
شیطانوں کے ہجوم —
ودود ساجد
(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
اس ہفتہ کا مضمون دوسرے موضوع پر تیار ہوا تھا۔ اس کی آخری سطور پر کام باقی تھا کہ زیر نظر موضوع نے اپنی طرف کھینچ لیا۔
11 اپریل کی شام روزنامہ ’دینک جاگرن‘ کی سینٹرل ڈیسک سے ایک محترمہ کا فون آیا کہ رمضان مبارک کالم کے تحت روزہ پر آپ کا ’لیکھ‘ چاہئے۔ میں نے کہا کہ آج تو مشکل ہے‘ کل دے سکتا ہوں۔ خاتون نے لجاجت بھرے انداز میں کہا کہ سر آپ کا لیکھ آج ہی چاہئے‘ بس 200 الفاظ میں لکھنا ہے۔میں نے وعدہ کرلیا اور آدھے گھنٹہ بعد 312 الفاظ پر مشتمل ایک مختصر مضمون ہندی میں لکھ کر بھیج دیا۔
یہ پہلی بار نہیں تھا کہ جاگرن سے کسی موضوع پر مضمون کی فرمائش آئی ہو۔ اس سے پہلے ایک دو حساس موضوعات پر مجھ سے تفصیل سے مضامین لکھوائے گئے ہیں۔ پچھلے سال ’حجاب‘ جیسے حساس موضوع پر جاگرن نے مختلف مبصرین کی مختلف آراء شائع کیں تو مجھ سے بھی کہا گیا کہ آپ کو جو لکھنا ہے وہی لکھیں‘ اور وہی موقف سامنے رکھیں جو آپ کا ہے‘ اس میں کسی رو رعایت سے کام نہ لیں۔میں نے کہا کہ میں حجاب کے معاملہ میں شریعت اور مسلمانوں کے مجموعی موقف کے خلاف نہیں جاسکتا۔ جواب آیا کہ ہم وہی چاہتے ہیں کہ ہمارے لاکھوں قارئین کے سامنے حجاب کے تعلق سے وہ بات بھی جائے جو آپ کو درست لگتی ہے۔
میں نے عین شرعی احکامات‘ حالات‘ تقاضوں اور ضرورت کے اعتبار سے حجاب پر ہندی زبان میں جو لکھا جاگرن میں لفظ بہ لفظ شائع ہوا۔ میں نے حجاب کے مخالف شرپسندوں پر سخت تنقید کی اور سوال کیا کہ اگر یہ معاملہ حجاب اوڑھنے والی بچیوں اور اسکول وکالج انتظامیہ کے درمیان تھا تو ان اوباش قسم کے نوجوانوں کا حجاب سے کیا لینا دینا؟ وہ بیچ میں کیوں آئے؟
میرے اس مضمون اور میرے موقف کی نہ صرف یہ کہ ستائش کی گئی بلکہ اسے انقلاب کے ذکر کے ساتھ کلیدی طور پر شائع کیا گیا۔مجھ سے کہا گیا کہ جس انداز سے آپ نے پورا قضیہ سامنے رکھا ہے اس انداز سے لوگ نہیں رکھتے۔
جاگرن ہر برس رمضان میں پورے مہینے ’رمضان مبارک‘ کالم کے تحت مختلف شخصیات کی آراء شائع کرتا ہے۔لوگ اپنے اپنے طور پر روزہ کی توجیہات پیش کرتے ہیں۔لیکن جس طبقہ کا عقیدہ اسلام نہیں ہے اسے آپ خالص عقیدہ کی بنیاد پر روزہ کی فرضیت اور افادیت نہیں سمجھاسکتے۔ اسے سائنسی اور سماجی توجیہات کے ذریعہ روزہ کی افادیت بتانے کا ہی کوئی فائدہ ہوگا۔۔
اسلام کوئی’یک رخی‘ مذہب نہیں ہے۔ وہ ایک مکمل ہمہ جہتی نظام ہے۔ وہ تمام خرابیوں اور نقائص سے پاک ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح ذات باری تعالی اور نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی مکمل و اکمل ہے۔اس لئے روزہ جیسے حکم کی فرضیت محض مذہبی نہیں ہوسکتی۔ تسلیم کہ دائرہ اسلام میں داخل ہرفرد کیلئے الله اور اس کے رسول کا ہر حکم لازمی طور پر بلاچون و چرا واجب العمل ہے۔لیکن ہر حکم کی بلاشبہ سائنسی اور سماجی توجیہات اور اس کی افادیات بھی موجود ہیں۔ہمیں موقع محل کے اعتبار سے توجیہات کا استعمال اور اظہار کرنا چاہئے۔
