مضامین و مقالات

عارف اقبال: ایک کامیاب صحافی، ایک ہونہار معلّم

شاہنواز بدر قاسمی

چیرمین، وژن انٹرنیشنل اسکول، سہرسہ

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور ہر انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے بھی نوازا۔بلاشبہ انسان اپنی صلاحیتوں کا استعمال صحیح سمت میں کرے تو اسے ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ کامیابی کے پسینے پر صرف محنت کا حق ہوتا ہے، منزل حاصل کرنے کی ضد، جنون اور حوصلہ کامیابی کی شاہکار ہے۔ عزائم بلند ہوں، آرام طلبی چھوڑ کرجدوجہد کرنے کا مزاج اور زندگی میں کچھ بننے کا سچا جذبہ ہو تو آپ اپنی منزل حاصل کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں قابل رشک، کہ وہ کسی بھی اور کیسے بھی حالات ہوں، اپنے خواب کو شرمندہ تعبیرکرنے اور منزل تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔انہیں لوگوں میں اردو صحافت کا ایک درخشاں نام، میرے رفیق، ہردلعزیز دوست، مشہور و معروف اور نوجوان صحافی محمد عارف اقبال کا ہے جنہوں نے کم عمری میں ہی ملکی سطح پر اپنے کام، اعتبار، سنجیدہ مزاج، حسن اخلاق سے خواص ہی نہیں عوام کو بھی متاثر کیا ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی مضاحقہ نہیں کہ موجودہ وقت کے اردو صحافیوں میں عارف اقبال واحد ایسے نوجوان صحافی ہیں جو اپنی مثبت اور فعال سرگرمیوں، تعمیری فکرو عمل اور انفرادی صلاحیتوں کے سبب اکابر علماء سے لیکر قد آور سیاسی رہنما، ادبی شخصیات سے لیکر دانشورانِ قوم کے نور نظر اور محبوب نظر بنے ہوئے ہیں۔ عارف اقبال نے گزشتہ چند مہینوں میں جس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا بیرا اٹھایا تھا اسے کر دکھایا۔ ایسے ہی شاہین کا جگر رکھنے والے نوجوانوں کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے:
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اور پھر ساحر لدھیانوی کا یہ شعر بھی عزم و حوصلہ سے پُر نوجوانوں کی ترجمانی کرتی ہے:
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں
عارف اقبال بنیادی طورپر ایک منجھے ہوئے باوقار اور باصلاحیت صحافی ہیں، لیکن انہوں نے صحافت کے ساتھ تعلیمی میدان کے بھی دروازے اپنے لیے کھلے رکھے اور اس کے لیے سرگرداں رہے۔ پٹنہ یونیورسٹی سے جرنلزم اور پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے مستند تعلیمی و تربیتی ادارے سے ماس کمیونکشن کرنے کے بعد قومی سطح پر مختلف نیوز چینلوں (Zee News,India News,ETV Bharat Urdu) سے وابستہ ہوئے مگر ساتھ ہی عارف اقبال نے تعلیمی ہدف کو بھی پیش نظر رکھا۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے ایم اے کرنے کے بعد فوراََ بعد ہی بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور پھر اس کے بعد مکمل طور پر صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے عارف اقبال صحافتی خدمات کے ساتھ روز اول سے ادبی خدمات کا بھی جذبہ رکھتے تھے تبھی انہوں نے ایک کے بعد دیگرے تعلیمی مراحل مکمل کیے۔ پورے منصوبہ بندی کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھتے گئے جس کے نتیجے میں آج وہ اس مقام پر فائز ہو گئے ہیں جہاں سے ان کے کام کرنے کے مزید دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
