قصاص میں زندگی
شئخ رکن الدین ندوی نظامی
آئے دن ملک میں قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہورہاہے۔
مالی معاملات
زمین و جائداد کے معاملات
سیاسی کشمکش
خاندانی لڑائیاں
غنڈہ گردی اور لوٹ کھسوٹ
اور دیگر معاملات میں بالعموم قتل کی وارداتیں ہورہی ہیں۔۔۔
کچھ قتل تو جان بوجھ کر ہوتے ہیں، تو کچھ قتل، قتل کے مقصد سے نہیں بلکہ عمومی لڑائی میں بغیر نیت قتل بھی ہوجاتے ہیں۔۔۔۔
مگر آج کل عشق و محبت کے نام پر بھی قتل میں اضافہ ہورہا ہے۔۔۔
ہوس پرستی کا نام عشق و محبت رکھ کر کسی کے لخت جگر کو یوں قتل کردینا انتہائی گھناؤنی حرکت ہے۔۔۔۔
مارپیٹ، لوٹ کھسوٹ، عشق و محبت اور قتل و خون کو انٹرٹینمنٹ کے نام پر آج بڑے پیمانے پر فلم انڈسٹری بڑھاوا دے رہی ہے۔۔۔۔
حالانکہ جرائم کی تشہیر بھی جرم کو پرموٹ promote کرنا ہے۔۔۔
مختلف ممالک میں رائج قوانین میں قتل، مسلزم سزا، سنگین جرم ہے، خواہ سیاسی عداوت پر مبنی ہو یا کسی اور نوعیت کا۔۔۔۔
جرائم کی روک تھام کے لئے قرآن مجید بہترین حدیں نافذ کرنے کا حکم دیتا ہے۔۔
جرم کی نوعیت کے اعتبار سے سزائیں متعین کی گئیں۔۔
چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا۔
زنا کی سزا سو کوڑے مارنا۔
لوٹ اور ڈکیتی کی سزا ایک پیر اور ایک ہاتھ کا الٹے کاٹنا۔
اسی طرح اعضاء وجوارح کے سلسلے میں بھی بدلہ لینے کی تاکید کی گئی:
دانت کے بدلے دانت،
آنکھ کے عوض آنکھ۔۔۔
نیز قتل میں سخت ترین سزا قاتل کو قتل کردینا ہے۔۔
مقتول کے وارثین کا یہ حق ہے کہ وہ قاتل کی سزا کا مطالبہ کریں، اور یہ بھی اختیار ہے کہ خون بہا کا مطالبہ کریں۔۔۔
ان سب کے پیچھے سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ انسانی سماج پرامن اور مطمئن رہے۔۔۔
اسی لئے کہا گیا کہ
اے عقلمندو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔۔۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ فَمَنۡ عُفِیَ لَہٗ مِنۡ اَخِیۡہِ شَیۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیۡہِ بِاِحۡسَانٍ ؕ ذٰلِکَ تَخۡفِیۡفٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۷۸﴾
سورۃ البقرۃ2، آیت178..
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نےقتل کیا ہو تو آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے درد ناک سزا ہےـ
وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾
سورۃ البقرۃ2، آیت179
عقل و خردر کھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔
ہمارے پاس جرائم کی آڑ میں ایک اور برائی بھی ہے اور وہ ہے نفرت۔۔۔۔
سماجی تفریق اونچ نیچ حد درجہ ملک میں رائج ہے۔۔
جب کسی پسماندہ طبقہ یا مسلم اقلیتوں سے جرم صادر ہوتا ہے تو پھر میڈیا اور سیاسی بازیگروں کو ایک مشغلہ ہاتھ آجاتا ہے۔۔۔ مسلسل نفرت کی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔۔۔ یہ نفرتی عمل قتل سے بھی زیادہ نقصاندہ ہے۔۔
وَ الۡفِتۡنَۃُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ ؕ ﴿۲۱۷﴾
سورۃ البقرۃ2، آیت217
اور فتنہ خونریزی سے شدیدتر ہے۔۔
ملک و قوم کی بھلائی اسی میں ہے کہ بےلاگ و لپیٹ قانون نافذ کریں، اور مجرموں کو سزا دیں۔۔۔۔
سزاؤں کے نفاذ کو اونچی ذات، سنسکاری ہونے کی بنا پر چھوڑ دیا جائے اور نچلی ذات و اقلیت ہونے کی بنا پر سزا دی جاتی رہے تو ملک کو تباہ ہونے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی!!
عَنْ عَائِشَةَ : أَنَّ أُسَامَةَ كَلَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَةٍ ، فَقَالَ : إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، أَنَّهُمْ كَانُوا يُقِيمُونَ الْحَدَّ عَلَى الْوَضِيعِ ، وَيَتْرُكُونَ الشَّرِيفَ ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ فَعَلَتْ ذَلِكَ ، لَقَطَعْتُ يَدَهَا۔۔۔
اسامہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عورت کی ( جس پر حدی مقدمہ ہونے والا تھا ) سفارش کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ وہ کمزوروں پر تو حد قائم کرتے اور بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر فاطمہ ( رضی اللہ عنہا ) نے بھی ( چوری ) کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ لیتا۔
Sahih Bukhari#6787
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
18/11/2022