
مضامین و مقالات
سری لنکا اور بنگلہ دیش کے بعد اگلا نمبر پاکستان کا ہوگا۔
شرف شمسی
بنگلہ دیش نے خوب ترقی کی ہے اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ۔لیکِن شیخ حسینہ واجد کے خلاف جو عوام سڑکوں پر تھیں اُن احتجاجی کے چہرے اور پہناوے کسی بھی طرح سے میڈیم کلاس کے نہیں دکھ رہے تھے بلکہ زیادہ تر غریب اور لو میڈیم کلاس کے اسٹوڈنٹ نظر آ رہے تھے ۔بنگلہ دیش کی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بچّے اگر کھاتے پیتے نظر نہیں آتے ہیں تو اسکا مطلب شیخ حسینہ کا ترقی یا وکاس صرف اور صرف کاغذوں پر تھا يا کچھ محدود طبقے تک ہی پہنچ پا رہا تھا ۔شیخ حسینہ واجد کے اقتدار میں بڑھتی جی ڈی پی کا خوب بات ہوئی اور ٹکسٹائل انڈسٹری میں بنے کپڑے کی بڑھتی مانگ کو ترقی کا پیمانہ مانا گیا لیکِن ملک کا سب کچھ چند خاص لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دیا جائے گا تو یقیناً اس سے فائدہ کارپوریٹ کو ہوگا نہ کہ عام عوام کو۔بنگلہ دیش میں کرونی کیپیٹلزم اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا اور جب کیپیٹلسٹ یا کارپوریٹ کے درمیان مقابلہ آرائی نہیں ہوتی ہے تب تک عوام کو کسی بھی قسم کی راحت نہیں ملتی ہے ۔ویسے بھی ادانی جیسے کارپوریٹ شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت میں بنگلہ دیش میں اپنا پیر جما چکے تھے اور اداني ایک ایسے کارپوریٹ ہیں جنہیں مقابلہ آرائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ اور اُنکی کمپنی سرکار سے مل کر فائدے میں چل رہے ادارے کو ہاتھ میں لیتے ہیں تاکہ اُنہیں کبھی خسارے ہو ھی نہیں۔
شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش میں 2009 سے لگاتار حکومت میں تھیں۔لمبے عرصے سے حکومت میں بنے رہنے سے وہ ایک ڈکٹیٹر کی طرح کام کرنے لگی تھیں۔اُنہیں اس بات کا گمان تھا کہ فوج،پولس اور ملک چلانے والے بابو جب اُنکے ساتھ ہیں تو عام عوام کی کیا مجال کہ اُنکی حکومت کی جانب کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھ لے ۔لیکِن وہ سمجھ نہیں پائی کہ جمہوریت میں عوام ہی مالک ہوتا ہے اور ملک کا عوام ایک ساتھ جب کھڑا ہو جاتا ہے تو طاقت ور سے طاقت ور حکومت کے ڈکٹیٹر کو راہ فرار اختیار کرنا پڑتا ہے ۔
بنگلہ دیش کی طلباء کی تحریک نے صرف شیخ حسینہ کی حکومت کو اکھاڑ پھینکا یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا ہاں یہ ایک فوری وجہ بن کر سامنے آئی ۔لیکِن شیخ حسینہ کا وکاس یا ترقی عام عوام تک نہیں پہنچ رہی تھی اور جس کی وجہ سے نوجوانوں کو کام نہیں مل رہا تھا اور ہے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا ،منہگائی سے لوگوں کی عام زندگی مفلوج ہوتی جا رہی تھی اور عوام شیخ حسینہ سے غصے میں ہونے کے باوجود وہ لوگ اپنے غصے کا اظہار انتخابات میں حصہ لے کر نہیں کر پا رہے تھے کیونکہ بنگلہ دیش میں منصفانہ چناو نہیں ہو رہے تھے یہاں تک کہ سبھی حزب اختلاف کے بڑے رہنماء کو یا تو جیل میں ڈال دیا گیا یا ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ۔
اسی سال بنگلہ دیش میں چناو ہوئے تھے اور حزب اختلاف کے سبھی سیاسی جماعتوں نے چناو کا بائیکاٹ کیا تھا اور شیخ حسینہ 40 فیصدی ووٹوں کے ساتھ خود کو کامیاب اعلان کردیا تھا ۔امریکہ نے بنگلہ دیش کے چناو کو دھوکہ بتایا تھا لیکِن امریکہ کا کیا کہنا جب پاکستان میں چناو غیر منصفانہ ہوتے ہیں تو اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ہے لیکن بنگلہ دیش میں اپنے مفاد کے لئے چناو کو غیر منصفانہ قرار دیا جاتا ہے ۔
بنگلہ دیش کی اس تختہ پلٹ تحریک میں تین سو لوگوں نے اپنی جان دی ہے اس میں پولس کے لوگ بھی شامل ہیں لیکن اسے خونی تختہ پلٹ نہیں کھ سکتے ہیں جو بنگلہ دیش کی تاریخ رہی ہے ۔شیخ حسینہ کے نزدیکی رشتےدار وقار الزماں بنگلہ دیش کے آرمی چیف ہیں ۔آرمی اور نوکر شاہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے شیخ حسینہ کو بھاگنے کا محفوظ راستہ دیا گیا ورنہ جس غصے سے عوام سڑکوں پر نِکلی تھی اور فوج اور نوکر شاہ عوام کے ساتھ کھڑی ہوتی تو شیخ حسینہ کے لئے ملک سے فرار ہونا ممکن نہیں ہو پاتا۔
شیخ حسینہ کا بنگلہ دیش سے فرار بھارت کے لیے بھی ایک سبق ہے۔عوام مخالف پالیسی بنا کر ،میڈیا کی آواز کو گلا گھونٹ کر ، حزب اختلاف کے خلاف دشمنوں جیسا برتاؤ کر اور اپنی باتوں کو اجتماعی طور پر اٹھانے پر اُنہیں ملک مخالف اور دہشت گرد کہنا کبھی بھی حکومت کے لیے گلے کی پھانس بن سکتا ہے ۔
سری لنکا کے بعد بنگلہ دیش نے حکومت کے خلاف اپنا جائز غصّہ دیکھا دیا ہے اور بد عنوان حکومت کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے ۔بھارت میں ادارے اب بھی مضبوط ہیں جو تھوڑی بہت خامی آئی ہے اُسے دور کر لیا جائے گا لیکن اگلا نمبر پاکستان کا ہے۔منہگائی،ہے روزگاری اور بد عنوانی سے عوام کا جینا مشکل ہو چکا ہے۔پاکستان میں جمہوریت کافی کمزور ہے اور فوج کے بنا پتا بھی نہیں ڈولتا ہے ۔لیکِن عوام جب متحد ہو کر نکلے گی تو فوج کو بھی بیرک میں جانا ہوگا اور بد عنوان سیاست دانوں کو بھی ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑےگا۔
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787