
کیسے بیٹی بچاسکتے ہیں ؟
از قلم : مدثراحمدشیموگہ9976473727
گذشتہ کچھ دنوں سے ملک کے مختلف مقامت سے لڑکیوں کی عصمت دری کے معاملات منظر عام پر آرہے ہیں ، خاص کر کلکتہ کی ایک اسپتال کی جونیر ڈاکٹر کی عصمت دری کے معاملے نے پورے ملک میں نئی بحث چھیڑ دی ہے ، دریں اثناء مہاراشٹرا ، بہار اور دوسری ریاستوں سے بھی اجتماعی عصمت دری کے معاملات کی خبریں آرہی ہیں ، یہ خبر یں بھارت بھر میں عام لوگوں کو پریشانی میں مبتلاکرچکے ہیں کہ آخر اپنے بچوں کو لے کر کس جگہ پر بھروسہ کیا جائے ؟۔ کس پر بھروسہ کیا جائے اور کس طرح سے ان معاملات سے بچیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ رشتے اتنے گھنائونے ہوتے جارہے ہیں کہ باپ سے بیٹی محفوظ نہیں ، بھائی سے بہن محفوظ نہیں ، چچاسے بھتیجی اور ماموں سے بھانجی یہاں تک کہ دادا اور نانا کے رشتے بھی داغدار ہورہے ہیں ۔ ملک میں گذشتہ 10 سالو ں میں اجتماعی عصمت دری کے معاملات میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہواہے ۔ صرف 2022 میں ملک بھر سے 32000 ہزار لڑکیوں کی اجتماعی یا انفرادی عصمت دری کے معاملات پیش آئے ہیں ۔ ان حالات میں کلکتہ کی ڈاکٹر کی عصمت دری کے معاملے کے بعد بھارت کی سپریم کورٹ نے اس معاملے کو اپنے طورپر درج کرتے ہوئے شنوائی کا سلسلہ شروع کیاہے اور ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ٹاسک فورس کی تشکیل دینے فیصلہ کیاہے ۔ ساتھ ہی ساتھ ملک بھر کے ڈاکٹروں نے اس بات کامطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے خاص قانون عمل میں لایا جائے، قانونی ماہرین نے بھی حکومت سے پرزور مطالبہ کیاہے کہ ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہر حال میں سخت سے سخت قانون بنایا جائے ۔ ایک طرف ڈاکٹروں کے لئے قانون بنانے کی بات ہورہی ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہے کہ سال 2022 میں جو عصمت دری کے معاملات رونماہوئے ہیں ان میں صرف ڈاکٹر ہی نہیں تھے بلکہ ہزاروں بچیاں کمسن تھیں ، کئی بچیاں دلت ، پسماندہ اور عام لڑکیاں بھی تھیں ۔ عصمت دری جیسے سنگین جرم کو کسی خاص پیشے ، مذہب یا ذات سے جوڑ کرسزاء کو تعین کرنے کے بجائے اس جرم کو جرم ہی قرار دینا چاہئے اور اسکی سزائیں بھی سخت ہی ہونی چاہئے ۔ کیونکہ ہر بچی انسان ہے اور وہ بھی کسی کی بہن ، کسی کی بیٹی ، کسی کی بیوی ہوتی ہےایسے میں ڈاکٹر ، انجنیئر ، ٹیچر جیسے پیشوں کے لئے الگ قانون عام بچیوں پر ہونے والے ظلم کے لئے الگ قانون بنانے کا مطالبہ کرنا سمجھ سے باہر ہے ۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جس حکومت میں گجرات کی بلقیس بانو کی عصمت دری کرنے والے مجرمان کو سزا ملنے کے بعد بھی رہا کیاجائے اور جس ملک میں 1992 میں ریپ کے معاملے میں گرفتار ہونے والے ملزمان کو پورے 32 سال بعد سزا دینے کا نظم ہو وہاں کیسے ایسے جرائم کی روک تھام ممکن ہے ۔ اگر غریب کرے تو سزا کا حقدار ، وہی مالدار یا کسی خاص مذہب کے لوگ ایسے جرائم کو انجام دیتے ہیں تو وہ انکی سزا معاف کرنا یا پھر انکے خلاف کارروائی ہی نہ کرنا کونسی ایمانداری کی بات ہے ۔ کیا ایسا کرنے سے قصورواروں کوسزا ملے گی ؟۔ ملک میں جس طرح سے قانون کو نچایا جارہاہے اس سے یہ بات تو طئے ہے کہ بیٹیا ں محفوظ نہیں ہیں ۔ شرمناک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کے 135 ایسے اراکین پارلیمان اور یم ایل اے ہیں جن پر ہی جنسی استحصال کے مقدمے چل رہے ہیں ، بھلابتائیں کہ کیسے بیٹی بچاسکتے ہیں ؟۔جس طرح سے دنیا کے مختلف ممالک میں عصمت دری یا جنسی حراسانی کرنے والوں کوتوڑا جاتاہے ، انہیں سخت سے سخت سزا دی جاتی ہے اسی طرح سے بھارت میں بھی پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