
روزہ: جسمانی و روحانی امراض سے نجات کا ذریعہ
حکیم نازش احتشام اعظمی
یہ کائنات ازل سے ایک عظیم حکمت و دانائی کے تحت مسخر کی گئی ہے۔ اس کا ہر ذرہ، ہر حرکت اور ہر سکون ایک ایسے الٰہی نظام کی شہادت دیتا ہے جس میں نہ کوئی عبثیت ہے، نہ بے ترتیبی، نہ ہی کوئی تضاد۔ قرآن نے یہی حقیقت بیان کی:
"وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا *لَاعِبِينَ” (الدخان: 38) "اور ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، کھیل تماشے کے لیے پیدا نہیں کیا۔”*
یہی اصول انسانی زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ جو بھی حکم نازل کیا گیا، وہ محض آزمائش یا مشقت نہیں بلکہ ایک فطری اور متوازن ضابطہ ہے۔ روزہ بھی اسی حکیمانہ نظام کا حصہ ہے، جو نہ صرف تزکیۂ نفس کا ذریعہ ہے بلکہ ایک طبی، سائنسی، نفسیاتی اور روحانی معجزہ بھی ہے۔
یہ کوئی معمولی عبادت نہیں، بلکہ ایک ایسا ہمہ جہت عمل ہے جو جسمانی تطہیر، ذہنی یکسوئی، روحانی بالیدگی اور طبی فوائد کی ایک جامع تصویر پیش کرتا ہے۔ روزہ انسانی وجود کے تمام پہلوؤں کو ایک نئے ارتقائی مرحلے میں داخل کرتا ہے، جہاں نہ صرف جسمانی صحت بحال ہوتی ہے بلکہ باطن بھی ایک نئی توانائی سے سرشار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے روزے کو بطورِ علاج و رحمت پیش کیا:
*”وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ” (البقرة: 184) "اور اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔”*
آئیے، اس الہامی عمل کی حکمتوں کا سائنسی، طبی اور روحانی زاویے سے جائزہ لیتے ہیں۔
*روزہ اور سائنسی حکمتیں*
انسانی جسم ایک متحرک لیبارٹری ہے، جہاں ہر لمحہ مختلف کیمیائی اور حیاتیاتی عوامل وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ جدید سائنس نے روزے کے جو فوائد دریافت کیے ہیں، وہ نہایت حیران کن ہیں۔ ان میں خلیاتی تجدید (Cellular Regeneration)، مدافعتی نظام کی مضبوطی، جسمانی زہریلے مواد کی صفائی، اور دماغی صحت میں بہتری جیسے عوامل شامل ہیں۔
*1. آٹو فیجی: خلیاتی صفائی کا معجزہ*
سائنس نے یہ انکشاف کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں آٹو فیجی (Autophagy) نامی ایک حیرت انگیز عمل شروع ہوتا ہے، جو درحقیقت خلیاتی سطح پر صفائی اور تجدید کا نظام ہے۔ اس عمل میں جسم کے خلیات اپنے اندر موجود نقصان دہ اور غیر ضروری اجزاء کو تحلیل کر کے نئی توانائی حاصل کرتے ہیں، جس سے بڑھاپے کے اثرات کم ہوتے ہیں، بیماریاں ختم ہوتی ہیں اور جسم توانا و متحرک رہتا ہے۔
یہ وہی تحقیق تھی جس پر جاپانی سائنس دان یوشینوری اوسومی کو 2016 میں نوبل انعام دیا گیا۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ چودہ سو سال قبل قرآن نے ہمیں پہلے ہی اس حقیقت سے آگاہ کر دیا تھا کہ روزہ رکھنے میں بہتری، حکمت اور جسمانی فائدہ پوشیدہ ہے۔
*2. مدافعتی نظام کی مضبوطی*
انسانی جسم کا مدافعتی نظام (Immune System) مختلف وائرس، بیکٹیریا اور دیگر بیماریوں سے مقابلہ کرنے کے لیے وقف ہے۔ مگر مسلسل کھانے اور ناقص غذا کی زیادتی سے یہ نظام کمزور ہو جاتا ہے۔
