
اسلامیات،افسانہ و غزلیات
درعیہ سے ریاض
دینے لگیں۔ آخر کار 1818ء میں سقوط درعیہ کے ساتھ ہی آل سعود کے ذریعے قائم کردہ پہلی امارت و حکومت کا اختتام ہو گیا۔
سقوط درعیہ کے بعد آل سعود اور آل شیخ نے مل کر دوبارہ ایک نئی حکومت کی بنیاد ڈالی جو 1891ء تک پوری آن بان اور شان کے ساتھ برقرار رہی لیکن اپنوں کی سازشوں اور اغیار کی کارستانیوں کی وجہ سے اسے بھی زوال پذیر ہونا پڑا۔ مگر ایک بار پھر اس عظیم سعودی خانوادہ نے اپنی عظیم قربانیوں، اخلاص و للہیت اور محبت دین و شریعت کی بنیاد پر اپنی تیسری حکومت قائم کر لی جو اج تک قائم ہے اور سچ تو یہ ہے کہ سعودی حکومت ہی روئے زمین کی وہ واحد حکومت ہے جو قرآن و سنت کی مضبوط ترین بنیادوں پر قائم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آل سعود کے جتنے بھی حکمران تخت سعودی عرب پر متمکن ہوئے سب کے اندر ایک قدر مشترک یہ رہی کہ انہوں نے خالص توحید و سنت کی روشنی میں فرماں روائی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کی رفاہی و انسانی خدمات لازوال، بے مثال اور لاثانی ہیں۔ موجودہ سعودی حکمراں خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود کی کامیاب اور حکیمانہ قیادت و رہنمائی میں مملکت توحید و سنت زندگی کے ہر میدان میں، خواہ وہ دینی ہو یا سیاسی، کامیابیوں اور کامرانیوں کے جھنڈے گاڑتی چلی جا رہی ہے۔
آج دنیا کے 57 مسلم ملکوں میں سب سے زیادہ عالمی وقار و دبدبہ اگر کسی ملک کو حاصل ہے تو وہ مملکت سعودی عرب کے سوا کوئی دوسرا ملک قطعی نہیں ہے۔ دنیا بھر کے مظلومین اور مقہورین کا واحد ملجا و ماوی اگر کوئی ملک ہے تو وہ بھی فقط سعودی عرب ہی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ 22 فروری 1727ء کو حجاز و نجد میں توحید و سنت کے گلستان میں آل سعود کے ذریعے جو پھول کھلا تھا، وہ تاریخ کی شہادت کے مطابق دو بار مرجھایا بلکہ گلشن بدر ہوا ضرور، لیکن جب وہ تیسری بار شعلوں اور کانٹوں کو مات دیتے ہوئے کھلا تو اس نے پوری دنیا کو توحید و سنت کی خوشبو سے مہکا دیا، اب بھی مہکا رہا ہے اور اللہ جب تک چاہے گا، مہکاتا رہے گا۔
ابو القیس عبد العزیز مدنی
مدیر تعلیم جامعہ امام ابن تیمیہ