مضامین و مقالات

قانونِ شریعت کا امتیاز تقابلِ ادیان و اقوام کے تناظر میں

مولانا محمداحسان اشاعتی
اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق فرمائی اور انسان کو مختلف و متعدد صفات کا حامل بنایا، اس کے اندر جہاں اچھا ئیاں ہیں، ایک دوسرے کے تئیں خیر خواہی وبھائی چارہ کا جذبہ ہے تو دوسری طرف وہ صفات بہیمیہ اور شہوانی احساسات سے بھی متصف ہے، اور ان ہی آخر الذکر صفات کی بے اعتدالیوں کی بنیاد پر بہت سے گناہ اور جرائم معرض وجود میں آتے ہیں پس ان ہی جرائم کے روک تھام کے لیے قانون اور ضابطے کی ضرورت ہوتی ہے، ایساقانون جو انسانی بے راہ روی و گمرہی اور ہر طرح کی کج روی اور بے اعتدالی پر قابو پا سکے نیز انسانی ضرورتوں اور مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے فطرت انسانی سے ہم آہنگ سلیقہء حیات پیش کر سکے اور یہ بات واضح اور ظاہر ہے کہ ایسا قانون وہی بنا سکتا ہے جو انسان کے جملہ احوال،ضروریا ت، منافع و مضرات،احساسات و جذبات، عادات و صفات سے بخوبی واقف ہو، اور بالیقین ایسی واقفیت اوربالاستیعاب علم، صرف اور صرف رب ذوالجلال کو ہے کیونکہ وہی انسان کا خالق ہے اورخالق سے بڑھ کر اس کی مخلوق کی بارے میں کس کو علم ہو سکتا ہے،

وہ قانون جو انسان کے خالق نے بنایا ہوگا انسان کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور مناسب ہوگا؛ اللہ خود فرماتا ہے: الا لہ الخلق والامر (اعراف54) اس کے بر خلاف وہ قانون جس کا واضع انسان ہو ظاہر ہے کہ اس کے اندر وہ موزونیت اورفطرت سے ہم آہنگی اور دور اندیشی ہر گز نہیں پائی جا سکتی بلکہ تجربہ شاہد ہے کہ انسانوں کے ذریعہ بنائے گئے قوانین یاتو افراط کے شکار ہیں یا تفریط کے؛ چنانچہ عورتوں کے بارے میں بعض نے تفریط کا معاملہ کرتے ہوئے ان کو اتنا حقیر گردانا کہ یہاں تک بحث ہونے لگی کہ عورتوں میں جو روح ہوتی ہے آیا وہ انسان کی ہوتی ہے یاحیوانات کی، اور بعض نے افراط سے کام لیتے ہوئے ان کو مردو ں کے بالکل مساوی قرار دیا اور ایسی ذمہ داریاں سونپنے کی وکالت کی جو ان کی استطاعت سے بالا تر تھی؛ مزدوروں کو بعض لوگوں نے اتنا کمتر جانا کہ ان کو سرمایہ داروں اور ذی ثروت لوگوں کا زر خر ید غلام قرار دیا، اور بعضوں نے ان کو اتنا اونچا تصور کیا کہ حکومت وسیاست کا حقدار ان کو ہی ٹھہرایا، اسی طرح طلاق کے با ب میں کسی قوم کا نظریہ یہ رہا کہ میاں بیوی کے درمیان حالات کتنے ہی ناگوار کیوں نہ ہوجائیں، آپسی ناچاقیاں خواہ کتنی بڑھ جائیں اس سے خلاصی کی کو ئی شکل نہیں، ناطلاق اور نہ کچھ اور؛ایک دوسری قوم وہ بھی گذری جس کے یہاں طلاق کے معاملے میں حد سے زیادہ آزاد ی تھی کہ شوہر جب چاہے جس وقت چاہے اپنی بیوی کو طلاق دے سکتاہے اس کے لیے کوئی قید نہیں، بس ایک طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کر دے اور وہ اجنبیہ ہو گئی۔