طبی تحقیق ثابت کر چکی ہے کہ روزہ رکھنے سے وائٹ بلڈ سیلز کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، نئے مدافعتی خلیے بنتے ہیں اور جسم زیادہ مؤثر انداز میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے روزے کے بارے میں فرمایا:
*”صُومُوا تَصِحُّوا”*
"روزہ رکھو، صحت مند ہو جاؤ گے۔”
*3. نظام ہضم کی بحالی*
معدہ، جو مسلسل غذا کو ہضم کرنے میں مشغول رہتا ہے، روزے کے ذریعے ایک وقفہ حاصل کرتا ہے، جس سے معدے کی جھلی (Mucosal Lining) از سر نو مضبوط ہوتی ہے، ہاضمہ بہتر ہوتا ہے، جلن، تیزابیت اور السر جیسے مسائل کم ہو جاتے ہیں۔
*روزہ اور نفسیاتی فوائد*
*1. ذہنی سکون اور ڈپریشن سے نجات*
آج کی دنیا میں ذہنی دباؤ، پریشانی اور ڈپریشن عام ہو چکے ہیں۔ مگر سائنسی تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ روزہ رکھنے سے ڈوپامائن، سیروٹونن اور اینڈورفنز جیسے دماغی کیمیکلز متوازن ہو جاتے ہیں، جو ذہنی سکون اور خوشی کا باعث بنتے ہیں۔
اسی لیے رمضان کے دوران ایک روحانی سکون، قلبی راحت اور ذہنی یکسوئی محسوس ہوتی ہے۔
*2. یادداشت اور ذہنی صلاحیت میں اضافہ*
روزے کے دوران دماغی خلیات کی حفاظت کے لیے ایک خاص پروٹین بی ڈی این ایف (Brain-Derived Neurotrophic Factor) زیادہ مقدار میں پیدا ہوتا ہے، جو یادداشت بہتر بنانے، سوچنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے اور نیورونز کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صوفیا کرام اور اہل معرفت ہمیشہ کم کھانے اور ریاضت پر زور دیتے تھے، کیونکہ کم کھانے سے ذہن زیادہ بیدار اور روح زیادہ لطیف ہو جاتی ہے۔
*روزہ اور روحانی حکمتیں*
*1. تقویٰ اور تزکیۂ نفس*
روزے کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا:
*”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ” (البقرة: 183)*
"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جیسے تم سے پہلے والوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔”
روزہ انسان کو خواہشاتِ نفس پر قابو پانے، ضبطِ نفس، اور روحانی بالیدگی کی وہ منازل طے کراتا ہے، جو عام حالات میں دشوار ہوتی ہیں۔
*2. دعا اور قربِ الٰہی*
روزے کے دوران دل کی کیفیات بدلتی ہیں، روح تروتازہ ہوتی ہے اور دعا زیادہ اثر انگیز ہو جاتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
*”للصائم دعوة لا ترد”*
"روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی۔”
یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کی دعاؤں میں ایک خاص نورانیت اور اثر پذیری ہوتی ہے۔
*نتیجہ: روزہ—کائنات کا ایک ہمہ گیر نظام*
روزہ صرف ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک مکمل طبی، سائنسی، نفسیاتی اور روحانی معجزہ ہے۔ یہ جسم کی صفائی، ذہن کی بہتری، روح کی لطافت اور اخلاقی بلندی کا ایک حسین امتزاج ہے۔
جدید دنیا کی پیچیدہ بیماریوں، غیر متوازن طرزِ زندگی اور اخلاقی بحرانوں کا حل اسی فطری عبادت میں مضمر ہے، جو ہمیں صدیوں قبل عطا کی گئی تھی۔
یہ وہی الہامی حکمت ہے جسے اگر جدید انسان صحیح معنوں میں اختیار کرے تو نہ صرف جسمانی بیماریوں بلکہ روحانی پژمردگی اور ذہنی پریشانیوں سے بھی نجات پا سکتا ہے۔