صحافت کا ادب سے مضبوط اور قدیم رشتہ رہا ہے۔ اردو ادب کی کئی مایہ ناز شخصیات ایسی گزری ہیں جن کا شمار ادیبوں میں ہوتا ہے مگر ان کا ماضی صحافت سے منسلک رہا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، کرشن چندر، خواجہ حسن نظامی، خواجہ احمد عباس، ناز انصاری، نیاز فتح پوری، ظ انصاری، سید سجاد ظہیر، شوکت تھانوی اور ظفر عدیم جیسی سیکڑوں شخصیات پہلے صحافی کی شکل میں سامنے آئیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اردو ادب میں ایک لکیر کھینچ گئے۔ موجودہ وقت میں حقانی القاسمی، پروفیسر صفدر امام قادری، ڈاکٹر مشتاق احمد وغیرہ ایسی محترم و معتبر شخصیات ہیں جن کی شروعات بحیثیت صحافی ہوئی مگر آج یہ حضرات اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے اردوادب میں بلند مقام رکھتے ہیں، ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اب اس صف میں عارف اقبال کا شمار کر سکتے ہیں جو صحافت اور ادب کے درمیان ایک مضبوط کڑی کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔
عارف اقبال حال ہی میں حکومت بہار کی جانب سے منعقدہ بی پی ایس سی اساتذہ مقابلہ جاتی امتحانات2023 میں نمایاں کامیابی حاصل کر صحافی کے ساتھ اب باضابطہ ہائی اسکول کے استاذ بن چکے ہیں۔اس کامیابی پر ملک بھر سے ان کے متعلقین اور احباب انہیں مبارک باد پیش کررہے ہیں۔ ہم نے سوچا اس خاص موقع پر زبانی مبارکبادی کے بجائے اپنے بچپن کے دوست، درسی ساتھی عارف اقبال کے حوالے سے چند باتیں عرض کردوں تاکہ کامیابی کا خواب دیکھنے والوں کو ایک نئی راہ مل سکے۔
ہر شخص کی منزل طے ہے۔ارادہ مضبوط ہو تو کامیابی منزل طے کر لیتی ہے اور کامیابی ایسے ہی لوگوں کو ملتی ہے جو اپنی کامیابی کے لیے کئی رات جاگتے ہیں۔ ہر روز اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔ یہی ہر روز کی محنت آپ کو اپنی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔ عارف اقبال بھی اس کامیابی کے لیے سخت محنت اور جدوجہد کی ہے۔ چکا چوندھ اور گلیمر والی میڈیا کی دنیامیں رہتے ہوئے چل پڑے ایک نئی منزل کی تلاش میں۔ عارف اقبال میں دیگر خصوصیات کے ساتھ ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے جس کام میں ہاتھ لگایا، اسے بحسن و خوبی انجام تک پہنچایا۔ کبھی ہار نہیں مانا، مقابلہ کرنے کی ہمت اور طاقت دونوں رکھی۔ کامیابی ملنے تک دریا کی طرح بہتے رہے۔ عارف اقبال بشیر بدر کے اس خوبصورت شعر کے مصداق ہیں:
ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا
عارف اقبال ایک جوش اور جنون کا نام ہے، جہد مسلسل سے عبارت کا نام ہے، ایک فکرمندی اور کر گزرنے کا نام ہے، جو اپنی مثبت سرگرمیوں اور تعمیری فکروعمل کی وجہ سے اکثر اپنے ہم عصروں کے مابین تذکرے میں رہتے ہیں۔
عارف اقبال کا تعلق شہر دربھنگہ کے ریلوے جنکشن سے متصل محلہ کٹرہیا پوکھر وارڈ نمبر 17 کے ایک متوسط اور علمی گھرانے سے ہے، یہ محلہ شہر کا غیر معروف تھا مگر اب عارف اقبال کی وجہ سے جانا جاتا ہے،تین بھائیوں میں عارف اقبال دوسرے نمبر پر ہیں، والد محمد قاسم صاحب سماجی کارکن اور علاقہ میں بااثر شخصیت کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں، بڑے بھائی انجینئر آصف رضا اور چھوٹے بھائی انجینئر دانش اقبال بھی برسرروزگار اور دینی و سماجی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ سن2004ء کی بات ہے جب راقم الحروف مدرسہ امدادیہ لہریا سرائے دربھنگہ میں فارسی جماعت کا طالب علم تھا، عارف اقبال اسی وقت مدرسہ میں داخل ہوئے تھے، کرکٹ کے بہانے ہم دونوں کی دوستی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے زندگی آگے نکل گئی۔
