مضامین و مقالات

ہندستان کی جی ڈی پی اور دیہی معیشت پر عید قربان کے اثرات

 

۔ نقاش نائطی
. 00966562677707

ہندوستان کی جی ڈی پی اور دیہی معیشت پر عید قربان کے اثرات https://www.linkedin.com/pulse/impact-eid-al-adha-indias-gdp-rural-economy-dr-mohamed-yasir-j6mjc
2 ہزار قبل مسیح بنو اسرائیل کے موقر نبی حضرت ابراہیم علیہ کے، اپنے بڑھاپے میں پیدا ہوئے جوان سال بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو، اپنے رب دوجہاں کے حکم خواب کے ذریعہ دئیے گئے، حکم قربانی، عمل آوری خود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے اکلوتےبیٹےکی قربانی دئیے جانےکےعمل اخلاص کو دیکھتے ہوئے آج سے کم و بیش چار ہزار سال سے بنو اسرائیل سے امت محمدیہﷺ میں جاری و ساری رکھا گیاعمل قربانی ہی، عید الاضحی یا عید قربان کے طور ہم عالم کے 2ہزار ملین مسلمانوں میں، نہ صرف نسل درنسل چلا آرہا حکم خداوندی عمل آوری عمل ہے بالکہ اور آسمانی مذاہب کے حکم خداوندی کے مقابلہ انتہائی جوش وخروش کے ساتھ پہلے سے زیادہ ہی عمل پذیر کیا جانے والا عمل آسمانی ہے ۔ اللہ کے رسول حضرت ابراہیم علیہ کا اپنے بڑھاپے میں رب رحمان و رحیم کی طرف سے عطا کردہ نرینہ اولاد حضرت اسماعیل علیہ کو خود اپنے ہاتھوں بحکم خدا،قربان کرنا اور اللہ رب العزت کا اپنے نبی کے،اسکے حکم قربانی عمل آوری جذبہ و اخلاص کو دیکھتے ہوئے،فرشتے کی معرفت،خود سے راضی برضا اپنے بزرگ باپ کے ہاتھوں ذبح ہونے انکے سامنے تیز چھری کے نیچے لیٹے، حضرت اسماعیل علیہ کو دنبے سے تبدیل کئے جاتے، تاقیامت ہم موحدین مسلمین کے ہاتھوں، کروڑہا کروڑ دنبے بکرے بیل بھینسے کی قربانی کئے جاتے عمل کی تفصیل خود رب دوجہاں کی طرف سے، نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ پر،آسمان سے اتارے گئےقرآن مجید میں مفصل موجود ہے۔
عید الاضحی جسے بقرعید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 300 ملین سے زیادہ ہندوستانی مسلمان نہ صرف مناتے ہیں اور اس کا ملکی معشیت پر کافی گہرا اقتصادی اثر پڑتا ہے۔ بالکہ عالم کے انیک ملکوں کے دو سو کروڑ مسلمان بھی،اسی جوش و خروش کے ساتھ عیدقربان مناتے ہیں اور ان کے ممالک معشیتی اقتصادی فوائد حاصل کرتے پائےجاتے ہیں۔ اس تہوار کو جانوروں کی قربانی، خاص طور پر بکرے مینڈھے بیل بھینسے کی قربانی سے جانا جاتا ہے، جو دیہی علاقوں میں ایک اہم معاشی اچھال پیدا کرتا ہے۔ یہاں ایک تفصیلی تجزیہ پیش کرنے سے پہلے، عید قربان پر ملکی معشیت فروغ پاتے پس منظر میں،بھارت پر موجودہ حکومت کررہی، آر ایس ایس، بی جے پی سنگھی، اس عید قربان تیوہار کو ہرطرح حکومتی مدد و نصرت مہیا کئے جاتے، اس عید قرباں معشیتی فوائد کو دگنا یا تگنا کرنے کی سعی کرتے پائے جاتے لیکن برخلاف اس کے ہزار حیلے بہانوں سے وہ اپنی مسلم دشمنی ھندو اکثریت پر واشگاف کرتے کراتے، ایک طرح سے عید قربان،معشیتی استفادہ کو کم سے کم تر کئے جارہے ہیں
