
قومی ترقی میں اداروں کا کردار
(محمد خالد اعظمی)
قوم اور معاشرے کی وسیع البنیاد ترقی اور معاشی فلاح و بہبود کو عوام تک بخوبی پہچانے کیلئے مختلف سطح کے اداروں کا قیام اور ان کا کردار سماج کی ہمہ جہت نمو اور خوش حالی کے لئے نہایت اہم تصور کیاجاتا ہے ۔ یہی ادارے ہی ملک کی ترقی کی سمت اور طریقۂ کار متعین کرتے ہیں اور تاریخی طور یہ بھی مستند ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی معاشی ترقی کو بام عروج تک پہچانے میں مختلف طرح کا اداروں کا قیام اور کردار بہت اہم رہا ہے۔ اسی تحقیق کی بنیاد پر ۲۰۲۴ میں معاشیات کا نوبیل انعام بھی ان تین ماہرین کو تفویض کیا گیا ہے جنہوں نے کسی ملک کی ترقی میں اداروں کے قیام اور ان کے کردار پر اپنی نئی تحقیق پیش کی تھی ۔ ان ماہرین نے اپنی تحقیق میں یہ ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کی کہ ایک جیسے قدرتی اور جغرافیائی حالات کے باوجود دو ممالک کی شرح نمو و ترقی الگ الگ ہوتی ہے اور ترقی کا یہ فرق دونوں ممالک میں موجود مختلف طرح کے اداروں کی کارکردگی اور کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ بہت سارے ممالک میں جغرافیائی اور قدرتی وسائل کی یکسانیت کے باوجود ان کی ترقی اور خوش حالی کی سطح اور رفتار کن وجوہات سے اور کس طرح الگ الگ ہوتی ہے اور کس طرح ان ملکوں کی سماجی و معاشی تنظیمیں اور ادارے مختلف اوقات میں معاشی خوشحالی اور ملک کی ترقی میں کیا اور کیساکردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے منطقی طور پر ان وجوہات کی وضاحت کی ہے کہ کس طرح بعض ممالک امیر اور خوش حال ہو جاتے ہیں اور بعض غریب اور پسماندہ رہ جاتے ہیں، اس تفریق کی بنیادی وجہ ماہرین نے اداروں کی اچھی یا خراب کارکردگی کو بتایا ہے
یہ ادارے مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے بنائے جاتے ہیں، خواہ معاشی ترقی کیلئے پالیسی اور پروگرام تیار کرتے ہوں، منصوبہ بندی اور اس کی کارکردگی کا حساب کتاب رکھتے ہوں بیرونی تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے کام کرتے ہوں سماجی خدمات کے شعبے میں صحت یا تعلیمی مقاصد کے تئیں عوامی بیداری کیلئے کام کرتے ہوں، تعلیمی خدمات بہم پہنچاتے ہوں یا عوامی فلاح و بہبود کا کام کرتے ہوں، ہر سطح پر ہر ایک ادارے کااپنا میدان کار اور مخصوص کردار ہوتا ہے جس کا بنیادی مقصد انسانی صلاحیت، سرمایہ اور وسائل کو صحیح سمت دینا اور انکے مناسب استعمال کیلئے سازگار ماحول تیار کرنا ہوتا ہے۔ مغرب کی معاشی و سماجی ترقی میں اس طرح کے اداروں کا کردار بہت اہم رہا ہے اور آج بھی ان ممالک میں کسی خاص ایشو پر رائے عامہ کو بیدار کرنا، ان کی ذہن سازی کرنا اور حکومتوں اور عوامی نمائندوں کو بروقت مناسب اور ملکی مفاد میں مشورے دینا اداروں کے قیام کا اہم مقصد مانا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں بھی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے مختلف سطحوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ماضی میں بہت سارے معاشی اور مالیاتی ادارے بطور خاص ملک کی ترقی میں اپنا فعال کردار ادا کرنے کے لئے قائم کئے گئے تھے اور یہ ادارے اپنا کام کر بھی رہے ہیں ۔ ملک میں عوامی تعلیم کے فروغ اور شرح خواندگی اور تعلیم کی ترقی کے لئے اسکول کالج ور اور یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک کے سبھی تعلیمی اداروں میں سارا زور تعداد اور مقدار کے بڑھانے پر صرف کیا جاتا ہے اور طلبہ کی صلاحیت میں اضافہ،علم کے معیار اور عالمی سطح کی معیاری تعلیم کے فروغ پر توجہ کم دی جاتی ہے اور شاید حکومت کی مرضی اور منشا بھی یہی ہے ۔ تعلیم کی نجکاری کی حکومتی پالیسی کے تحت بے شمار ڈگری کالج، انجینئرنگ، میڈیکل اور دیگر شعبوں کی پیشہ ورانہ درسگاہیں حکومت کی منظوری سے ملک کے مختلف حصوں میں چل رہی ہیں لیکن اکثریت کے غیر معیاری تعلیمی سہولیات اورنصاب کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے میدان میں یہ درسگاہیں کچھ خاص اور نیا کرنے سے قاصر ہیں۔
