مضامین و مقالات

صبح صبح اخبار آیا ہے

دیش و دنیا سے باخبر کرنے صبح سویرے دروازے پر اخبار آیا ہے۔ اخبارات ارد گرد سےبیداری کا اہم ذریعہ بھی ہے اور جانکاریوں کا خزینہ بھی۔ اس کی سرخیاں ، اس کے مضامین اور اس کی خبریں ہمیں سیاسی ، سماجی اور اقتصادی طور پر خبردار کرتی ہیں کہ ہم کس طرح کا لائحہ عمل اپنائیں اور ہماری اپنی داخلی اور خارجی زندگی کے کیا منصوبے ہوں۔ ایک وقت تھا جب اخبار کے بغیر زندگی بہت پھیکی پھیکی سی لگتی تھی، لیکن تغیر زمانہ نے اخبارات کی اہمیت کو کم کم کر دیا۔اب تو یہ بھی کہا جانے لگا کہ پہلے اخبارات چھپ کے بکتے تھے ،اب بک کر چھپتے ہیں، اور اخبارات اب سبسکرائبر ڈھونڈتے ہیں ، قارئین نہیں۔ قارئین کی ایک بڑی تعداد وہاٹس ایپ اور پورٹل کی جانب شفٹ کر چکی ہے۔ انٹرنیٹ کے زمانہ میں خبروں کی ترسیل کے کئی ذرائع سامنے آچکے ہیں ۔ ڈیجیٹل میڈیا کے بھی اپنے کئی رنگ و ڈھنگ ہیں۔ بھارت میں ٹی وی میڈیا اپنا وقار کھوچکا ہے، ایک زمانہ میں اسے ایڈیٹ باکس کہا جا رہا تھا اب وہ ایڈیٹ کا آماجگاہ بن چکا ہے۔ ایسے میں اب بھی پرنٹ میڈیا پر لوگوں کاکچھ اعتماد بنا ہوا ہے ، تاہم پرنٹ میڈیا بھی اپنے اشتہاری نظام پر اتنا منحصر ہو چکا ہے کہ یہ تفریق کرنا مشکل ہے کہ اخبارات میں خبر کون سی ہے اور اشتہار کون سا ہے، چونکہ اخلاقیات اب غائب ہو چکی گوریا کی طرح ہوگیا ہے اس لئے اس بحث میں پڑنا فضول ہے کہ اخبارات کی شہ سرخیوں کا کھیل خبروں کی تاثیر کو کتنا بڑا زخم دے جاتا ہے ۔ گزشتہ چند سالوں میں ٹی وی نیوز کا کام دنگا اور نفرت پھیلانا ہو گیا ہے اس لئے پرنٹ میڈیا میں کم سے کم ایسی خبریں مل جاتی ہیں جو واقعی وقوع پذیر ہوتی ہیں۔یہ الگ بحث ہے کہ اس خبر کو ایڈیٹر صاحبان کس صفحے یا کتنے کالم میں جگہ دیتے ہیں۔حیرت تو یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی خبروں کی اشاعت یا ترسیل کا فرق اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ یہ سمجھنے میں بہت دیر لگتی ہے کہ چھپی ہوئی خبریں صحیح ہیں یا بولی جانی والی خبریں درست ہیں۔