عید الاضحی کے معاشی اثرات کو سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا غیر ضروری تنازعات سے بچنے اور معاشی ترقی کے لیے زیادہ جامع انداز کو فروغ دینے میں مدد کر سکتا ہے۔لیکن سابقہ گیارہ سالوں سے اپنی زرعی پیداوار سے عالمی معشیت میں تبدیل ہوتی بھارتیہ حکومت پر سب کا ساتھ سب کا وکاس والے، اپنے جھوٹے مگر, بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ, دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر قبضہ جمانے والی آر ایس ایس، بی جے پی، مہان مودی یوگی سرکار نے، دیش واسی ھندو اکثریتی ووٹ بنک پر، اپنا تسلط مستقل جمائے رکھنے کے لئے، دیش کی سب سےبڑی اقلیت ہم 30 کروڑ بھارت واسی مسلمانوں کےخلاف، اپنی زہر اگلتی منافرت درشانے، ھندو اکثریتی دیش واسیوں کو گمراہ کرنے، اپنے جھوٹی ھندو مذہبی آستھا کو سامنے کئے، دیش واسی پچھڑی ذاتی اکثریتی ھندوؤں کے ساتھ مسلم اقلیت کے، زمانے سے کھائے جاتے، گائے قبیل کےبڑےجانوروں کے گوشت کو، ان کےمنھ سےچھینتے ہوئے، اسی گؤماس کو کھاڑی عرب دیش سمیت یورپی ملکوں کو برآمد کئے جاتے، ہزاروں سالہ آسمانی ویدک بھارت کو، سابقہ آٹھ دس سال سے، عالم انسانیت کا سب سے بڑا گؤماس ایکسپورٹر ملک بنائے ہوئے ہے۔ یہ کیسی گؤاسٹھا ہے؟ جو دیش واسیوں کو تو گؤ ماس امتناع قانون کی رؤ سے، گؤماس کھانے سے مانع رکھتی ہے تو دوسری طرف اسی گؤماس امتناع قانون والے ہزاروں سالہ آسمانی ویدک، سنگھیوں کے متجوزہ ھندو راشٹر میں، سرکاری سرپرستی میں، سنگھیوں کے بڑے بڑے بوچڑ خانوں میں، روزانہ کی بنیاد پر، ہزاروں کی تعداد میں, نہ صرف بیل بھینس جیسے بڑے جانوروں کی ساموہک ہتھیائیں کئے،بالکہ گائے اور دودھ نہ دے سکنے والے گائے کے بچھڑوں کا گوشت ویل لیگ کے نام نامی سے، ودیشیوں کے منھ کا لقمہ بننے یا بنوانے کا یہ ڈبل انجن،رام راجیہ سنگھی حکومت بندوبست کروا رہی ہے۔ ودیشی ملکوں کے ہوٹلوں میں وھائیٹ میٹ مشہور ہڈی بھرے بکرےکےگوشت میں ملاکر بیچنے، ایک حد تک وھائیٹ میٹ کی طرح دکھنے والےچھوٹےبچھڑوں کا ماس اونچی قیمت پر بیرون ملک ایکسپورٹ کرتے ہوئے، یہ سنگھی رام راجیہ حکومت، بیروں ملک ہوٹلوں میں بکرے کے گوشت کے ساتھ بچھڑے کا گوشت ملائے جاتے، ودیش میں مصروف معاش، لاکھوں کروڑوں ھندو بھائیوں کو، بکرا گوشت سمجھ گائے (بچھڑے) کا گوشت کھلوانے کا بندوبست کروا رہی ہے۔کیایہ سب سنگھی ھندو بیف تاجروں اور انکے مائیں باپ، بھارت پر حکومت کررہے سنگھی آقاؤں کی علم کے بغیر ہورہا ہے؟ یا یہ سنگھی حکمران و تاجر دانستہ جانتے بوجھتے، گؤ ماتا بچھڑوں کا گوشت بکرے کے گوشت کے ساتھ ملاکر، کھاڑی دیش میں مصروف معاش لاکھوں کروڑوں ھندوؤں کو بھی کھلا رہے ہیں؟نازی ہٹلری ان سنگھی حکمرانوں کو نہ گؤماتا پریم ہے یا گؤ آستھا سے ان کا براہ راست کوئی تعلق ہے ۔ یہ تو گؤماتا آستھا کا چولا پہنے، ایک طرف مسلم اقلیت کو تنگ کررہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں گائے اور گائے قبیل کے جانوروں کی ساموہک ہتھیائیں کئے، دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔ اس کا کھلا ثبوت عید قربان کے موقع پر امتناع گؤ ماس والے کانگریسی صوبوں میں بھی، سنگھی غنڈے ہی بیل و بھینسے اسمگل کرواتے،مسلم علاقوں تک بیل بھینسے پہنچواتے، مسلمانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔
یہاں اس ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرمی چمنستان بھارت میں، سابقہ ڈیڑھ ہزار سال سے امن چین آشتی کے ساتھ مل جل کر رہتے آئے، اس دیش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 30 کروڑ مسلمانوں کو ،اپنے مذہبی آستھا مطابق عید قربان پر بڑے جانوروں کی قربانی دینے کی پوری سہولت مہیا کی جائے، اور اگر بھارت واسی دو تہائی سناتن دھرمی ھندو قوم کو، انکے مذہبی استھا گؤ ماس پاسداری کے لئے، گؤماس امتناع قانون گر نافذ کیا گیاہی ہے تواس امتناع قانون کو ہزاروں سالہ آسمانی ویدک پورے بھارت کی سرزمین پر یکساں طور لاگو کیا جائے نہ کے موجودہ سنگھی حکمران والے خود ساختہ رام راجیہ ڈبل انجن سرکار کے کچھ صوبوں میں امتناع گؤماس قانون لاگو رہتے اور کچھ ذبل انجن سنگھی صوبائی سرکاروں میں گویا امتناع گؤماس قانون ہے ہی نہیں جیسے، گؤماتاؤں کی ہتھیائیں کئے، اسکا گؤماس دھڑلے سے بیچا اور کھایا جاتا ہے۔ اور سنگھی ڈبل انجن صوبائی سرکاروں کی سرپرستی میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں گؤماتاؤں کی ساموہک ہتھائیں گئے اس کا ماس ودیشی ملکوں میں بھیجا جارہا ہے۔اور اگر ھندو ہردے سمراٹ مہان مودی جے کے نام نہاد رام راجیہ سرکار ہی میں امتناع گؤماس قانون رہتے،گؤ ماتا ہتھیائیں کئے گؤماس ودیشی ملکوں کو برآمد کئے گؤماس امتناع قانون کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو دیش کہ سب سے بڑی اقلیت ہم تیس کروڑ مسلمانوں کو بھی اپنے مذہبی عقائد پاسداری کرتے ہوئے عید قربان پر، گائے قبیل کے بڑے جانوروں کی قربانی کی اجازت دی جائے۔نو ماہ اپنے پیٹ اپنے خون جگر سے پالنے والے بچے کو جب تک بچہ پیاس سے بلبلا روتا نہیں، ماں بھی اسے اپنی چھاتی سے لگا دودھ نہیں پلاتی ہے ویسے میں مسلم مخالف منافرتی تفکر رکھنے والے سنگھی لیڈروں کے درمیان مصروف عمل غیر جانبدار ھندو وکلاء و جج صاحبان و قانون ویستھا برقرار رکھنے والے پولیس اہلکار بھی کیوں اور کیسے ہم بھارتہ مسلمانوں کو بن مانگے بن طلب کئے عید قربان پر بڑے جانوروں کی قربانی کی اجازت دے سکتے ہیں ۔اس کے لئے اس ملک کے ہم امن پسند مسلمانوں کو،اس دیش کے نامور وکلاء کی خدمات حاصل کئے، سپریم کورٹ میں رٹ عرضی داخل کئے، یا تو گؤ ماس امتناع قانون کا اطلاق پورے دیش میں یکساں طور کئے جاتے ہوئے، اس آسمانی ویدک بھارتیہ دھرتی پر مکمل سختی کے ساتھ گؤماس امتناع قانون نفاذ کئے جاتے گؤماس ایکسپورٹ بھی بند کئے جانے کی گوہاڑ کی جانی چاہئیے اور بعض صوبوں میں گؤماس امتناع قانون نافذ رہتے اگر گؤماس ایکسپورٹ جاری رکھا جاتا ہے تو بھارت کے دیش واسی دلت پچھڑی جاتی ہم مسلمانوں کو بھی، اپنے مذہبی آستھا مطابق بڑے جانوروں کی قربانی کرنے اور گؤماس کھانے کی اجازت دلوائی جائے۔
