مضامین و مقالات

بی جے پی کے نشانہ پر راہل گاندھی کیوں؟ 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
بی جے پی جب سے اقتدار میں آئی ہے ۔ وہ نہرو، گاندھی، کانگریس کو راہل کے بہانے کوستی رہی ہے ۔ بھاجپا کے پالیسی ساز انہیں بے سمجھ، غیر سنجیدہ اور جز وقتی سیاستدان ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ لیکن راہل گاندھی نے ہمیشہ اسے غلط ثابت کیا ہے ۔ کووڈ کے دوران تو ان کی کہی گئی باتوں پر دیر یا سویر حکومت کو ماننا پڑا ۔ معیشت کے بارے میں بھی ان کی باتیں سچ ثابت ہوئیں ۔ تمام جھوٹے پروپیگنڈے کے باوجود راہل گاندھی نے ہی گجرات میں بی جے پی کے لئے مشکل پیدا کی تھی ۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اس کے ہاتھ سے چھین لیا تھا ۔ کرناٹک میں بھی اس کا خواب پورا نہیں ہونے دیا ۔ اور ہریانہ میں کانگریس کی کارکردگی بھاجپا سے اچھی رہی تھی ۔ ہریانہ میں حکومت کیسے بنی اور مدھیہ پردیش، کرناٹک کی چنی ہوئی حکومتوں کو گرا کر بی جے پی نے کیسے قبضہ کیا سب جانتے ہیں ۔  دراصل بھاجپا کے لئے کوئی چیلنج ہے تو وہ کانگریس ہے ۔ کانگریس میں راہل کے علاوہ بہت کم لیڈر ایسے ہیں جن کے نام پر بھیڑ جمع ہو سکتی ہے ۔ بھارت جوڑو یاترا نے راہل گاندھی کے خلاف چلائے گئے بی جے پی کے پروپیگنڈہ کو دھو دیا ۔ ان کے ذریعہ پوچھے گئے بے باک سوالوں نے حکومت کی نیند حرام کر دی ۔
بجٹ اجلاس کے دوران دی گئی راہل گاندھی اور کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کے ذریعہ پوچھے گئے سوالات کا جواب دینے کے بجائے انہیں تقریر سے ہٹا دیا گیا ۔ بی جے پی راہل گاندھی اور کانگریس کو گھیر نہیں پا رہی تھی ۔ لیکن لندن میں قیام کے دوران راہل گاندھی کی تقریر نے اسے یہ موقع فراہم کر دیا ۔ انہوں نے امریکہ سمیت سبھی جمہوری ممالک کو متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کی جمہوریت خطرے میں ہے ۔ تمام آئینی اداروں پر حکومت کا قبضہ ہے ۔ انہیں آزادی سے کام کرنے نہیں دیا جا رہا ۔ دلت، آدی واسی اور اقلیتوں پر حملے ہو رہے ہیں ۔ میڈیا یا کوئی شانت رہے حکومت سے سوال نہ پوچھے کیوں کہ وہ چار پانچ اپنے قریبیوں کو ملک کا سب کچھ سونپنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا کہ چین سے زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ سرحد پر زیادہ سرگرم ہے ۔
وزیراعظم نریندرمودی نے کرناٹک کی ریلی میں راہل کا نام لئے بغیر کہا کہ غیر ملکی زمین پر جا کر بھارت کی جمہوریت پر حملہ کو برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے بعد چھ مرکزی وزیر راہل گاندھی پر ٹوٹ پڑے ۔ انہیں پپو سے لے کر ملک کا دشمن تک کہا گیا ۔ بجٹ اجلاس کے دوسرے حصّہ کے لئے جیسے ہی پارلیمنٹ شروع ہوئی ۔ برسراقتدار بی جے پی راہل کی معافی کی مانگ اڑ گئی ۔ بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کو برسراقتدار جماعت نے خود نہیں چلنے دیا یہاں تک کہ بغیر بحث کے ہی بجٹ پاس ہو گیا ۔ راہل گاندھی نے اسپیکر سے پارلیمنٹ میں اپنی بات رکھنے کے لئے وقت مانگا ۔ مگر انہیں وقت نہیں دیا گیا، ایک چنے ہوئے ممبر پارلیمنٹ کو وقت نہ دینا کیا جمہوریت کے خلاف نہیں ہے؟ عجیب بات یہ ہے کہ اس حکومت کے وزراء راہل سے معافی کی مانگ کر رہے ہیں کہ غیر ملکی زمین پر جا کر انہوں نے بھارت کی جمہوریت پر سوال اٹھائے جس کا جی20 منتر ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل ہے ۔ جو ملک وشو گرو بننے کی امید رکھتا ہے ۔ اس میں تنقید کو برداشت کرنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہئے ۔ آخر ہماری حکومت غیر ممالک میں بسے بھارتیوں کو اپنے عظیم سیاسی خاندان کا حصہ مانتی ہے ۔ جب بھی وزیراعظم کسی ملک کے دورے پر جاتے ہیں ۔ وہاں بسے بھارتیہ ان سے یا وہ بھارتیوں سے ملتے ہیں ۔
بی جے پی پارلیمنٹ میں استحقاق کی تحریک لاکر راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی ممبر شپ منسوخ کرانا چاہتی تھی ۔ پارلیمنٹ میں اس کی مانگ بھی اٹھ رہی تھی ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سے حکومت کو عالمی برادری میں بدنامی کا خطرہ تھا ۔ اس لئے چار سال سے التواء میں پڑے معاملہ کی پیروی کر اس پر فیصلہ کرایا گیا ۔ راہل گاندھی نے کولار کرناٹک کی انتخابی ریلی مارچ 2019 میں بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ "نیرو مودی، للت مودی، نریندرمودی ہر چور کے نام میں مودی کیوں ہوتا ہے”۔ اس جملہ کے خلاف اپریل 2019 میں سورت، جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں مقدمہ درج ہوا تھا ۔ 2021 میں راہل گاندھی سورت کے سی جی ایم کی عدالت میں پیش ہوئے تھے ۔ شکایت کرتا نے عدالت میں راہل گاندھی کے ذاتی طور پر حاضر ہونے کی عرضی لگائی تھی ۔ جسے اس وقت کے مجسٹریٹ مسٹر دوے نے خارج کر دیا تھا ۔ اس کے بعد شکایت کرتا پرنیش مودی جو اس وقت بی جے پی کا ایم ایل اے ہے ۔ ہائی کورٹ جا کر مارچ 2022 میں اپنے مقدمہ پر اسٹے لے آیا ۔ اب جبکہ راہل گاندھی نے اڈانی کا معاملہ زور شور سے اٹھایا ۔ ساتھ ہی کانگریس اس معاملہ کو عام آدمی تک لے کر جانے کا منصوبہ بنا رہی تھی ۔ پرنیش مودی نے اسے واپس لے کر مقدمہ دوبارہ شروع کرایا ۔ اس دوران مجسٹریٹ بھی بدل گئے ۔ انہوں نے 23 مارچ کو سنوائی کے بعد فیصلہ سنا دیا ۔ مختصر بحث کے بعد دوسال کی سزا اور پندرہ ہزار کا جرمانہ کیا گیا ۔ ساتھ ہی سزا کو ایک ماہ کے لئے موخر کر ضمانت دے دی گئی ۔ ہتک عزت قانون کی پونے دو سو سالہ تاریخ میں راہل گاندھی پہلے شخص ہیں جنہیں دوسال کی سزا دی گئی ہے ۔
انتخابی ریلیوں میں سیاستدان کیا کچھ نہیں بولتے ۔ کیا ہر معاملہ میں اس طرح کا مقدمہ ہوتا ہے ۔ جواب ہے نہیں، مگر ہو سکتا ہے کہ اب یہ ٹرینڈ شروع ہو جائے ۔ پارلیمنٹ اور انتخابی کمیشن نے اتنی تیزی دکھائی کہ اگلے ہی دن راہل گاندھی کی پارلیمنٹ ممبر شپ منسوخ کر دی گئی ۔ 2013 میں گجرات کے کابینہ وزیر بابو بوکھاڑیہ کو منرل تھیپٹ معاملہ میں دوسال کی سزا ہوئی تھی ۔ انہیں نااہل قرار نہیں دیا گیا اور نہ انہوں نے استعفیٰ دیا ۔ دو ہفتے میں وہ ہائی کورٹ سے اس پر اسٹے لے آئے اور اپنا کام کرتے رہے ۔ مگر راہل گاندھی کو کوئی مہلت نہیں دی گئی ۔ اگر انہیں اوپری عدالت سے اس معاملہ میں راحت نہیں ملتی ہے تو وہ 2024 اور 2029 کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکیں گے ۔ ویسے سورت کی عدالت کے فیصلہ میں کئی تکنیکی کمیاں ہیں مثلاً مقدمہ ان میں سے کسی شخص نے دائر نہیں کیا ہے جن کا راہل گاندھی نے نام لیا ۔ معاملہ کولار کرناٹک کا ہے لیکن مقدمہ سورت میں درج ہوا ہے ۔ مجسٹریٹ یا پولس کے ذریعہ 202 کے تحت انکوائری نہیں کرائی گئی ہے ۔ راہل کا ارادہ کسی طبقہ کو بے عزت کرنے کا نہیں تھا ۔ انہوں نے بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے نیرو مودی، للت مودی اور نریندرمودی کا نام لیا تھا ۔ ان وجوہات سے اوپری عدالت میں راحت ملنے کی امید کی جا رہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کانگریس نے اس مقدمہ کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا ۔ جبکہ نامور وکیلوں کی بڑی فوج اس کے ساتھ ہے ۔
اب مودی لفظ کے سہارے کانگریس کو او بی سی مخالف بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جبکہ مودی کوئی او بی سی ذات نہیں بلکہ تیل اور کیرانہ کا کام کرنے والے اس لفظ کو ٹائٹل کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ نیرو مودی جین، للت مودی مارواڑی اور مشہور بیڈ منٹن کھلاڑی سید مودی مسلمان تھے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی کو اپنی سیاست چمکانے کے لئے راہل گاندھی کی ضرورت ہے ۔ شاید وہ راہل کے بہانے اپوزیشن کو بانٹ کر رکھنا چاہتی تھی ۔ مگر اس کا یہ داؤ الٹا پڑ گیا ۔ راہل کے خلاف کارروائی نے اپوزیشن کو ایک ساتھ آنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ابھی تک اپوزیشن لیڈران کے خلاف الگ الگ کاروائی ہو رہی تھی ۔ مگر راہل گاندھی کی پارلیمانی ممبر شپ کی منسوخی سے سب کو احساس ہو گیا کہ مودی حزب اختلاف کو ختم کرنا یا پھر اپنی معاون اپوزیشن تیار کرنا چاہتے ہیں ۔ آج نہیں تو کل سب کو جیل کا منھ دیکھنا پڑے گا ۔ اسی فکر نے کے سی آر، ممتا بنرجی، اکھلیش یادو اور کجریوال کو کانگریس سے فاصلہ بنا کر تیسرا مورچہ بنانے کی قواعد میں لگے تھے ۔ کانگریس کے ساتھ کھڑا کر دیا ۔ کجریوال تو مودی اور ان کی حکومت پر جارحانہ حملے کر رہے ہیں ۔ 1977، 1988، 2004 کے انتخابات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اپوزیشن کا مکمل اتحاد تو ممکن نہیں ہو سکے گا ۔ لیکن اگر اپوزیشن مودی راج کی غیر اعلانیہ تاناشاہی اور عوام مخالف کارپوریٹ پرستی کو مدا بنانے میں کامیاب ہوئی تو 2024 کے الیکشن کا نقشہ بدل سکتا ہے ۔ موجودہ نظام نے راہل گاندھی کی ممبر شپ ختم کرکے اس سلسلے کو رفتار دے دی ہے ۔ راہل کو پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے تو گھیرا جا سکتا تھا ۔ باہر رہتے ہوئے انہیں نشانہ بنانا بی جے پی کے لئے آسان نہیں ہوگا ۔ کرناٹک کے الیکشن سے بھی یہ ثابت ہو جائے گا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button