اس ملک میں مسلمانوں نے بھی مختلف سطحوں قوم کی ترقی اور تعلیم کے فروغ کےلئے اپنے مشترکہ ذرائع سےتعلیمی، مذہبی اور خدمت خلق ادارے قائم کئے اس میں مکتب اور مدرسہ سے لے کر مختلف طرح کے ڈگری کالج، تکنیکی و پیشہ ورانہ کالج اور یونیورسٹی کے ساتھ امداد باہمی سوسائٹیز، مالی امداد ، غریبوں کی آباد کاری اور تجارتی بینکوں تک کا قیام شامل ہے۔ ان اداروں نے ایک لمبے عرصے تک اپنی اپنی سطح اور صلاحیت کے مطابق قوم اور ملت کی فلاح کیلئے اپنی کوشش اور حصہ داری ادا کی۔ مسلمانوں نے تعلیمی ادارے بھی نہایت کامیابی سے قائم کئے اور عوامی مالیاتی امداد اور چندہ کی حصہ داری کے ذریعہ نہایت کم خرچ پر یا بالکل مفت معیاری تعلیم عوام کو مہیا کروائی اور آج بھی مسلمان اپنی بساط اور محدود ذرائع کے باوجود ملک میں تعلیم کے فروغ کیلئے مسلسل تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ہمارے ملک میں مسلمان اقلیتوں کے ذریعہ دو طرح کے تعلیمی ادارے قائم کئے گئے پہلا تو مکاتب اور دینی تعلیم کے ادارے جو قرآن و حدیث اور فقہ و شریعت کی تعلیم دینے کیلئے مخصوص ہیں اور دوسرے جو موجودہ دور کی جدید تعلیم کے ساتھ طب و تکنیک کی اعلیٰ تعلیم فراہم کررہے ہیں۔ جدید تعلیم کے لئے مخصوص زیادہ تر ادارے جو نجی ملکیت کے تحت ایک تجارتی اکائی کے طور پر کام کرتے ہیں ان کے یہاں کوئی انتظامی اور اختلافی مسئلہ نہیں پید ا ہوتا اور دیگر نجیُ اداروں کی طرح ایک تجارتی اکائی کے طور پر کامیاب ہیں۔
ہمارے اقلیتی تعلیمی اداروں کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ مسلمان یہ ادارے تو بڑے ذوق و شوق اور دلجمعی کے ساتھ قائم کرتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ان اداروں پر انفرادی اور شخصی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے بھی دل وجان سے لگ جاتے ہیں اور کسی بھی سطح پر ان قابض افراد کے ذہن و خیال میں ان اداروں کی اجتماعی ملکیت، انکے قیام کے پیچھے عوامی جدوجہد ، مشترک فلاح و بہبود کا بنیادی مقصد یا ان اداروں کا قومی امانت ہونے کا تصوربھی نہیں آتا اور نتیجتا ہمارے قومی اہمیت کے نامور ادارے جن کی ایک روشن تاریخ اور قومی خدمات کاشاندار ریکارڈ رہا ہے وہاں چند اشخاص کا ایک گروپ اپنے ذاتی مفاد کی تکمیل اور ادارے کے ذریعہ مالی اور اثاثہ جاتی فوائد کے حصول کیلئے اداروں کو برباد کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ گروہی مفادات اور ذاتی انا کی لڑائی کے چکر میں مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو تباہ و برباد ہوتے بارہا دیکھا جاتا ہے۔ اداروں کی خراب کارکردگی کا یہ ایک پہلو ہے، اسی کے ساتھ اس کا دوسرا پہلو مسلم عوام کی منفی ذہنیت کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنے تعلیمی اداروں کے تعلق سے منفی اور غیر مستند خبروں کو سوشل میڈیا پر پھیلانے اور اس کے ذریعہ اداروں کو بدنام کرنے میں بھی خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کرتاہے ۔ انتظامیہ کے آپسی اختلافات یا طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان اگر کچھ چھوٹے موٹے یا فروعی اختلافات ہوں تو مسلم عوام کا یہ طبقہ ان اقلیتی تعلیمی اداروں کے تعلق سے ان اختلافات کو ہوا دینے اور تل کا تاڑ بناکر پیش کرنے میں خاصی عجلت اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتاہے اور انہیں یہ بالکل احساس نہیں ہوتا کہ ان کی یہ حرکات کس طرح اداروں کی بدنامی اور غیروں کےدرمیان جگ ہنسائی کا سبب بنتی ہیں۔ پہلے یہ سب چیزیں مسلمانوں کے اداروں کمیاب یا بالکل عنقا تھیں لیکن آج کے سوشل میڈیائی دور میں جب ہر شخص صحافی اور کھوجی پترکار بننے کا دعویٰ رکھتا ہے تو اس طرح کے مسلم نوجوانوں کا سب سے پہلا نشانہ مسلمانوں کے ہی ادارے ہوتے ہیں جن کی کچھ کمیوں کو تاہیوں کو عوام کے درمیان بری نیت سے مشتہر کرکے ایک سماجی خدمت کا ڈھول پیٹنے کا کارنامہ انجام دیا جاتاہے۔
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