ملک میں مسلمانوں کے اوقاف کا مسئلہ اٹھا تو میں نے جاگرن میں مسلمانوں کے درست موقف کو سامنے رکھا۔کچھ مسلم مبصرین ایسے بھی تھے جنہوں نے حجاب کی طرح وقف کے اشو پر بھی حدسے تجاوز کیا اور وہ بھی لکھ دیا جو’دوسرے‘ بھی نہیں لکھتے۔ شریعت کا مذاق اڑانے والوں کو ہرجگہ ’شاباشی‘ مل جاتی ہے اور وہ اسی کو اپنی قیمت سمجھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب آپ شریعت کو غیروں کی فہم کے پیرایہ میں رکھ کر پیش کرتے ہیں تو وہ اس کی افادیت اورمعقولیت کا اعتراف نہ بھی کریں تب بھی وہ اس کی مخالفت نہیں کرتے۔یا مخالفت کی شدت میں کمی لے آتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ دوسروں کواسلام پہنچانے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
مجھے اس موقع پر پچھلے سال کے رمضان کی 27ویں شب کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔افطار اور مغرب کے فوراً بعد گھر کیلئے نکلنا تھا۔اتفاق سے اس روز نہ ڈرائیور اور نہ گاڑی۔ کیب والے بھی ہڑتال پر تھے۔ جاگرن کے ایک غیر مانوس ساتھی نے آدھا راستہ طے کرادیا۔عشاء کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا جارہا تھا اور کوئی کیب اور آٹو نہیں مل رہا تھا۔ میں نے ایک پیٹرول اسٹیشن کے باہر کھڑی ہوئی ایک کیب کو امید بھری نظروں سے دیکھا اور اس کے آگے جاکر ڈرائیور سے کہا کہ بھائی ’مہارانی باغ‘ تک چھوڑ دوگے؟ اس نے درشتی کے ساتھ نفی میں جواب دیتے ہوئے گاڑی آگے بڑھادی۔اسی اثناء میں میرے منہ سے نکل گیا کہ بھائی جتنے پیسے کہوگے دیدوں گا‘ میری نماز نکل جائے گی۔آگے جاکر اس نے بہت زور سے بریک لگایا اور ہاتھ کے اشارہ سے بلاکر بڑی رعونت سے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کو کہا۔جب میں بیٹھ چکا اور اس نے گاڑی چلادی تو مجھے علم ہوا کہ وہ نشہ میں ہے اور اس کے گلے میں بجرنگ دل کا پٹہ پڑا ہوا ہے۔
اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے آپ کو کیوں بٹھایا؟ میں کیا جواب دیتا‘ میں نے کہا کہ بھائی آپ کا شکریہ! اس نے کہا کہ مجھے مسلمانوں سے نفرت ہے۔ مگر میں نے آپ کو اس لئے بٹھالیا کہ آپ نے کہا کہ میری نماز نکل جائے گی۔ اب میں اس کی گرفت میں تھا۔ اسٹیئرنگ اس کے ہاتھوں میں اور ایکسیلیٹر اس کے پائوں تلے۔ وہ گاڑی بھی بہت تیز اور بے ترتیب چلارہا تھا۔
