مضامین و مقالات

ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا: آ جائے سیاست میں اگر کھیل کا جذبہ موسیقاروں اور فن کاروں کے شہر پیرس میں اولمپکس کے دوران ہند و پاک کی کھیل صلاحیت اور جذبۂ رواداری کی کامیاب مشق ایک ساتھ دیکھی گئی۔

عرض داشت

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

ممتاز شہنائی نواز بسم اللہ خاں کا سب سے پسندیدہ کھیل فٹ بال تھا اور اس کھیل کی تعریف میں وہ کہتے تھے کہ فٹ بال سب سے راگ سے کھیلا جاتا ہے۔ ممتاز سماج وادی رَہ نما ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے ایک زمانے میں کہا تھا کہ ہندستان میں جب تک ہندستانی فلمیں اور فٹ بال باقی ہے، تب تک اس ملک میں خیر سگالی اور آپسی بھائی چارا قائم رہے گا۔ دونوں نے بھلے بہ طورِ مثال فٹ بال کے کھیل کا ذکر کیا ہو، غالباً یہ سارے کھیلوں پر منطبق ہوتا ہے۔ ان بزرگوں کی باتوں پر جنھیں کتابیں پڑھ کر یقین نہ آیا ہو، انھیں پیرس اولمپک میں ہندستانی وقت کے مطابق ایک بجے رات سے ایک گھنٹے کا جیولین تھرو کا مقابلہ دیکھنا چاہیے تھا۔ کھیل کی موسیقی، کھلاڑیوں کی رواداری اور محبت اور مذہب اور ممالک کی سرحدوں کا ٹوٹنا جیسے سارے واقعات آدھی رات بیتتے بیتتے ہو گئے۔ مقابلہ تو نیزہ پھینکنے کا تھا۔ کہنا چاہیے کہ ایک جنگی ہتھیار کا مظاہرہ تھا مگر جب امن کے نام پر، محبت کے نام پر اور خیر سگالی کے جذبے کے ساتھ وہ کام ہونے لگے تو سارا خلفشار اور انتشار ضائع ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر کے نوجوان لڑکے بھالا پھینک رہے تھے۔ کسی کو یہ شبہ نہیں ہوا کہ ان سے کسی کو کوئی زخم لگے گا۔ فن کاری ایسی کہ ایسا لگ رہا ہو کہ آسمان میں ان نیزوں اور ہواؤں کا ایک کھیل چل رہا ہے۔ نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے جیسے پانی میں مچھلیاں دھما چوکڑی کرتی ہیں، یہ نیزے اسی انداز سے اچھل کود اور اُڑ اُڑ کر اپنی منزل تک پہنچ رہے تھے۔ پروین شاکر کا مشہور شعر یاد آرہا تھا:
چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوش بوٗ
ہوا کے ساتھ سفر کا مقابلہ ٹھہرا
دودھیا روشنی میں نہائے ہوئے پیرس کے اس اسٹیڈیم میں ایک گھنٹے تک ہوا کے ساتھ سفر کا مقابلہ چلتا رہا۔
پورے ہندستان کو یہ معلوم تھا کہ اب کی بار پھر سے نیرج چوپڑا طلائی تمغے کے سب سے بڑے دعوے دار رہیں گے۔ ٹوکیوں میں انھوں نے ہندستان کی تاریخ میں ٹریک اینڈ فیلڈ کا پہلا سونا اپنے نام کیا تھا۔ وہاں پاکستان کے ارشد ندیم چوتھے مقام پر رہ گئے تھے۔ پیرس میں کئی ایسے کھلاڑی پھر سے ایک دوسرے کے مقابل تھے جو جاپان ہی نہیں اس کے علاوہ دیگر عالمی مقابلوں میں بھی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے آئے دن میدانوں میں ٹکراتے رہے ہیں۔ ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کی مسابقت تو بہت پرانی ہے۔ جونیر لیول کے مقابلوںمیں ۲۰۱۶ء سے ہی یہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں جہاں دونوں کی آپسی بھرنت ہوئی تھی، وہاں نیرج چوپڑا ہی فاتح ہوئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ پچھلے برسوںمیں ارشد ندیم نے نوّے میٹر سے زیادہ کے تھرو پیش کرکے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی کہ جیولین تھرو کا ٹوکیوں کا کارنامہ پیرس کے لیے مثال نہیں بن سکتا ہے اور جس نے پیرس کے سونے کی ناپ تول دیکھی، اگر نیرج چوپڑا وہیں رکے ہوتے تو پیرس اولمپک میں آخری چھے میں بھی ان کی جگہ نہیں بنتی۔ یہاں ساڑھے اٹھّاسی میٹر بھالا پھینکنے والے کو راندۂ درگاہ ہونا تھا۔ کھیل عجیب و غریب انداز میں شروع ہوا۔ نیرج چوپڑا نے چھے کوششوں میں پانچ بار فاؤل کیا اور صرف ایک درست تھرو کام کا رہا مگر اسی میں انھوں نے اتنی جان ڈال دی تھی کہ انھیں چاندی کا حق دار تسلیم کر لیا گیا۔ ارشد ندیم نے جب دوسرا تھرو کیا تو اسٹیڈیم کے تماش بین اور مختلف ملکوں کے مبصرین اوّلاً تو یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ یہ ہوا کیسے؟ ترانوے میٹر سے محض تین میلی میٹر پیچھے ان کا نیزہ زمین میں گَڑا۔ وہ نیزا کیا تھا، اولمپک کی سوا سو برس کی تاریخ کا ایک نیا باب قائم ہوا۔ اولپک رکارڈ بن کر تیّار ہو  گیا۔ ارشد ندیم نے ایک اور کوشش کی اور پھر اکانوے میٹر سے آگے بڑھ کر ایک اور تھرو کیا جواولمپک کی تاریخ کا دوسرا بڑا تھروثابت ہوا۔ کھیل میں کامیاب کوششوں کی دوری کے اعتبار سے انعام مقرر ہوتا تو اس دن ارشد ندیم اوّل اور دوم یعنی سونا اور چاندی دونوں کے حق دار ہو سکتے تھے۔ عالمی سطح کے مقابلے میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کیوں کہ تمام مقابل ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں اور محض فوٹو فنش سے ہی سارے فیصلے ہو پاتے ہیں۔
عالمی منچ پر کھیلوں کے شائقین کو سونے اور چاندی کے میڈل تھامے ہوئے ہندستان اور پاکستان کو دیکھنے کی تمنّا اب معدوم ہونے لگی تھی مگر اس دن سبز پرچم اور ترنگا پرچم کی یکجائی نے اخوت کی ایک نئی تاریخ لکھی۔ حکومتوں کے جبریہ نفرت سے بھرے بیانات کو بھول کر اوّل اور دوم آنے والے ان دونوں کھلاڑیوں نے ایک دوسرے سے محبت اور پیار کے احوال کچھ اس طرح سے بانٹے کہ حکومتوں سے بڑھ کر کھیل کا پیغام ساری دنیا تک پہنچا۔ دونوں کھلاڑی اپنے مقابلوں سے پہلے، مقابلوںکے دوران اور مقابلے کے بعدجس برادرانہ اور دوستانہ ماحول میں گھلے ملے رہے، اس سے برِ صغیر کی ایک نئی تاریخ تیّار ہو رہی ہے۔صبح ہوتے ہوتے اخبار اور ٹی وی چینلز نے پاکستان کے ارشد ندیم کے گھر اور ہندستان میں نیرج چوپڑا کے اہلِ خاندان کے بیچ پہنچ کر خاص طور سے ان کی والدہ محترمہ سے سونے اور چاندی کے مسئلے پر گفتگو شروع کی۔ ایک اَن پڑھ دیہاتی پنجابِن ارشد ندیم کی ماں اور ہریانوی جاٹ چوپڑا کی ماں۔ کسی کو ٹھیک سے نہ ہندی بولنے آتی ہے اور نہ کوئی اردو بولنے کی مشق ہے لیکن دونوں نے کھلے دل سے یہ کہا کہ دونوں ہمارے بیٹے ہیں اور دونوں فتح یاب ہوئے۔ نیرج چوپڑا کی والدہ نے تو یہ بھی کہا کہ اس کی چاندی کا تمغہ مجھے سونے کی طرح ہی لگ رہا ہے اور جسے سونا ملا ہے، وہ بھی میرا بیٹا ہی ہے اور دونوں ساتھ ساتھ کھیلتے ہیں۔ ارشد ندیم کی والدہ نے کہا کہ دونوں دوست بھی ہیں اور دونوں میرے بیٹے ہیں۔ ٹی وی چینلز کے بعض افراد دونوں فاتحین کے گھروں تک اس لیے پہنچے تھے کہ کوئی اس پر تناؤ پیدا کرے کہ پاکستان کے کھلاڑی نے ہندستانی کھلاڑی کو ہرا دیا یا ہندستان کو پاکستان نے چاروں خانے چِت کر دیا مگر اس کے بالکل برعکس ان عورتوں نے جواب دیے اور اس معصومیت نے سیاست کے کتنے کھیل بگاڑ دیے۔ سوشل میڈیا میں ایسے عنوانات لگنے لگے کہ پیرس میں بیٹے کھیلے مگر جیتیں ان کی مائیں۔ واقعتا ایسا ہی ہوا۔
