اپنے منطقی انجام کی جانب رواں دواں ہندوستانی جمہوریت
محمد عبدالملک داودی (حیدرآباد)
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
1947میں برصغیر کی تقسیم مذہبی اور لادینی (سیکولر) بنیادوں پر عمل میں آئی ۔ ہندوستان میں متحدہ قومیت ، سیکولرازم اور نہروین سوشلزم کی بنیاد پر ایک معاشرہ کی تشکیل انجام پائی ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستانی ریاست کی فکری بنیادیں اغاز ہی سے دو قطبی کشمکش کا شکار رہیں ۔ ایک سوشلزم کے پس پردہ نیشنلزم اور دوسرے ہندوتو کے پس پردہ منوواد ۔ ہندوستان نے اپنے حکمرانی کے نظریہ کے لیے لادینی (سیکولر) بنیادوں کو منتخب کیا تو اس کی کئ اہم اور بنیادی وجوہات تھیں ۔ آزادی کے بعد کسی مربوط Socio-Religious یا Socio-Political نظریہ کی عدم موجودگی میں اور کسی ہمہ مذہبی ہمہ لسانی اور ہمہ طبقاتی معاشرہ کے لیے یہ ان کے لحاظ سے موزوں ترین انتخاب تھا ۔ جہالت , غربت , وسائل کی کمی اور دیگر مسائل ایک عفریت کی طرح سامنے تھے ۔ مذہبی , لسانی , علاقائی اور ذات پات کی عصبیتوں کو کم کرتے ہوئے انہیں حکمرانی کے تحت لانے کا شائد یہ ایک اہم راستہ تھا ۔ باہر کی دنیا کے نقطہ نظر سے اس راہ میں دس بڑے بڑے چیلنجس تھے …
1) نظریاتی بنیادوں پرقوم کی تعریف وتشکیل اور اس کی برقراری
2) پارلیمانی سیاست کے ابعاد اور اس کا صحیح استعمال
3) قانون سازی میں عوامی راے اور اکثریتی راے میں فرق اور دستوری حکمرانی
4) دستور اور عدلیہ کے فکری کردار کی حفاظت
5) آزاد دستوری اداروں کی کارکردگی اور سیاست سے ماوری فعالیت
6) حقوق و فرائض کا صحیح امتزاج
7) وسائل اور ترقی کے ثمرات کی منصفانہ تقسیم
8) جمہوری سماج میں میڈیا کا اصل رول اوراسے یرغمال ہونے سے روکنے والے عوامل کا استحکام
9) تعلیم ، روزگار ، تجارت اور مادی ترقی میں یکساں مواقع کو یقینی بنانا اور برقرار رکھنا
10) امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی
آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ ریاست اور معاشرہ نے ان چیلنجس سے کیسے نمٹا اور اس پورے عمل میں ان کی نیتیں اور نیتیاں کیسی رہیں . اگرچیکہ یہ سب ایک نقطہ نظر ہے لیکن واقعاتی شہادتوں سے بالکل خالی نہیں ۔ طوالت کے اندیشے کے تحت ان شہادتوں کو پیش نہیں کیا جارہا ہے ۔۔۔۔
1) قوم کی نظریاتی بنیادیں :
اگرچہ کہ قوم کی تعریف متحدہ قومیت composite nationalism کی بنیاد پر تمام مذاہب ذاتوں اور طبقات کو اکائی مان کر کی گئی لیکن حکمران طبقے میں یہ فکر ہمیشہ موجود رہی کہ مسلمان طبقہ کو قومیت کے ہاتھ کا انگشت ششم ہی بنائے رکھا جائے ۔ دستور میں ان سے متعلق نہ تو کوئی واضح تعریفات ہیں نہ ان کے حقوق واضح ہیں نہ زبان محفوظ ہے نہ شعائر نہ ثقافت ۔ دستور سازی کے دوران مولانا ابوالکلام ازاد اور دیگر بصیرت افروز شخصیات سے اس طرح کی غفلت ناقابل فہم ہے ۔ چنانچہ آج ہندوستانی قوم کا بڑا حصہ مسلمانوں کو جیسا کہ ان کا عقیدہ زبان اور ثقافت ہے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔۔۔۔ متحدہ قومیت سے لے کر یہاں تک کے سفر میں یہ دستور , دستور ساز کمیٹی اور مسلم قائدین سب مساوی ذمہ دار ہیں ۔
