامل تھے ۔ سب نے اس سے اتفاق کیا ۔ کسی نے بھی موب لنچنگ، مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت، تحفظ، اقتصادی بائیکاٹ، امتیازی سلوک، تعلیم، روزگار اور صحت کا کوئی سوال نہیں اٹھایا ۔ جبکہ ہر نشست میں آر ایس ایس نے اپنے نظریہ کو کھل کر رکھا ۔ جیسے بھارت میں رہنے والے سب ہندو ہیں، بھلے ہی ان کا عبادت کا طریقہ اور رسم و رواج کچھ بھی ہوں ۔ سب کے بزرگ ہندو تھے جنہیں حملہ آوروں نے مسلمان بنایا ۔ گائے مقدس ہے، سناتن یا ہندو روایت ملک کی تہذیب ہے ۔ الغرض بین السطور گھر واپسی کا پر زور پیغام دیا گیا ۔ اس پر کسی نے کوئی سوال تک نہیں کیا ۔
موہن بھاگوت نے کتاب کا رسم اجراء کرتے ہوئے کہا کہ سب کا ڈی این اے ایک ہے ۔ موب لنچنگ کرنے والے ہندو نہیں ہیں ۔ ان کے خلاف قانون اپنا کام کرے گا ۔ ہندو راشٹر مسلمانوں کے بغیر نہیں بن سکتا ۔ چند دنوں کے بعد آسام میں انہوں نے مسلم آبادی کے بڑھنے پر سوال اٹھایا ۔ نومبر 2020 میں کہا کہ بھارت کو اگر بھارت رہنا ہے تو ہندو کو ہندو ہی رہنا ہوگا ۔ پھر جولائی 2021 وہ بولے کہ نہ ہندو اعلیٰ ہے نہ مسلمان صرف ہندستانی مہان ہے ۔ ہم ہندو مسلمان نہ رہیں صرف انڈین رہیں ۔ رام نومی اور ہنومان جینتی پر ہوئے فسادات پر وہ ایک لفظ نہیں بولے ۔ گیان واپی، متھرا اور کرناٹک کی عیدگاہ کے مسئلہ پر بس انہوں نے کہا کہ ہر مسجد کے نیچے شیو لنگ تلاش کرنا بند کریں ہندو ۔ ہندو عوام اور انتظامیہ پر ان کی باتوں کا کتنا اثر ہوتا ہے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
ممبئی میں کلیم صدیقی کی بھاگوت جی سے اچھی ملاقات رہی لیکن دہلی آنے پر تبدیلی مذہب کے الزام میں وہ گرفتار کر لئے گئے ۔ اس وقت بھی جب موہن بھاگوت مسجد، مدرسہ کے دورے پر تھے اسی وقت دو خبریں اور چل رہی تھیں ۔ ایک مسلم دانشوروں کی ان سے ملاقات جو کہ گزشتہ ماہ ہوئی تھی، دوسرے پی ایف آئی پر چھاپے ۔ جن دانشوروں نے ملاقات کی تھی ان میں ایس وائی قریشی، نجیب جنگ، جنرل ضمیر شاہ، شاہد صدیقی اور سعید شیروانی شامل تھے ۔ ان حضرات نے آر ایس ایس چیف سے کہا کہ جہادی بولنا، حب الوطنی پر شک کرنا، اینٹی نیشنل بولنا مسلمانوں کو اچھا نہیں لگتا ۔
ہر وقت ہندو راشٹر کی بات ہوتی ہے یہ نہیں ہونی چاہئے ۔ بقول ایس وائی قریشی سر سنگھ چالک سے ان کی بات چیت بہت اچھی رہی اور کئی باتوں سے انہوں نے اتفاق کیا ۔ بھاگوت صاحب نے کہا کہ ہم نے ہندوؤں سے کہا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے شیو لنگ تلاش نہ کریں ۔ کافر کہنا اور مسلمانوں کا گائے کاٹنا ہندوؤں کو اچھا نہیں لگتا ۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی زیادہ تر ریاستوں میں گائے کے ذبح کرنے پر پابندی ہے ۔ پھر بی جے پی حکومت کے رہتے بیف کے ایکسپورٹ میں اضافہ کیسے ہو رہا ہے ۔ کیرالہ، اروناچل پردیش اور گوا کے انتخابات میں بی جے پی نے بیف کے مانس کی بہتر دستیابی کا وعدہ کیونکر کیا تھا؟
بات چیت میں کوئی برائی نہیں ہے ۔ اس سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں ۔ لیکن ایجنڈے کے بغیر گپ چپ ملاقات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا آر ایس ایس مسلمانوں کا حکومت سے ختم ہوئے مکالمے کو جوڑنے اور گورننس سے ان کے ٹوٹے ہوئے بھروسے کو بحال کرنے کے لئے آگے آیا ہے ۔ یا وہ نپور شرما کے واقع سے حکومت اور ملک کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانا چاہتا ہے ۔ یا ہندو عوام کو مسلمانوں کی موجودگی کا احساس کرانے کے لئے مکالمہ کر رہا ہے ۔ یا 2024 کے الیکشن کے مدنظر حکومت کی ہر سطح پر ناکامی سے دھیان ہٹانا چاہتا ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کانگریس کو گمراہ کرنے کے لئے مسلمانوں پر ڈورے ڈالے جا رہے ہوں ۔ تاکہ کانگریس اپنے سیکولر نظریہ سے ہٹ کر ہندو پارٹی بننے کی کوشش میں لگ جائے ۔
کانگریس کو یاترا کے دوران مل رہی عوامی حمایت سے بی جے پی پریشان ہے ۔ وہ نہیں چاہتی کہ یہ یاترا کامیاب ہو ۔ کیوں کہ کانگریس اکیلی سیاسی جماعت ہے جو بی جے پی کے راستہ کی روکاوٹ بن سکتی ہے ۔ ایک دو ریاستی جماعتوں کو چھوڑ دیں تو زیادہ تر سیاسی پارٹیاں کبھی نہ کبھی بی جے پی کی حلیف رہ چکی ہیں ۔ ملک میں جمہوریت تبھی چل سکتی ہے جب اقلیت اور اکثریت کے بیچ ایجنڈہ پر کھل کر مکالمہ ہو ۔ جس میں سبھی طبقات کی نمائندگی ہو ۔ موہن بھاگوت سے مذاکرات کے دوران ہی بی جے پی مسلم مکت ہوئی ہے ۔ بی جے پی کے لئے 2024 کا رن مشکل دکھائی دے رہا ہے ۔ اسی فکر نے انہیں مسجد، مدرسہ میں جانے پر مجبور کر دیا ہے ۔
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button