کس طرح بقرعید بھارتیہ و عالمی معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے اور مقامی غریب و متوسط کسان طبقہ کی مدد کرتی پائی جاتی ہے اسے بھی دیکھا جائےاور اپنے قیمتی ووٹ سے، مسلم منافرتی ان ٹٹوؤں کو، اقتدار پر بٹھانے والی عوام، ملکی معشیت کو سبوتاژ کرتی پالیسیوں پر عمل پیرا ان سنگھی حکمرانوں کو، حکومتی اقتدار سے محروم کئے، کسان دوست کانگرئس پارٹی کو اقتدار ھند سونپنے ہوئے،عالم کی سب سے بڑی پانچویں معشیت بھارت کو ترقی پزیری پر گامزن کرے۔

اقتصادی شراکتیں
قربانی کے جانوروں پر کل اخراجات:
ایک اندازے کے مطابق 8-10% ہندوستانی مسلمان جانوروں کی قربانی میں حصہ لیتے ہیں،عموما صاحب حیثیت لوگ ایک سے زائد جانوروں کی قربانی کرتے پائے جاتے ہیں،اس اعتبار سے اندازا نصف تعداد مسلم شہری کے برابر جانوروں کی قربانی ہر سال کی جاتی ہے۔ عموما بکروں بھیڑوں کی قربانی زیادہ کی جاتی ہےہر بکرے کی قیمت ₹10,000 سے ₹50,000 کے درمیان ہوتی ہے۔اور بیل بھینسے کی قیمت چالیس پچاس ہزار سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ تک ہوتی ہے40,000 روپے فی جانور کی اوسط قیمت فرض کرتے ہوئے 30 کروڑ مسلم آبادی کا نصف 15 کروڑ جانور قربان کئے گئے شمار کئے جائیں تو 15 کروڑ جانور
× ₹40,000 =60₹ لاکھ کروڑ روپئیے (₹2،400,000,000,000)
کلیدی فائدہ اٹھانے والے
دیہی کسان ہی ہوتے ہیں
بہت سی دوسری اقتصادی سرگرمیوں کے برعکس، بقرعید کے لین دین مکمل طور پر مقامی اور دیہی ہیں۔ بنیادی فائدہ اٹھانے والے ہندوستانی کسان ہیں جو جانوروں کو پالتے ہیں۔ اگر ایک کسان ہر سال اوسطاً 10 بکریاں پالتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 75 لاکھ خاندانوں کے لیے براہ راست روزگارمیسر ہوتا ہے
اس تہوار سے پیدا ہونے والی معاشی سرگرمی ان خاندانوں کو خاطر خواہ آمدنی فراہم کرتی ہے، ان کی روزی روٹی میں اضافہ کرتی ہے اور کسانوں کی خودکشی کے خطرے سمیت مالی پریشانیوں کے امکانات کو کم کرتی ہے۔

ملازمت اور کھپت:
ہر قربانی کا بکرا کم از کم 20 لوگوں کو گوشت فراہم کرتا ہے، تو گائے بیل بھینسا کم و بیش 200 لوگوں کو سیر ہوکر کھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔اس طرح تہوار کے دوران تقریباً 300 کروڑ لوگوں کو کھانا کھلائے جانے کا بندوبست کرتا ہے یہ اور بات ہے زمانے کی جدت پسندی والے ریفریجریٹر اور ڈیب فریزر دستیابی کی صورت تیس چالیس کروڑ مسلم سمیت انیک ہس ماندہ دیش واسی کئی کئی دنوں ہفتوں مہینوں تک عید قربان کے گوشت سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ عید قربان نہ صرف ایک بڑی آبادی کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بناتا ہے بلکہ زرعی اورگوشت کی پروسیسنگ کی صنعت کے ایک اہم حصے کی حمایت کرتا ہے، جس سے روزگار اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
وسیع تر اقتصادی اثرات