2) الیکشن اور پارلیمانی سیاست :
ازادی کے بعد پارلمانی و انتخابی سیاست میں کچھ عرصہ تو ازادی کے حصول کا نشہ چھایا رہا پھر جب ترقیاتی ایجنڈا شامل ہوا تو اس میں اشتراکیت کے مقابل سرمایہ داری کا نظریہ اپنا دائرہ اثر بڑھانے لگا ۔ کمیونزم اور کیاپٹلزم کی کشمکش کے دوران 80 کے دہے میں حکمراں طبقے کو مسلمانوں کی مرتکز ووٹنگ کی اہمیت اور اس سے متعلق آئندہ خطرات کا احساس ہوا تو انہوں نے بلا لحاظ پارٹی اپنی بالادستی کی برقراری کے لیے درج ذیل ایجنڈے پر کام کرکے مرتکز مسلمان ووٹنگ کو بے اثر کردیا :
(الف) انتخابات میں ماوری دستور نکات کی شمولیت
(ب) ہر قسم کے مسلم امیدواروں کے حق میں اکثریتی طبقہ کی ووٹنگ کو محدود ترین کردینے پر اتفاق آرائی
(ج) رائے دہندوں کی اکثریت بہ مقابلہ اقلیت تقسیم
(د) انتخابی حلقوں کی نئی حد بندیاں اور تشکیل نو اس طرح کہ مسلم علاقے زیادہ سے زیادہ ایس سی یس ٹی اوبی سی اور خواتین کے لیے مختص ہوجائیں ۔
3) قانون سازی اور دستوری حکمرانی :
کسی جمہوری معاشرے میں دستور کی موجودگی کی ایک اہم معنویت یہ بھی ہوتی ہے کہ قانون سازی میں تمام طبقات کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے اور کسی بھی طبقے کے ساتھ نا انصافی نہ ہو نہ اس کے حقوق سلب ہوں ۔ کسی دستور کی عدم موجودگی میں جمہوری قانون سازی عملا اکثریتی قانون سازی ہو جاتی ہے ۔ اقلیتی رائے کو بھی بطور اصابت اپنا رول ادا کرنے میں دستور کلیدی موقف رکھتا ہے ۔ 90 تک ہر دہے میں پئے در پئے ایسی قانون سازیاں ہوتی رہیں جو کمزور طبقات اور مسلمانوں کے عقیدے اور ان کی ثقافت پر بنیادی ضرب لگانے والی تھی ۔ ایسے تمام موقعوں پر قانون ساز اداروں نے دستوری جمہوریت کے بجائے اکثریتی جمہوریت کا رول ادا کیا . قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں میں رفتہ رفتہ مسلمانوں سے نفرت اس طرح سرائیت کرائی گئی کہ وہ قانون کے نفاذ میں شہریوں کے درمیان امتیاز کرنے لگیں اور صورتحال یہاں تک پہنچی کہ پولیس , بلدیہ , عدلیہ , میڈیا اور دیگر کئی محکموں میں بظاہر اسی ایک نفرتی پہلو میں ہم اہنگی صاف ظاہر ہونے لگی ۔۔۔۔
4) دستور اور عدلیہ کے فکری کردار کی حفاظت :
جو ریاست اور خود اس کا دستور بہ بانگ دہل یہ اعلان کریں کہ اس کا اپنا میلان کسی خاص مذہب کی جانب نہیں ہوگا اور تمام مذاہب کے لیے وہ غیر جانبدار اور یکساں ترجیحات رکھے گا اس ریاست کے دستور اور اس کے فکری بنیاد کے محافظ سپریم کورٹ کے بارے میں ظاہر ہے سب یہی اعتماد رکھیں گے کہ وہ اپنی سوچ اور فیصلوں میں خالص قانونی فریم تک محدود ہوگا اور اس فریم سے مذہبی عقیدوں کو باہر رکھے گا لیکن 90 کے دہے سے لے کر بابری مسجد کے فیصلے تک سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ ریاست کا فکری فریم نہ صرف یہ کہ عقیدے سے خالی نہیں ہے بلکہ کسی عقیدے کی جانب میلانات بھی رکھتا ہے . ملک کی سب سے بڑی عدالت کی صورتحال ایسی ہوتو تحت کی عدالتوں کا معاملہ ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔
5) آزاد دستوری اداروں کی کارکردگی اور سیاست سے ماوری فعالیت
آزاد دستوری ادارے جیسے سپریم کورٹ , الیکشن کمیشن , ریزرو بینک , کمپٹرلواینڈ آڈیٹر جنرل , انکم ٹیکس محکمہ , انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ وغیرہ تمام کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار دونوں بہت واضح ہونے کے باوجود ان کا مرکزی حکومت بلکہ ان کی سیاست کے تحت کام کرنے کا رجحان یہی ظاہر کرتا ہے کہ ایک خاص مذہب کی فکر کے تحت ریاست کو کلیت پسندانہ اور آمرانہ طرز حکمرانی تک لانے میں وہ پوری طرح مطمئن اور اس معاملے میں اپنے ہر قسم کے رول ادا کرنے کے لیے تیار ہیں ۔
6) حقوق و فرائض کا صحیح امتزاج
اس ملک میں خاص طور پر مسلم طبقے کے کیا بنیادی انسانی حقوق ہیں وہ کچھ بھی واضح نہیں ہے لیکن ملک کے ایک شہری ہونے کے ناتے مسلمانوں نے اپنے فرائض کو بہت اچھی طرح نبھایا ہے ۔ امتیازی سلوک اور انتہائی کم مواقع کے ماحول کے باوجود انہوں نے فوج , پولیس , دیگر محکمہ جات , تعلیم و تحقیق اور تدریس , سائنس اور ٹیکنالوجی , فلم اور فنون لطیفہ , موسیقی , کھیل اور ورزش اور بجا طور پر سیاست کے میدان سمیت تقریبا سبھی میدانوں میں اہنی غیر معمولی خدمات پیش کی ہیں اور کچھ میدانوں میں تو مسلمانوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں .
ان سب کے باوجود آج سارا مسلم طبقہ اس بات کے لیے حیران و پریشان ہے کہ ان سے ایسی کونسی غلطی ہوئی کہ وہ آج اس بدترین حالت کو پہنچے ہیں ۔ قوم کی خدمات کے لیے اپنا مال , وقت , صلاحیتیں یہاں تک کے اپنی جان اور حد یہ ہے کہ کئی مسلمانوں نے اپنا عقیدہ بھی قربان کردیا لیکن ان کو قبول کرنے والی صورتحال ان کے لیے ایک سراب ہی ثابت ہوئی ہے ۔
7) وسائل اور ترقی کے ثمرات کی منصفانہ تقسیم
آزادی کے فوری بعد ملک کی سماجی معاشی تعلیمی صورتحال سب کے سامنے ہے ۔ مسلم طبقہ بہ نسبت دوسروں کے بہتر مقام پر تھا ۔ واقعہ محض اتنا نہیں ہے کہ رفتہ رفتہ دیگر طبقات کی ہمہ جہتی ترقی ہوتی گئی بلکہ واقعہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو منظم طریقے سے پیچھے ڈھکیلا گیا ملازمت , روزگار اور تجارت سمیت معیشت کے ہر میدان سے انہیں پست ترین مقام پر دھکیل دیا گیا ۔ آج ملک ایک ترقی یافتہ ریاست بننے کے راستے پر ہے ۔ چند طبقات میں دولت , جاائیداد , زر مبادلہ , وسائل اور سہولتوں کی فراوانی ہے لیکن ملک کی اتنی ساری ترقی کے باوجود مسلمانوں کے لیے اس ترقی کے ثمرات کے عشرعشیر تک رسائی ایک سیاسی اور سماجی جوکھم کے سوا کچھ نہیں ۔
