مضامین و مقالات

مشترکہ کوشش کامیابی کی ضمانت

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

مسلمانوں اور ان کی تنظیموں نے ‘وقف ترمیمی بل 2024 منظور نہیں’ حکومت کو یہ واضح کر دیا ہے ۔ ای میل اور جے پی سی سے مل کر بھی اپنی منشاء ظاہر کر چکے ہیں ۔ جے پی سی نے نہ صرف انکے اعتراضات پر کوئی دھیان نہیں دیا بلکہ اپوزیشن ممبران کی تجاویز کو بھی قبول نہیں کیا ۔ کئی ماہ کی میراتھن کے بعد 14 ترمیمات کو منظور کر جے پی سی نے بل حکومت کو قانون بنانے کے لئے سونپ دیا ۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ترمیمات آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ نے تجویز کی یا کرائی گئی ہیں ۔ اس تنظیم سے موقع پرست مسلمانوں کا بڑا طبقہ وابستہ ہے ۔ جس میں دانشور، ڈاکٹر، پروفیسر، ایڈوکیٹ، سیاستداں، عالم دین، اعلیٰ و پسماندہ، مرد اور عورت یعنی ہر طبقہ کے مسلمان اس میں شامل ہیں ۔ جو اپنے معمولی فائدہ کے لئے اسلام اور ملت کو بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ مگر سماج میں ان کے بائکاٹ کا ابھی تک کسی نے اعلان نہیں کیا ۔ خیر بات ہو رہی ہے وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات کی، اگر ان کے ساتھ بل پاس ہو گیا تو نہ صرف وقف کی حیثیت ختم ہو جائے گی بلکہ حکومت، اس کے دوستوں اور وقف املاک پر غیر قانونی قبضہ داروں کے مالک بننے کا راستہ صاف ہو جائے گا ۔ بڑی تعداد میں مساجد، قبرستان، مدارس، یتیم خانے، مسافر خانے، خانقاہیں، مقبرے اور درگاہیں اس کی زد میں آئیں گی ۔
وقف ایکٹ میں اس سے پہلے بھی تبدیلیاں ہوئی ہیں ۔ شراکت داروں کے مشورے سے اس کی کمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ لیکن اس مرتبہ وقف کو صاف شفاف بنانے کے لئے ترمیم کے نام پر مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کرنے، اپنے ہی ملک میں بیگانہ بنانے اور وقف کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔ بل پاس ہوا تو ‘وقف’ کا نام ‘امید’ ہو جائے گا ۔ اس میں سب سے خطرناک ترمیم کلکٹر راج کی واپسی ہے ۔ کلکٹر راج نے ہی بابری مسجد کا مسئلہ پیدا کیا تھا ۔ اس کی وجہ سے آج تک ملک فرقہ وارانہ نفرت کی آگ میں جھلس رہا ہے ۔ ملک میں تقریباً 60 فی صد سے زیادہ ایسی جائدادیں ہیں جن کے دستاویز نہیں ہیں لیکن انکا سیکڑوں سالوں سے استعمال مسجد، قبرستان، مقبرے، درگاہ یا خانقاہ کے طور پر ہو رہا ہے ۔ ایسی تمام املاک کا اندراج ‘وقف بائی یوزر’ کے طور پر کیا گیا ہے ۔ نئے قانون کے مطابق جن جائدادوں کا اندراج ریونیو ریکارڈ، وقف بورڈ میں نہیں ہوگا یا جن کے دستاویز دستیاب نہیں ہوں گے ۔ کلکٹر ان کی رپورٹ حکومت کو بھیجے گا، حکومت ایسی املاک کے بارے میں وقف بورڈ کو اس کے ریکارڈ سے ہٹانے کے لئے کہہ سکتی ہے ۔ یا اس کا اندراج سرکاری زمین کے طور پر کیا جا سکتا ہے ۔
نئے قانون میں وقف املاک کو لمیٹیشن کے قانون سے ملی چھوٹ کو ختم کرنے کی تجویز ہے ۔ اگر کوئی شخص سرکاری زمین پر 12 سال سے اور غیر سرکاری جگہ پر 15 سال سے بلا روک ٹوک کرایہ دار ہے تو وہ اس کا مالک بن جائے گا ۔ وقف املاک کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ۔ وقف بورڈ کسی وقت بھی اپنی جائداد خالی کرا سکتا یا واپس لے سکتا ہے ۔ نیا قانون لاگو ہونے پر ایسے تمام لوگ جو 15 سال یا اس سے زیادہ وقت سے وقف جائداد پر قابض ہیں خود باخود مالک بن جائیں گے ۔ بڑی تعداد میں وقف املاک سرکار یا غیر مسلموں کے قبضہ میں ہے ۔ وہ وقف بورڈ کو واجب کرایہ بھی ادا نہیں کرتے ہیں ۔ موجودہ حکومت کی شروع سے ہی ملک کی زمینوں پر نگاہ ہے ۔ 2014 میں آتے ہی وہ اراضی تحویل بل لائی تھی لیکن کسانوں کی مخالفت کی وجہ سے اسے واپس لینا پڑا تھا ۔ پھر تین زرعی قوانین لے کر آئی، اس میں بھی اسے کامیابی نہیں ملی ۔ ریلوے اور فوج کی زمینیں ڈولپ کرنے کے لئے کارپوریٹ کو دینے کا منصوبہ سامنے آیا ۔ اب وقف جائدادوں کو خرد برد کرنے کے لئے قانون لانے سے اس کی نیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ وقف کا تعلق چونکہ مسلمانوں سے ہے لہٰذا اس کے ذریعہ وہ اپنے نفرتی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے سیاسی روٹیاں سیکنا چاہتی ہے ۔ وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبران کے داخلہ کی تجویز اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔
حکومت مندر نیاس میں کسی غیر ہندو کو ممبر بنانے کا قانون بنانا تو دور کیا مشورہ بھی دے سکتی ہے؟ کاشی وشوناتھ مندر ٹرسٹ میں بنارس کا ڈی ایم ممبر ہوتا ہے اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا ماتحت ہندو ممبر ہوگا وہ نہیں کیوں؟ مسلمانوں نے زمین خرید کر یا اپنی پشتینی جائداد مسجد، مدرسہ یا قبرستان کے لئے وقف کی ہے ۔ جس پر آج حکومت کی نظر ہے کیا وہ پارک کی زمین گھیر کر یا فٹ پاتھ پر قبضہ کرکے بنائے گئے مندر کو توڑنے کی ہمت کر سکتی ہے؟ کیا سینکڑوں سال پرانے مندروں سے کاغذ طلب کرنے کا حوصلہ دکھا سکتی ہے؟ نہیں تو پھر مسلمانوں کے پیچھے کیوں پڑی ہے ۔ کیا اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنے اہل وطن پر بھروسہ کیا اور اپنی سیاسی طاقت نہیں بنائی؟ کیا اس لئے کہ وقف املاک کے تحفظ کی ذمہ داری آزادی سے پہلے اور بعد میں حکومت نے لی اور مسلمانوں نے اسے مان لیا؟ حالانکہ حکومت نے اپنے مفاد میں ایسے بد عنوان افسران یا سیاستدانوں کو وقف کا ذمہ دار بنایا جنہوں نے حکومت اور غیر مسلموں کو فائدہ پہنچایا اور مسلمانوں کے مفاد کو نظر انداز کیا ۔ پھر بھی مسلمان خاموش رہے اور حکومت پر بھروسہ کیا ۔ جبکہ حکومت کی ملی بھگت کی وجہ سے ہی وقف کی اتنی جائداد ہونے کے باوجود سچر کمیٹی کے مطابق مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی خراب ہے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے دلتوں، آدی واسیوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ مل کر وقف املاک کو بچانے کی جو بر وقت مشترکہ کوشش شروع کی ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ بورڈ میں شامل کئی ممبران سے کسی کا کوئی اختلاف ہو لیکن اس وقت ذاتی شکایت پر ملی مفاد کو فوقیت دینے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی موقع کے لئے فرمایا ہے ۔”اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی ۔ اور اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی ۔ صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ (سورۃ انفال) وقف ترمیمی بل کے خلاف 17 مارچ کے احتجاج میں تمام ملی تنظیمیں اور مسلم سیاستداں جس طرح ایک اسٹیج پر دکھائی دیئے اسی طرح متحد ہو کر اس مہم کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔
وقف صرف قطع زمین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق مسلمانوں کے وجود سے ہے ۔ بر سر اقتدار جماعت نے جس طرح سوچ سمجھ کر یہ ایشو کھڑا کیا ہے ۔ اس سے لگتا ہے کہ اس کے لئے لمبی لڑائی لڑنی پڑے گی اور تمام جمہوری طریقے اپنانے ہوں گے ۔ سیاسی پارٹیوں کے صرف افطار کا بائیکاٹ کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ انہیں یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہمارا ووٹ اسے جائے گا جو ہمارے مسائل میں ساتھ کھڑا ہوگا ۔ فرقہ پرست اسے ہندو مسلم کا مسئلہ بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں اس لئے انصاف پسند غیر مسلموں کو بھی اس مہم میں ساتھ لینا چاہئے ۔ اگر دلت، آدی واسی، سکھ، عیسائی اور انصاف پسند ہندوؤں کے ساتھ مشترکہ طور پر اوقاف بچانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ ضرور کامیاب ہوگی ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button