مضامین و مقالات

موجودہ حالات اور مسلمان

محمد صدرعالم نعمانی

صدر علماء بورڈ ہند

آج کے حالات میں ہمیں اپنے اندر سب سے پہلے ہمت ،جرآت، شجاعت ، بہادری ، حوصلہ اور ثابت قدمی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر کسی کام ،کسی ہدف ،کسی مقصد اور کسی تحریک اور مشن میں ہمیں کامیابی ملنی ممکن نہیں لگتی ہے ، ہر طرح کے معرکے اور زندگی کے تمام امور ہمت، ارادے کی مضبوطی اور حوصلے کے زور پر ہی سر کئے جاتے ہیں، کھیل کا میدان ہو، یا جنگ کا، سیاست کی زور آزمائی ہو، یا کوئی تعلیمی و تعمیری منصوبہ جس طرح ان تمام امور میں کامیابی کے لئے منصوبہ بندی ضروی ہے، اسی طرح کامیابی و کامرانی اور منزل کو پانے کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ جماعت اور تنظیم کے افراد کے حوصلے بلند ہوں ۔ جس قوم اور جس جماعت میں جتنے زیادہ باہمت اور باحوصلہ افراد ہوں گے، وہ قوم اور وہ جماعت کامیابی سے ہمکنار ہوگی ،اور اپنے ہدف اور منزل کو آسانی سے پا لے گی

ہندوستان میں جس طرح آج مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں، ماضی میں بھی وہ یہاں کبھی اکثریت میں نہیں رہے ان کی تعداد ہمیشہ یہاں برادران وطن کےمقابلہ ایک چوتھائی ہی رہی یعنی وہ ہمیشہ اقلیت میں ہی رہے، لیکن ایک طویل عرصے تک وہ یہاں کے حکمراں رہے، تاریخ گواہ ہے کہ تقریبا ایک ہزار سال سے زیادہ یہاں مسلم حکمرانوں اور بادشاہوں نے عدل و انصاف اور رعایا پروری کے ساتھ حکومت کی،ہندو مسلم سکھ عیسائ سب کو ساتھ لے کر چلے، مذھبی رواداری کا وہ جیتا جاگتا ثبوت پیش کیا کہ تاریخ انسانی آج بھی فخر کر رہی ہے ۔ آخر وہ کیا وجہ اور سبب ہے کہ ماضی میں بھی مسلمان یہاں اقلیت میں رہے، لیکن اس کے باوجود وہ یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ اور جسم و جاں پر چھائے رہے، کامیابی کے ساتھ حکمرانی کی اور اپنی حیثیت اور وقار و دبدبہ قائم رکھا، اور آج بھی ہم اقلیت میں ہیں، لیکن ہم یہاں بے حیثیت، بے وقار، اور دوسرے درجہ کے شہری بنے ہوئے ہیں، نہ ہماری عزت وعظمت محفوظ ہے، اورنہ ہمارےمدارس، مکاتب، مساجد، اور خانقاہیں محفوظ ہے، آج ہماری حیثیت ختم ہونے کے قریب ہے ۔ اب تو سیاسی پارٹیاں بھی ہمیں کوئ اہمیت نہیں دے رہی ہیں، بلکہ اب تو مسلمانوں کی حمایت کرنے اور ان کی تائید و طرف داری کرنے سے بھی کترا رہی ہیں ،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے ہمت ، جرآت، شجاعت ، اور حوصلہ سے کام لیناچھوڑ دیاہے ،جس سے معرکے سر کئے جاتے تھے ۔ دشواریوں کا مقابلہ کیا جاتا تھا۔ رکاوٹوں کو دور کیاجاتا تھا ۔ دوسروں کو مرعوب و مسحور کیا جاتا تھا ۔

ماضی ہماراروشن، اور تابناک تھا اور آج (حال ) ہمارا تاریک مدھم اور دھندلا ہے ۔ ہم اپنی کھوئی ہوئی تاریخ اور کھویا ہوا ماضی کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ اپنا رعب اور وقار اس ملک میں کیسے قائم کر سکتے ہیں؟ اور کیا حکمت عملی ہوسکتی ہے ؟