8) جمہوری سماج میں میڈیا کا رول :
جمہوری سماج میں میڈیا کا رول دراصل دبے کچلے کمزور محروم طبقات ، سیاسی بےوزن اور سماجی بے اثر افراد کی آواز کو متعلقہ اداروں اور محکموں تک پہنچانا اور ارباب اقتدار کو جوابدہی کے کٹہرے تک لا کھڑا کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن مسلمانوں کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ انٹیلیجنس بیورو ، این آئی اے محکمہ داخلہ اور پولیس ایجنسیوں کی ساز باز سے میڈیا نے مسلمانوں کو ملک و قوم کے غدار , شر پسند اور دہشت گرد بتانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ جھوٹے الزامات ، فرضی واقعات اور شر پسند افواہوں کے ذریعے ان کے کردار کو مسخ کرنے اور پوری قوم میں ایک ملامت زدہ طبقہ بنادینے کی منظم کوشش کی ۔ فلم ٹیلی ویژن اور سوشیل میڈیا کو نفرتی مواد کی خرید و فروخت کا ایک بہت بڑا مارکیٹ بنادیا گیا ۔
9) یکساں مواقع کو یقینی بنانا اور برقرار رکھنا:
جیسا کہ کہا گیا سیاسی سماجی معاشی اور تعلیمی سطح پر مسلمانوں کو الگ تھلگ کردیا گیا ۔ پہلے فسادات کے ذریعہ بڑی صنعتیں اور بڑے پیمانے کے کاروبار ختم کردیے گئے پھر مختلف نوعیت کے تحفظات کے ذریعہ ملازمتیں چھینی گئیں پھر ایسی صورتحال پیدا کردی گئ کہ دوبارہ مسلمانوں کو ترقی تو دور کی بات ہے سنبھلنے کا بھی موقع نہ ملے ۔ تعلیم اور روزگار میں بھی ہم اسی کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ حکمراں طبقے کی طرح کی اسکولی اور اعلی تعلیم اور بڑے عہدوں پر ان کے تقررات کے لیے یکساں مواقع مسلمانوں کے لیے ایک سراب ہی ہیں ۔
10) امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی :
امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا قیام اور برقراری حکمرں طبقے اور حکومتی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن امن و ضبط کی بگڑتی صورتحال کا الزام ہمیشہ ظلم کی چکی میں پسے جانے والے طبقات ہی پر لگادیا گیا خاص طور پر مسلمانوں پر ۔ اپنے خاص قسم کے مفادات کے لیے فرقہ وارانہ فسادات کروانا , دہوں کی جمائی ہوئی معیشت اور کاروبار کو آنافانا برباد کردینا ، سالہاسال کی فرقہ وارانہ دوستیوں روابط اور تعلقات کو بدترین نفرت میں بدل دینا اور پرسکون زندگی گذارنے والے کمزور طبقات کو قانونی کشاکش میں پھنساکر ان کی زندگی جہنم بنادینا ان طبقات کا کھیل ہے ۔ اس مقصد کے لیے چھ ہزار تا دس ہزار نوجوان مرد و خواتین پر مشتمل تربیت یافتہ دستے موجود ہیں جو باضابطہ بسوں میں لائے جاتے ہیں کسی خاص مقام پر ٹھیرائے جاتے ہیں اور جو اچانک نمودار ہوکر غارتگری شروع کردیتے ہیں اور پھر کام پورا ہوتے ہی منظر سے غائب ہوجاتے ہیں ۔