پاکستان کو تو چالیس برس کے بعد تو کوئی سونے کا تمغہ ملا ہے اور ٹریک اینڈ فیلڈ میں تو پچھتر سال میں تو پہلا سنہرا موقع ہے۔ پاکستان کی پچیس کروڑ آبادی ہے  اور ہندستان کی ۱۴۰؍ کروڑ مگر طلائی تمغوں میں دنیا کے ملکوں کے سامنے ہم طفلِ مکتب بھی نہیں ہیں۔ دنیا کے بڑے اداروں اور ملکوں میں اپنی ترقی اور استعداد کے لیے عالمی سطح کے انعامات کی گنتی اہمیت کی حامل ہے۔ کس ملک کو کتنے نوبل انعامات ملے، اولمپک میں کتنے سونے چاندی آئے اور کتنے عالمی کپ جیتے گئے، اس سے ان ملکوں کو اپنی پہچان کے تعین کا موقع ملتا ہے۔ ہندستان میں کپل دیو کی ۱۹۸۳ء کی جیت کے سبب کرکٹ کی ایسی مقبولیت ہوئی کہ حکومتِ ہند کی کسی مدد کے بغیر عالمی معیار کا کرکٹ پھل پھول رہا ہے مگر یہ بات کسی دوسرے کھیل کے لیے کون کہہ سکتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے تک ہمارے پہلوانوں نے ہندستان کی حکومت اور اپنے ایسوسی ایشن سے جتنی لڑائی کرنی پڑی، اس کے باوجود ان کا ٹھیک سے کوئی سننے والا نہیں تھا۔ خرچ کرنا اور سہولیات پیدا کرنا تو کوئی چیز ہی نہیں ہے، ہاکی کی کھلاڑیوں کو کانسہ لینے کے عوض پندرہ لاکھ روپے کا انعام بھیک کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ وہ کھلاڑی اس رقم سے کتنے دن زندگی کے گزار سکیں گے۔ نیرج چوپڑا تو ذاتی سطح پر اسپانسر شپ لے کر زیادہ سے زیادہ وقت فرانس میں ٹرینگ میں دیتا ہے، اس لیے وہ اس طر ح کے تمام جھمیلوں سے محفوظ ہے۔
ارشد ندیم کے بارے میں پہلے بھی اخباروں میں خبر آتی رہی ہے۔ اپنے جیولین خریدنے کے لیے اسے چندا کرنا پڑا، کراؤڈ فنڈنگ کرنی پڑی اور نیرج چوپڑا نے گذشتہ چار پانچ برسوں میں اس کی مدد نہ کی ہوتی تو پتا نہیں وہ کہاں ہوتا۔ اس کی پریکٹس کے لیے کوئی ٹریک نہیں تیّار کیا گیا۔ وہ اپنے گانو کے کھیتوں میں پریکٹس کرتا رہا۔ ہماری قوم کے لیے اس سے زیادہ باعثِ شرم کیا ہو کہ ایسی بے دردی اور عدم معاونت کے ماحول میں ہمارے نوجوان آسمان چھو رہے ہیں اور اپنے اس ملک کا پرچم دنیا بھر میں لہرا رہے ہیں جس ملک نے ضرورت کے وقت ان کھلاڑیوں کی ایک ذرا مدد نہیں کی۔ اب رسمی طور پر انعامات کی بارش ہوگی ہی، اس سے پہلے ہندستان اور پاکستان دونوں کو اسپورٹس کلچر کا شعور پیدا کرنا چاہیے اور سب سے بڑھ کر انفراسٹرکچر کے فروغ کے کاموں میں مالی معاونت کرنی چاہیے۔ شہروں سے دور رہنے والے کھلاڑیوں کو جب تک ان کے علاقے میں سہولیات نہ دی جائیں گی، تب تک وہ آسانی سے آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ انھیں مالی طور پر ایک پُر اعتماد زندگی مہیّا کرا کر اسپورٹس اکادمی میں ڈال دیا جائے تو ایک نہیں دس ارشد ندیم اور دس نیرج چوپڑا پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ اچھا ہوا کہ اس اولمپکس میں سب نے کھیل کو کھیل کی طرح سے ہی رہنے دیا۔ ملکوں کے مقابلے کے طور پر اسے پیش نہیں کیا۔ بہ قول داکٹر ندیم ظفر جیلانی:
آ جائے سیاست میں اگر کھیل کا جذبہ
حل ہو کے رہیں گے جتنے ہیں دیرینہ مسائل
دنیا بنے خوش حال، صحت مند و توانا
کھیلوں پر اگر خرچ ہوں جنگوں کے وسائل
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
[email protected]

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button