قرآن مجید مسلمانوں کے لئے آخری کتاب ہدایت ہے، یہ وہ الہامی کتاب ہے، جس میں اللہ تعالی نے ایمان والوں کی ساری مشکلات، اور پریشانیوں کا حل بھی تجویز کردیاہے ،اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر مخالف گروپ ، یا کسی دشمن جماعت سے تمہارا مقابلہ اور سامنا ہو تو تم اس مشکل گھڑی میں کیا کرو گے ؟ کیا حکمت عملی اختیار کروگے ؟ قرآن مجید کے سورئہ انفال میں اللہ تعالی نے ایسی مشکل گھڑی کے لئے اور مد مقابل سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے :

ترجمہ اے ایمان والو ! جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی ۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرواور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی، اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبرکرنےوالوں کے ساتھ ہے ۔
ہمیں دشمن سے مقابلہ کے وقت ایک خاص ہدایت نامہ اور فارمولہ ان آیتوں میں دیا گیاہے، پہلی دو آیتوں میں خاص طور پر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اپنے اندر ثابت قدمی پیدا کرو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو،امید کہ تم مقابلہ میں کامیاب ہو جاؤ گے،ثابت قدمی اور ذکر خداوندی یہ وہ نسخہ ہے،جو ایمان والوں کے لئے دنیا میں کامیابی اور فتحمندی کا اور آخرت کی نجات و فلاح کا نسخئہ اکسیر ہے، اور قرون اولی کی تمام معرکوں میں مسلمانوں کی کامیابیوں اور فتوحات کا راز اسی میں مضمر ہے ۔ پہلی چیز ہے ثابت قدمی ۔ جب تک کسی شخص کا دل مضبوط اور ثابت نہ ہو اس کا قدم اور اعضاء ثابت نہیں رہ سکتے۔اور یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، دنیا کی ہر قوم جانتی ہے، اور اس کو اس کا تجربہ ہے کہ مخالف سے مقابلہ کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ کامیاب ہتھیار ثبات قدمی ہے، دوسرے سارے ہتھیار اس کے بغیر بیکار ہیں ۔
دوسری چیز ذکر اللہ ہے یعنی خدا کو یاد کرنا ہے،اور کثرت سے یاد کرنا ہے ۔ لیکن آج مسلمان مد مقابل سے مقابلہ کے لئےاس روحانی اور معنوی ہتھیار سے بے خبر ہیں، ذکر اللہ ثبات قدمی کا بہترین نسخہ ہے ۔ اللہ کی یاد اور اس پر اعتماد وہ بجلی کی طاقت ہے،جو انسان ضعیف کو پہاڑوں سے ٹکرا جانے پر آمادہ کر دیتی ہے, اور کیسی مصیبت اور پریشانی ہو اللہ کی یاد سب کو ہوا میں اڑا دیتی ہے, اور انسان کےقلب وجگر کو مضبوط اورثابت قدم رکھتی ہے ۔
اس کے بعد تین اور چیزیں ایمان والوں کو بتائی گئیں وہ یہ کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے رہو, میدان جنگ میں بھی اس میں کوئ کمی نہ آئے, اور یہ یاد رکھو کہ اللہ کی نصرت اور امداد اس کی اطاعت کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے, معصیت اور نافرمانی تو اللہ کی ناراضگی اور ہرفضل سے محرومی کے اسباب ہوتے ہیں ۔ اور آگے مسلمانوں کو یہ تلقین کی گئی کہ آپس میں مت لڑو خاص طور پر جنگ کے موقع پرمنتشر نہ ہو، ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور تم ناکام ہو جاو گے، اور آخری بات ایمان والوں کو یہ سمھجائ گئی کہ صبر کرتے رہو، صبر کا دامن مت چھوڑو ،کیونکہ اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ یعنی صبر کرنے والوں کواللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالی ہروقت ان کارفیق اور معاون ہوتا ہے ۔ یقینا صبر یہ وہ دولت ہے کہ دونوں جہاں کی دولت اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں ۔

آج مسلمانوں کو موجودہ حالات کے تناظر میں ان قرآنی فارمولے پر عمل کی سخت ضرورت ہے ۔ اور امت کو بتانے کی ضرورت ہے کہ تمہاری اس موجودہ مشکل کا حل سورئہ انفال میں بتا دیا گیا ہے ۔
اللہ تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو ان قرآنی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور مشکل حالات میں ان ربانی نسخہ پر عمل کی توفیق سے نوازے، آمین،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button