میدان میں ان 10 نکات کی عملی صورتحال کا جائزہ ایک مسلم نقطہ نظر کوپیش کرتا ہے اور اس کو اسی حد تک رکھا گیا ہے جبکہ جائزہ کے دیگر پہلو بھی موجود ہیں جو اس وقت پیش نظر نہیں ۔ اس کے علاوہ اس پورے تجزیہ میں عام لوگوں کے نقطہ نظر کو نہیں لیا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کا خاطر خواہ طبقہ آج بھی ان نکات پر ویسی شرپسند سوچ نہیں رکھتا جیسا کہ بتایا گیا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ سماجی – سیاسی Dynamics میں حکمراں طبقہ ہی اثر انداز ہوتا ہے ۔ عوام کی سوچ یا ان کا نقطہ نظر شائد ہی کوئی قدر یا وزن رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
*آج متحدہ قومیت کے نظریہ اور سیکولر جمہوری سماج اور اس پورے نظام کے بکھراو کے بعد ہندوستان کے سنجیدہ حلقے ایک نئی قومی یا تہذیبی ڈسکورس کی تلاش میں ہیں ۔ ایسے میں جو قائدین پرانے (سیکولر جمہوری) معاشرہ اور حالات کی بحالی کی امید دلارہے ہیں یا نعرہ لگارہے ہیں وہ مسلمانوں کے بدترین بدخواہ ہیں . وقت کا پہیہ ہمیشہ اگے ہی جاتا ہے کبھی الٹا نہیں چلتا . اس لیے پرانے ہندوستان کی بحالی کی تمنا اور امیدیں ایک فریب ہے دھوکہ ہے ۔ ایک بوسیدہ قریب المرگ نظام کو اگر حکمراں جماعت ختم کردینا چاہتی ہے تو خواہ مخواہ اس کی برقراری اپنے کاندھوں پر لینا کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں* ۔
*مناسب یہی ہے کہ مسلمان پورے اعتماد کے ساتھ نئے بیانیے (ڈسکورس) اور نئے فارمولے پر بات اور کام شروع کریں ۔ ایک ایسا بیانیہ (ڈسکورس) جس میں ان کے عقیدے , زبان مذہب اور ثقافت کو وقار حاصل ہو ۔ ایسا بیانیہ جس میں امن و امان ، عدل و انصاف اور عروج و ترقی کے قیام اور حصول میں انہیں خاطرخواہ رول ادا کرنے کا موقع ملے ۔ ایک ایسا بیانیہ جس میں ظلم و جبر , استبداد و استحصال اور امتیاز و تفریق کا خاتمہ ہو اور مثالی معاشرہ کے قیام اور استحکام میں مدد ملے* ۔
لیکن ظاہر ہے یہ سب کسی قوم کو تشت میں رکھ کر پیش نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے کما حقہ جدوجہد کرنا پڑتا ہے ۔ یہ جدوجہد پوری شدت کے ساتھ , عمومیت کے ساتھ ہر سطح پر اور ہر پہلو سے ہو . ہر قسم کے منفی تخریبی یا ناجائز آلائشات سے پاک ہو ۔ تعمیری رضاکارانہ اور مستقل و مستقم ہو ۔ یہ اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ مقاصد کا حصول ظاہر نہ ہوجائے ۔ اس کے لیے عوام اور قائدین دونوں کو اپنے اپنے طریقے سے ہر قسم کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں . اج اگر ہم قربانیاں پیش کریں گے تو کل ہماری نسل سانس ، غذا اور رہائش سے آگے مقصد زندگی پر کچھ کام کرپائے گی ورنہ ان کی زندگی ان تین داعیوں کے لیے ترستے جانداروں سے بدتر ہوگی ۔
*آج ہمارا سارا ایجنڈا دو ہی نکات پر مبنی ہونا چاہیے ۔ اسلام کی دعوت اور تنظیم امت* ۔ اس پر ان شاءاللہ اگلی قسط میں اظہار خیال کیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