آج اورکل کی پرنٹ میڈیا کی خبروں پر نظر ڈالئے اور پھر اسی خبروں کو الیکٹرانک میڈیا میں تلاش کیجئے، وہاں اس کا نام و نشان نہیں ملے گا، جب کہ وہ انتہائی اہم خبریں ہیں، مگر کارپوریٹ اسے اس لئے نشر نہیں کر سکتا کہ ایسی خبروں کو چھپانے کے لئے انہیں پیسے ملتے ہیں۔ گویا پہلے خبروں کو منظر عام پر لانے کا کام میڈیا کا تھا اور اب خبروں کو منظر سے غائب کرنے کا کام میڈیا کا ہو گیا ہے۔ پہلے ہم انگریزی روزنامہ ٹیلی گراف کے اس خبر پر نظر ڈالتے ہیں ، جس میں آئی آئی ایم بنگلور کی فیکلٹی نے کارپوریٹ گھرانےسے یہ درخواست کی ہے کہ میڈیا کو فنڈ دینے سے گریز کریں تاکہ ان کے نفرت پھیلانے کے عمل پر پابندی لگائی جا سکے۔ خبر میں کئی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہندوستان کے کئی علاقوں میں نفرت کا زہر بونے میں میڈیا نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ اس کی اس بداعمالیوں کی وجہ سے بھارت میں نفرت کا کاروبار بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹیلی گراف کی یہ خبر چونکہ کارپوریٹ میڈیا کے ہی خلاف ہے تو اس خبر کو ٹی وی چینلوں پر آنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ نفرت کا یہ کھیل کارپوریٹ کی طرف سے ہی کھیلا جارہا ہے تو ایسے میں اس کی فنڈنگ بند کیسے ہوگی ، لیکن بھارت کو ٹوٹتا ہوا دیکھ کر کم سے کم آئی آئی ایم نے ایک احتجاج تو ضرور درج کرائی، جسے پرنٹ میڈیا نے اجاگر کیا نہیں تو اب الیکٹرانک میڈیا بالکل دنگائی ماحول سازی میں ملوث ہو چکا ہے۔
دوسری خبر ہندی روزنامہ ہندوستان میں شائع ہوئی جس کا عنوان ہے بھارت چھوڑو آندولن کی برسی پر حراست میں لئے گئے مہاتما گاندھی کے پر پوتے تشار گاندھی۔ اس خبر میں تشار گاندھی نے کہا کہ ہمیں اپنے پردادا اور با پر فخر تھا کہ جنہوں نے جابر حکمراں سے بھارت کو آزاد کرانے میں اہم رول ادا کیا اور کئی بار جیل گئے۔ میں پہلاآدمی ہوں جسے اس تاریخی واقعات کو یاد کرنے کے لئے جاتے وقت گرفتار کر لیا، یہ ویسا ہی جیسا کہ انگریز کیا کرتے تھے۔اب یہ خبر آپ کو الیکٹرانک میڈیا میں کہیں نظر نہیں آئے گی ، کیونکہ الیکٹرانک میڈیا پہلے سے طے کرچکا ہوتا ہے کہ بھارت چھوڑو کا مطلب مودی سرکار ہے۔بات صرف کارپوریٹ میڈیا کی ہی نہیں بلکہ سرکاری میڈیا خاص کر سنسد ٹی وی، جو پارلیمنٹ میں ہونے والی کارروائیوں کو لائیو ٹیلی کاسٹ کرتا ہے وہ بھی اب اتنا بے ایمان ہوچکا ہے کہ اس کی مثال آج ہی کے ایک انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے ایک خبر سے ملتی ہے۔ عدم اعتماد تحریک پر بحث کرتے ہوئے اپنی معطلی کے بعد واپس آئے راہل گاندھی منی پور اور نوح ، گروگرام میں ہوئے فسادات پر مودی پر تیکھا حملہ کر رہے تھے ، مگر راجیہ سبھا ٹی وی کا کیمرہ ان کی جگہ یا تو اسپیکراوم پرکاش بڑلا کو قید کر رہا تھا یا اسکرین پر بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ کی کارگزاریوں کا اشتہار (اسٹیکر ) دکھا رہا تھا۔ گویا راہل کی بات دیش دنیا سن نہ سکے اس لئے اسے نظر انداز کرنے کا اس سے اچھا موقع اور وسیلہ نہیں تھا کہ وہ کچھ بھی بولیں مگر دیش ان کو سن نہ سکے۔ گویا ایک طرف تشار گاندھی اور دوسری طرف راہل گاندھی الیکٹرانک میڈیا کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
ایک اور خبر دیکھئے جو ٹائمس آف انڈیا میں شائع ہوئی جس میں ایک سابق بی جے پی رکن نے ایک مسلم لڑکےکو صرف اس لئے بے عزت کیا کہ وہ ندی کے گھاٹ پر چہل قدمی کر رہا تھا۔ اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ وہاں پر نہاتی ہوئی عورتوں کو دیکھ رہا تھا اور اس کا ویڈیو بنا رہا تھا۔ یہ امر مسلم ہے کہ بھارت کی ندیوں کے گھاٹ پر ہزاروں لوگ ہوتے ہیں اور صبح کی آب و ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اس میں مسلمان اور ہندو سب شامل ہوتے ہیں ، لیکن ماحول ایسا بنا دیا گیا کہ ٹرین میں سیکورٹی گارڈ مسلمانوں کو تلاش کر کے گولیاں مار دیتا ہے اور گھاٹوں پر مسلمان کو دیکھ کر اسے زدو کوب کیا جاتا ہے۔
ایسی ہزاروں خبروں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جسےعوام سے دور رکھنے کی تمام ترکوششیں کی جارہی ہیں۔
خبروں اورجانکاریوں سے دور رکھ کر قومیت کو نقصان پہنچا کر اگر کسی جماعت کا صرف ایک ہی مقصد ہو کہ اسے کسی نہ کسی طرح اقتدار پر قابض ہونا ہے تو یہ دیش کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہونے والا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے دیش کے تمام انسٹی ٹیوشن کا خراب ہو جانا ہے۔ نوح ، گروگرام اور منی پور میں پولیس کا جو رول رہا وہ قطعی منصفانہ نہیں تھا۔ ایک منو مانیسر کے لئے پولیس نے اپنی ذمہ داریوں کو طاق پر رکھ دیا۔ ٹرین میں تین مسلمانوں کو یہ کہہ کر سیکورٹی گولی مار دے کہ میڈیا یہی بتاتا ہے کہ مسلمان خراب ہوتے ہیں ، اس سے دیش کی دشا اور دِ شا سمجھنے میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ شاید اسی وجہ سے ٹی وی کے ہی ایک اینکر نے بہت پہلے کہا تھا کہ اگر خود کو اور اپنے بچوں کو مجرم بنانے سے بچانا ہے تو ٹی وی پر خبریں دیکھنا بند کریں۔ اسی اینکر پر بالی ووڈ میں ایک فلم بنی اور ریلیز ہوئی، جس کا نامwhile we watched ہے اور اسے آئی ایم بی ڈی نے 8.5کی ریٹنگ دی ہے اور اس فلم نے بالی ووڈ کے سپر اسٹار ٹام کروز کو ٹکر دے دی ہے۔ اس فلم نےہندوستانی میڈیا کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ بھارت میں شاید ہی اسے ریلیز کیا جا سکے۔
مگر ہم کیا کریں ۔ آخر ہمیں دیش دنیا کی خبریں کہاں سے معلوم ہو۔ بس یہی دعا کر سکتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا اپنا تھوڑا سا وقار بھی بچا لے جائے تاکہ ہمیں یقین ہو کہ صبح صبح جو اخبار آیا ہے وہ ہمیں بیدار یا خبردار کرنے میں جھوٹ کا سہارا نہیں لے گا۔
زین شمسی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button