اس نے پھر پوچھا کہ کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ ایک اخبار میں کام کرتا ہوں۔اس نے کہا کہ پھر تو جہاں گیر پوری اور اوکھلا کا پتہ ہوگا؟ (ان دنوں دہلی کے جہاں گیر پوری میں فساد ہوا تھا اور بلڈوزر بھی چل رہا تھا)۔ میں نے کہا کہ ہاں جانتا ہوں۔اس نے کہا کہ سالوں نے پاکستان بنا رکھا ہے۔
اب میری مشکل بڑھ گئی تھی۔خاموش رہوں یا بولوں۔اس نے پھر پوچھا کہ جہاں گیر پوری اور اوکھلا کے آتنکیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے ہمت کرکے پوچھا کہ کیا ان علاقوں میں رہنے والے کسی مسلمان نے آپ کو کچھ کہا ہے؟اس نے کہا کہ سالوں نے آفت مچا رکھی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیسی آفت؟ تو وہ کچھ گالیاں دے کر خاموش ہوگیا۔
اب میں نے مورچہ سنبھالا۔ کچھ دیر تک سمجھایا۔سیاسی چالبازوں کی حرکتوں سے واقف کرایا۔آدم وحوا کا ذکر کیا۔قرآن کے کچھ انسانی پیغامات سنائے۔ میری منزل آتے آتے وہ رام ہوگیا۔میں نے اپنے بیٹے کو گاڑی لانے کیلئے فون کردیا تھا۔اس نے کہا کہ آپ بھی مسلمان ہو لیکن مجھے آپ سے نفرت نہیں ہوئی لیکن جہاں گیر پوری اور اوکھلا والوں سے مجھے سخت نفرت ہے۔
میں شکریہ اداکرکے اترنے لگا۔ اس نے کہا کہ جب تک مہارانی باغ آپ کا بیٹا آپ کو لینے نہیں آجائے گا میں آپ کو اترنے نہیں دوں گا۔بہرحال جب میں نے بیٹے کو دیکھا تو اس سے کہا کہ میرا بیٹا آگیا ہے اب میں اتر رہا ہوں۔وہ بھی نیچے اترا اور میرے پائوں چھونے لگا۔اس نے کہا کہ میرے لئے بھی پرارتھنا کرنا۔
روزہ پر جاگرن میں شائع ہونے والے میرے مختصر مضمون کو سوشل میڈیا پر بھی میرے ہزاروں مداحوں نے بہت سراہا ہے۔میں نے لکھا تھا کہ بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ آخرصبح سے شام تک انسان کو بھوکا پیاسا رکھ کر الله کو کیا حاصل ہوتا ہے؟ میراجواب یہ ہے: روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں ہے‘ جس مقدس مہینہ میں روزہ رکھا جاتا ہے اسے رمضان کہتے ہیں۔ رمضان عربی کا لفظ ہے۔اس کے معنی ’رک جانا‘ ہے۔ یعنی ایک طرف جہاں چند گھنٹوں کیلئے کھانے پینے سے رک جانا ہے وہیں دوسری طرف لڑنے جھگڑنے‘ جھوٹ بولنے‘ کم تولنے‘ دھوکہ دینے‘ کسی کو تکلیف پہنچانے اور کسی کا حق مارنے سے بھی رک جانا ہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عام دنوں میں جب روزہ نہ ہو‘ ان تمام برے کاموں کی چھوٹ مل جاتی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس پورے مہینے میں ان تمام برے کاموں سے رکنے اور اچھے کاموں کو کرنے کی پریکٹس کرائی جاتی ہے تاکہ سال کے باقی 11 مہینوں میں بھی وہ اسی کا عادی رہے۔ اسے مشق کرائی جاتی ہے کہ وہ غصہ کی بات پر بھی غصہ نہ ہو‘ اسے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے تاکہ اسے غریبوں اور ناداروں کے دکھ درد کا بھی احساس ہو‘ اگر روزہ رکھ کر اس کے اندر غریبوں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہ ہو تو اس کا یہ روزہ بلاشبہ محض بھوکا پیاسا رہنا ہوگا۔
