
تقویٰ اختیار کرو
تقویٰ دل کی کیفیت کا نام ہے۔ تمام عبادات کا بنیادی مقصد بھی انسان کے دل میں اللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا کرنا ہوتا ہے۔صاحبِ تقویٰ حق اور باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو شخص تقویٰ کو اختیار کر لیتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس میں نیکی اور بدی کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے۔
تقویٰ کا معنی ہے بچاؤ اور حفاظت ۔ جب بندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیتا ہے اوردل کو گناہوں سے ترک پر مضبوط کرلیتا ہے تو ایسے عزم اور ارادے والے شخص کو متقی کہتے ہیں اور اس عزم و مضبوطی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ تقویٰ کردار کا ایک ایسا وصف ہے جواگر حاصل ہو جائے تو پوری زندگی درست ہو جائے گی۔تقویٰ گناہوں سے بچنے کا نام ہے۔ برا بولنا، نظر کو غلط دیکھنے سے بچانا ، کانوں کو غلط باتیں سننے سے بچانا، غلط کام کرنے سے خود کو روکنا وغیرہ تقویٰ کو حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔
رسول اللہﷺ نے سب سے پہلی وصیت یہ فرمائی: اُوْصِیْـکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ’’ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی‘ جو بہت زبردست ،بہت بلند و بالاہے۔‘‘ اپنے آپ کو اپنے اللہ کی ناراضگی سے بچانا تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انسان وجن کے لئے تقویٰ کی تلقین فرمائی ہے۔ تقویٰ مؤمنین کے لئے بہترین لباس اور بہترین زادِ راہ ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے جس سے دل کی بندشیں کھل جاتی ہیں ۔جو راہوں کو روشن کرتی ہے اور اسی کی بدولت گمراہ بھی ہدایت پاجاتا ہے۔
تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے کہ اس کے ذریعہ برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا آسان ہوجاتاہے۔ تقویٰ کے معنیٰ سے یہ واضح ہوا کہ شرک، بدعت اور کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے بچنا تقویٰ کے بڑے بنیادی درجے ہیں۔ کفر و شرک ہمیشہ کےلئے جہنم میں داخلے کا سبب ہیں اور اس سے بڑھ کر ہلاکت ونقصان کیا ہوگا۔ اسی طرح کبیرہ گناہ جہنم میں داخلے کاسبب ہیں اور صغیرہ گناہوں میں بھی آخرت کا نقصان ہے لہٰذا اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اِن تین چیزوں سے بچنا حصولِ تقویٰ کےلئے ضروری ہے۔
تقویٰ کا مطلب ہے پرہیز گاری، نیکی اور ہدایت کی راہ ۔تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل گناہ کرنے سے ڈرتا ہے اور نیک کاموں کو کرنے کی تڑپ ہوتی ہے۔اللہ کو تقویٰ پسند ہے۔ رب کے حضور میں سب سے قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے، یہ قرآن پاک کا ارشاد ہے۔ تقویٰ دینداری اور راہِ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بزرگان دین کا وصف اولین تقویٰ رہا ہے۔ قرآن پاک متقی لوگوں کی ہدایت کے لئے ہے۔ تقوی کے کیا فوائد ہیں:۔
جب انسان خدا تبارک و تعالیٰ سے تقوی رکھتا ہے اور اپنے ہر عمل میں خدا کا خوف رکھتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کو بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ تقوی کے بے شمار فائدے قرآن و احادیث میں بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ تقوی کے فائدےفلاح و بہبودی، قوت تفریق بین الحق والباطل،گناہوں سے معافی، کاروبار میں آسانی، رزق و روزی میں برکت اور فاقہ کشی سے دوری ہے اوردنیا و آخرت میں رحمت کا سبب۔ اللہ تبارک و تعالی تقوی والوں کے مشکلات، مصائب اور پریشانیاں کو دور کردیتا ہے اور ان کے رزق میں برکت نازل فرماتا ہے۔ اور ان کو وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں ان کا گمان بھی نہیں جا سکتا۔
قرآن کریم میں یہ لفظ تقویٰ بہت استعمال ہوا ہے بلکہ ایمان کے ساتھ تقویٰ کا اکثر حکم آتا ہے۔ تقویٰ کے معنی ڈرنا بھی ہیں اور بچنا بھی ۔اگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ یا قیامت کے دن سے ہو تو اس سے ڈرنا مراد ہوتا ہے کیونکہ رب سے اور قیامت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد جگہ ارشاد فرمایا ہے چند آیات پیش کرتی ہوں۔
’’یہ وہ عظیم کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، یہ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔” ( سورہ البقرہ۔ آیت نمبر 2)
’’اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی والاجو پرہیزگاری اختیار کرتا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘(سورہ البقرہ آیت نمبر 189)
’’اور (آخرت کے) سفر کا سامان کرلو بے شک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو‘‘(سورہ البقرہ آیت نمبر 197)
’’اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ تم سب کو اسی کے پاس جمع کئے جاؤ گے ‘‘( سورہ البقرۃ آیت نمبر 203)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان رکھتے ہو‘‘(سورہ البقرہ آیت نمبر 278)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو‘‘( سورہ آل عمران آیت نمبر 102)
’’اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘(سورہ آل عمران آیت نمبر 133)
’’یہ قرآن لوگوں کے لیے واضح بیان ہے اور ہدایت ہے اور پرہیزگاروں کے لیے ہدایت و نصیحت ہے‘‘(سورہ آل عمران آیت نمبر 138
)
’’اور اگر تم صبر کرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا یہ بہت ہمت کا کام ہے‘‘( سورہ آل عمران آیت نمبر 186)
’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھواور جہاد کے لیے رہو، اور اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔‘‘(سورہ آل عمران آیت نمبر 200)
’’پس صبر کرو بیشک انجام پرہیز گاروں کے لیے ہی ہے۔‘‘(سورہ ھود آیت نمبر 49)
’’تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ خو ف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘(سورہ الاعراف آیت نمبر 201
)
’’یہ وہ لوگ ہیں جوایمان لائے اور برائیوں سے پرہیزگاری کرتے تھے ”۔(سورہ یونس آیت نمبر 63)
دلی تقویٰ کا دار ومدار اس پر ہے کہ اللہ کے پیاروں بلکہ جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے اس کی تعظیم وادب دل سے کر ے۔ ”جو کوئی اللہ کی نشانیوں کی عزت و حرمت کرے تو یہ اس کے دل کی پرہیز گاری سے ہے ۔‘‘(سورہ الحج آیت نمبر 32)
انسان کبھی کبھار اپنی روزی روٹی کی تلاش میں شریعت کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے اور اس کو اس فعل کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی مال و دولت کا حریص انسان کی قوت تمیز سب کو کمزور بنا دیتا ہے اور وہ دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لیے ناجائز راستوں کو اختیار کر لیتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالی کے بعض نیک بندے تقویٰ کی اہمیت ، فضیلت اور خوف خدا کو دیکھتے ہوئے اپنی خواہشات کو اپنے اندر ہی دبا دیتے ہیں۔
سیدہ تبسم منظور ناڈکر، ممبئی
ایڈیٹر ،رسالہ غزلوں کا سفر
ایڈیٹر ،گوشہ خواتین و اطفال، اسٹار نیوز
ایڈیٹر، گوشہ خواتین و اطفال، ہندوستان اردو ٹائمز
ایڈیٹر، گوشہ خواتین و اطفال، نوائے ملت
9870971871