عارف اقبال کو زمانہ طالب علمی سے ہی کچھ کر گذرنے کا جذبہ رہا ہے، اسی جنون نے انہیں بہت کم وقت میں عملی زندگی کے کئی منزلوں میں کامیابی کی راہ دیکھائی۔ عارف اقبال صحافی ہونے کے باوجود صحافتی ہیرا پھیری سے واقف نہیں ہیں، اپنی ایمانداری اور اصول پسندی کیلئے مشہور عارف اقبال آج بھی ایک معمولی طالب علم کی طرح زندگی جی رہے ہیں، سادگی اور خاموشی ان کی پہچان ہے، عارف اقبال سے جو لوگ واقف ہیں انہیں معلوم ہے وہ کس مزاج اور فکر کے انسان ہیں،مزاج میں نرمی، انکساری اور سادہ لوحی ان کی شخصیت کا نمایاں اور فطری عنصر ہے۔ وہ ہمیشہ علماء اور اپنے اساتذہ کی نگرانی میں رہ کر کامیابی کی راہ کوطے کیا ہے۔ایک طرف عارف اقبال کی عمر دیکھ لیں اور دوسری طرف اس کی صحافتی و تصنیفی خدمات کو سامنے رکھیں، یقین نہیں آئے گا،کئی ضخیم کتابیں لکھ کر اردو کے اس طالب علم نے قومی سطح پر اپنی شناخت قائم کی ہے اور طلباء کے لیے ایک رول ماڈل بن کر ابھرے ہیں۔ناممکن کاموں کو ممکن بنانے کا ہنر عارف اقبال خوب اچھی طرح جانتے ہیں، ملکی دارالحکومت دہلی سے لیکر ریاستی راجدھانی پٹنہ میں رہ کر عارف اقبال نے اپنی معتبریت کو عام کیا، متھلانچل سے لیکر سیمانچل تک عارف میاں کا جلوہ ہے۔ہر طرف ان کے چاہنے والے موجود ہیں، سوشل میڈیا پر بھی عارف اقبال چھائے رہتے ہیں۔انتہائی خوش مزاج اور خوش گفتار شخصیت کے مالک عارف اقبال اپنے ہم عصروں میں مقبول ہیں، رشتہ اور دوستی نبھانے کا فن جانتے ہیں اور نئے روابط بڑھانے میں ماہر ہیں۔
نئی نسل میں صحافیوں کی کمی نہیں ہے لیکن عارف اقبال مدارس اور یونیورسیٹی دونوں حلقہ میں یکساں مقبول ہیں۔انہیں علمی حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان کی کئی رپورٹ کو موضوع بحث بنتے ہوئے دیکھا ہے، انہو ں نے ارریہ جیسے علاقے میں رہ کر قصباتی صحافت کو ایک نئی شناخت دی اور کئی ایسے علاقائی مسائل کو اجاگر کیا جس کا میڈیا میں تصور بھی نہیں تھا۔ محبان اردو کو یہ بتانا بھی ضر وری ہے کہ عارف اقبال نے یہ تمام کامیابی اردو زبان کی بدولت حاصل کی، نئی نسل میں اردو کو لیکر ایک منفی فکر کو عام کیا جارہا ہے، اردو پڑھنے والوں کا مستقل روشن نہیں ہے لیکن عارف اقبال جیسے بہار سمیت ملک کے ہزاروں طالب علم اردو کی وجہ سے اپنی کامیابی کی منزل تک پہو نچے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے تعلق سے جو غلط فہمیاں ہیں اسے دور کیا جائے اور اردو آبادی کو اردو سے جوڑنے کا کام کیا جائے اور اس کام کو عارف اقبال جیسے نوجوان دوست بہت اچھے سے کرسکتے ہیں۔
عارف اقبال کو اللہ نے بڑی خوبیوں اور کمالات سے نمایاں کیا ہے، اپنی خداداد صلاحیتوں اور ہنر کے ذریعہ اردو کے جو طالب علم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، عارف اقبال ایسے طلباء اور نئی نسل کیلئے ایک رول ماڈل اور آئیڈیل ہے۔ مجھے امید ہے بحیثیت صحافی عارف اقبال جس طرح اپنے کام، اعتبار اور انفرادی صلاحیتوں کی وجہ سے صحافتی دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں،اسی طرح درس و تدریس کے میدان میں اپنی سابقہ روش کو باقی رکھیں گے۔جس اسکول میں تقرری ہوئی ہے وہاں طلباء کے درمیان اردو کے تئیں محبت اور اسے لکھنے پڑھنے کا خوشگوار فضا تیار کریں گے تاکہ اسکولوں میں بنیادی سطح پر کمزور ہو رہی اردو مزیدتوانائی حاصل کر سکے،اب اردو کی ایک نئی نسل کی آبیاری عارف اقبال کے ذمہ ہے اور مجھے یقین ہے جس عزم، حوصلہ،بیدار مغز،بہترین نباض اور روشن خیال سے لیس عارف اقبال ہیں، نتائج جلد ہی سامنے آئیں گے۔
ایک مرتبہ پھر سے عارف اقبال کو اس نمایاں کامیابی پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اسی طرح آپ آگے بڑھتے رہیں اور کامیابی حاصل کرتے رہیں، ابھی آغاز ہے انجام کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھنے کا عمل جاری رکھے، انشاء اللہ مزید کامیابی ملے گی۔عارف اقبال پر وسیم بریلوی کا یہ شعر حرف بحرف مکمل آتا ہے اور اسی شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں:
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button