مجھے جہاں گیر پوری کا تو علم نہیں لیکن اوکھلا کے بارے میں جو کچھ جانتا ہوں اس کی روشنی میں اس ’بجرنگ دل‘ کے حامی کیب ڈرائیور کو کیسے غلط ثابت کروں۔ پچھلی تین دہائیوں میں ہزاروں واقعات کا شاہد ہوں۔ محض اسی ایک مہینہ میں تین واقعات تو میرے دفتری ساتھیوں کے ساتھ پیش آئے ہیں۔
اوکھلا کی ایک بڑی مسجد کے موذن کے بیٹے نے میرے دفتری ساتھی کے نوعمر بیٹے کو محض اس لئے لوہے کی راڈ سے مارا پیٹا کہ ایک روز پہلے اس نے موذن کے بیٹے کو تراویح کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے سے روکا تھا۔میرے ایک اور دفتری ساتھی کی موٹر سائیکل کو اس علاقہ کا مکین ایک آٹو والا اس زور کی ٹکر مارکر بھاگ گیا کہ کئی دن تک وہ کام نہ کرسکے۔ ایک اور سینئراور بردبار ساتھی کو پیدل چلتے ہوئے خالص مسلم آبادی میں نوعمر اوباشوں نے پہلے موٹر سائکل سے ٹکر ماری اور پھرانہی کو مل کر سب نے پیٹ ڈالا۔
ایسے ایسے نہ جانے کتنے درجن واقعات ہر روز اوکھلا کی خالص مسلم بستیوں میں ہورہے ہیں۔ پھل فروشوں اور دوکاندراوں نے لوٹ مچا رکھی ہے۔مسجدوں میں تراویح ہوتی رہتی ہے اور باہر اوباش نوجوانوں کے ٹولے ہڑدنگ مچاتے رہتے ہیں۔ اپنی موٹر سائیکلوں میں پریشر ہارن لگواکر بلا ضرورت بجاتے پھرتے ہیں۔ بلٹ موٹر سائیکل کا سائلنسر نکال کر تیز رفتار سے چلاتے ہیں جس سے آواز انتہائی خطرناک ہوجاتی ہے۔ اس آواز سے بچے اور دل کے مریض بوڑھے ڈرجاتے ہیں۔ چوک چوراہوں اور مسجدوں کے آگے ٹولیاں بناکر راستہ روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ایسے لوگوں پر الله کے رسول نے پوری کائنات کی لعنت کی وعید سنائی ہے۔ آخر یہ کون ہیں؟ کیا یہ کسی دوسری قوم کے لوگ ہیں یا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں؟
مسجدوں میں ائمہ انہی کو تو خطاب کرکے سمجھا سکتے ہیں جو مسجدوں میں آتے ہیں۔جو نوجوان سڑکوں پر غنڈہ گردی مچاتے پھر رہے ہیں انہیں کون سمجھائے گا؟ آخر ان کے ماں باپ بھی تو اسی علاقے میں رہتے ہوں گے؟ رمضان سے عین پہلے جو خوفناک زلزلہ آیا تھا اس کے جواب میں مسلم بستیوں میں قہقہے‘ شوروغوغا اور ہائو ہو دیکھنے کو ملا۔پڑوسی ملک کی پارلیمنٹ میں ایک ہندو ایم پی کی تقریر سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے۔اس نے رمضان کے دوران اصل شیطان کے مقید ہونے اور کروڑوں شیطانوں کے دندناتے پھرنے کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ ہندوستان کی مسلم بستیوں کے نقشہ سے ذرہ برابر مختلف نہیں ہے۔۔۔۔