مویشی اور گوشت کی صنعت:
عید الاضحی کے دوران مویشیوں کی مانگ مویشیوں کے کسانوں، قصابوں، اور گوشت خوردہ فروشوں کی فروخت اور آمدنی میں اضافہ کا باعث بنتی ہے (دی فنانشل ایکسپریس)۔
یہ تہوار چمڑے جیسی ذیلی صنعتوں کو بھی سپورٹ کرتا ہے، جہاں چمڑے کی سالانہ پیداوار کا ایک اہم حصہ عید کے بعد کی مارکیٹ (دی فنانشل ایکسپریس) سے منسلک ہوتا ہے۔
مقامی معیشتوں کو فروغ دینا:
بقرعد معاشی سرگرمیوں کی ایک وسیع رینج کی حمایت کرتا ہے جس میں مویشیوں کی تجارت، خوراک کی تیاری اور مہمان نوازی شامل ہے۔ ان شعبوں میں رقوم کی آمد مقامی معیشتوں کو بڑھوتری دیتی ہے اور وسیع تر اقتصادی ترقی کی بڑھاوا دیتی ہے۔
مقامی دکاندار، ٹرانسپورٹرز، اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے مزدور پیشہ بھی بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جس سے دیہی معیشت میں ایک لہر پیدا ہوتی ہے۔
اسٹریٹجک سفارشات
مویشیوں کی تجارت کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئیے:
دیہی ہندوستان میں ایک اثاثہ کے طور پر مویشیوں کی لیکویڈیٹی کو دیکھتے ہوئے، حکومت کو ایسی پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے جو مویشیوں کی تجارت کو سپورٹ اور بڑھاتی ہوں۔ اس میں بہتر بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنا، منصفانہ تجارتی طریقوں کو یقینی بنانا، اور دیہی کسانوں کے لیے منڈیوں تک آسان رسائی شامل ہو سکتی ہے۔
اقتصادی ترقی کے لیے تہواروں کا فائدہ اٹھانا:
عید الاضحی جیسے تہواروں کی اہم اقتصادی شراکت کو سمجھنا پالیسی سازوں کو مستحکم اقتصادی ترقی کے لیے ان تقریبات کو بروئے کار لانے کے لیے بہتر حکمت عملی وضع کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ اس میں معاون شعبے شامل ہیں جو میلے سے براہ راست فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اقتصادی فوائد کو کمیونٹیز میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جائے۔
نتیجہ
عید الاضحی دیہی ہندوستان میں معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے، مقامی کسانوں کو خاطر خواہ فوائد فراہم کرنے، روزگار پیدا کرنے اور لاکھوں لوگوں کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس تہوار کی اقتصادی صلاحیت کو پہچان کر اور اس کی حمایت کرتے ہوئے، ہندوستان اپنی دیہی معیشت کو بڑھا سکتا ہے اور پائیدار ترقی کو فروغ دے سکتا ہے۔
*عید الاضحی کے معاشی اثرات کو سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا غیر ضروری تنازعات سے بچنے اور معاشی ترقی کے لیے زیادہ جامع انداز کو فروغ دینے میں مدد کر سکتا ہے۔*
https://www.linkedin.com/pulse/impact-eid-al-adha-indias-gdp-rural-economy-dr-mohamed-yasir-j6mjc
*عید قربان میں قربان کئے گئے 3 کروڑ بھیڑ بکریوں کی قیمت، تیس چالیس لاکھ کروڑ براہ راست دیش کے کسانوں تک پہنچ گئے*

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button