جبکہ اسلام نے اپنے قانون میں انتہا درجے کا توازن اور عدل و اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے، ہر اصول انسانی صلاحیت و لیاقت کے بالکل موافق اور طبیعت انسانی کے لیے عین مناسب ہے، انسان کے دو جنس (مرد وعورت) میں سے عور ت کے لیے اس کی خلقت و استعداد کے مطابق ذمہ داری سونپی گئی کہ امور خانہ داری، بچوں کی دیکھ ریکھ وغیرہ اس کے سپرد کیا، اور معاشی وانتظامی امور جو کہ جفاکشی اورہمت و جرات کے متقاضی امور ہیں مرد کے حوالے کیے گئے؛ مر د کی عقل کے کمال اور اس کے اندر صفتِ حلم اوردور اندیشی کی وجہ سے حق طلاق اس کو عطاہوا، ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب (البقرۃ 179) کہہ کر حکم قصاص کے ذریعہ آپسی خونریزی اور قتل جیسے جرم و مفسدہ کا سد باب کیا، غرضیکہ قانونِ شریعت کا ہر ضابطہ بہت ہی متوازن، عدل و انصاف پر مشتمل اور بے شمار مصالح و حکم پر مبنی اور منافع کثیرہ کا ضامن ہے، اور جنہوں نے بھی خود ساختہ قوانین کے ذریعہ قانون شریعت سے تصادم کی کوشش کی تو انہیں خسارہ اٹھانا پڑا ہے مثلا شریعت اسلامیہ کا نظام نکاح و طلاق؛ جنہوں نے نکاح و ازدواجی زندگی سے روگردانی کی اور اس کوغیر ضروری سمجھا اور live in relationshipجیسی لعنت کو رواج دیا ان کی زندگیاں بے سکونی اور ہزاروں قسم کی الجھنوں کی شکار ہوگئیں اور جنہوں نے طلاق کے تعلق سے افراط سے کام لیا یعنی طلاق دینے میں مطلق العنانی اور ضرورت سے زیادہ چھوٹ دیدی تو عورت کی زندگی تماشہ بنکر رہ گئی اور جنہوں نے تفریط سے کام لیا یعنی ایقاع طلاق کو بہر صورت ممنوع قرار دیا وہا ں شوہر مجبور محض بن کر رہ گیا، اسی طریقے پر جب شریعت کے نظام قصاص کو نہ صرف ترک کیا گیا بلکہ اس کوانسانیت پر زیادتی گمان کیا گیا تو نتیجے میں قتل و غارت گری عام ہوئی اور انکااپنا قانون اس سلسلے میں ہمیشہ ناکام رہا ہے اور اصحاب الرائے نفس بالنفس کے قانون کے اجراء کے قائل ہوتے رہے ہیں؛ شریعت نے شراب کو بالکل حرام قرار دیااور دنیوی قانون اس کی پینے کی اجازت دیتا ہے، اکثر ممالک نے اس کی چھوٹ دے رکھی ہے جس کا خمیازہ دنیا بھگت رہی ہے اور جس کے مفاسد و مضرات لوگوں پر مخفی نہیں ہے؛ہم جنس پرستی شریعت کی نگاہ میں بڑا گناہ ہے اور موجب ہلاکت و داعی قہر ِالہی ہے جبکہ متعدد ممالک نے اس گھناؤنے فعل کے جوازپر مشتمل قانون پاس کیا،نتیجتاً ان ممالک میں اس غیر فطری تعلقات کی شرح بڑھی، تاہم حقیقت پسندوں نے تجربے سے اس کے نقصانات کا اور طبی ماہرین نے اس کی طبعی مضرات کا اعتراف کیا۔
الغرض قانون شریعت سے بغاوت انسان کے لیے ہمیشہ نقصان، خسارہ اورتباہی و ہلاکت کا باعث رہی ہے چونکہ قانونِ شریعت قانونِ فطرت ہے کما قال اللہ تعالی: فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا(روم30) اور اپنی فطرت سے اعراض موجب خسران وہلاکت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button