مضامین و مقالات

اردو: کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

یوگی ادتیہ ناتھ کا اردو کو لے کر دیا گیا بیان سرخیوں میں ہے ۔ معاملہ اسمبلی کی کاروائی میں ریجنل زبانوں کو شامل کئے جانے کا تھا ۔ اس میں اردو کو چھوڑ کر باقی زبانوں کو شامل کیا گیا ۔ اردو کے ساتھ سوتیلے سلوک کی اپوزیشن لیڈر سماجوادی پارٹی کے ماتا پرساد پانڈے مخالفت کی ۔ انہوں نے صلاح دی تھی کہ ہاؤس میں سرکاری طور پر منظور شدہ زبانوں میں انگریزی کی جگہ اردو کو رکھا جائے ۔ اردو اتر پردیش کی دوسری سرکاری زبان بھی ہے ۔ اردو کا نام آتے ہی یوگی ادتیہ ناتھ بھڑک گئے ۔ انہوں نے سماجوادی پارٹی کے دوہرے کردار پر حملہ کرتے ہوئے کا کہ یہ اپنے بچوں کو پڑھائیں گے انگلش اسکول میں اور دوسروں کے بچوں کے لئے کہیں گے اردو پڑھاؤ ۔ اردو پڑھا کر انہیں مولوی بنانا چاہتے ہیں، کٹھ ملا پن کی جانب ملک کو لے جانا چاہتے ہیں ۔ یہ نہیں چلے گا ہم انہیں سائنٹسٹ، انجینئر بنانا چاہتے ہیں ۔
سماجوادی پارٹی کے تجویز پر تو بحث ہو سکتی ہے کہ "انگریزی کی جگہ اردو کو رکھا جائے”۔ مگر یوگی کا حزب اختلاف کی صلاح پر اتنا غصہ نہیں تھا جتنا اردو کو شامل کئے جانے کی مانگ کو لے کر تھا ۔ اگر انکا ردعمل قانون سازی کے کام کی زبان کے طور پر انگریزی کو بنائے رکھنے کا ہوتا تو وزیر اعلیٰ آسانی سے انگریزی کو رکھتے ہوئے اردو کو شامل کرنے کی مانگ کو منظور کر سکتے تھے ۔ اسمبلی میں قانون سازی کے کام کے لئے پہلے سے منظور شدہ زبانوں کی تعداد طے نہیں ہے، جس کی وجہ سے انگریزی کو ہٹا کر ہی اردو کو جگہ دی جا سکتی ہو ۔ یوگی حکومت سوچ سمجھ کر ریجنل زبانوں کی شمولیت کے ذریعہ اردو کو نظر انداز کرنے کا پیغام دینا چاہتی تھی ۔ یوگی کے اردو کی سماجی و تہذیبی افادیت پر حملے نے انکی مخاصمت کو پوری طرح عیاں کر دیا ہے ۔ اسد الدین اویسی نے اس پر چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ یوگی نے تو اردو پڑھی نہیں ہے تو پھر وہ سائنٹسٹ کیوں نہیں بن سکے ۔ واضح رہے کہ حال ہی میں پارلیمنٹ کی کاروائی میں دوسری ریجنل زبانوں کے ساتھ اردو کو شامل کیا گیا ہے ۔
اتر پردیش اسمبلی میں اردو کی مخالفت کا یہ پہلا موقع نہیں ہے ۔ یہاں کئی مرتبہ اردو میں حلف لینے والے ممبران اسمبلی کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ آنجہانی این ڈی تیواری نے جب 1989 میں اردو کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان بنانے کا اسمبلی میں بل پیش کیا تھا تب بھی اس کی زبر دست مخالفت ہوئی تھی ۔ یہاں تک کہ ان کے ایک وزیر نے بھی اردو کی مخالفت میں تقریر کی تھی ۔ اس وقت تو حالات پھر بھی بدلے ہوئے ہیں اور یوگی آدتیہ ناتھ مسلم دشمنی کے لئے جانے جاتے ہیں ۔ زبان کی سیاست میں بی جے پی اور اس کے پیشرو جن سنگھ نے ہمیشہ اترپردیش میں اردو کی مخالفت کی ہے ۔ اس کے باوجود یہاں جنمی اردو نہ صرف ہندوستانی زبان ہے بلکہ اتر پردیش کی بھی زبان ہے ۔  آر ایس ایس، بی جے پی کی فرقہ وارانہ لسانی سیاست انگریزوں کے دور سے ہی ایک طرف اردو کو مسلمانوں تک محدود کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اور دوسری طرف اسے تعلیم اور ثقافت کی ترقی کے لیے فضول قرار دے کر اسے ختم کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔ یہ ایک طرح سے وہی دلیل ہے جو انہی طاقتوں نے بابری مسجد کو گرانے کا پروپیگنڈا کیا تھا کہ یہ مسجد نہیں تھی اس لیے اسے گرایا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح اردو کی کوئی سماجی و ثقافتی افادیت نہیں ہے، لہٰذا اسے نظر انداز کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یوگی آدتیہ ناتھ کا اردو کو مولوی بننے کا مترادف بنانا اور بنیاد پرستی سے جوڑنا اسی کوشش کا حصہ معلوم ہوتا ہے ۔
اپوزیشن لیڈر ماتا پرساد پانڈے نے وزیر اعلیٰ کے غصے پر اعتراض کیا ۔ انہوں نے کہا، ‘وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ اردو بنیاد پرست پیدا کرتی ہے ۔ میں ان الفاظ پر اعتراض کرتا ہوں اور پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اردو کے عظیم شاعر فراق گورکھپوری بھی بنیاد پرست تھے یا اردو کا علم رکھنے والے مشہور ناول نگار منشی پریم چند بھی بنیاد پرست تھے؟ یا پھر یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پڑھنے والے طلبہ بھی بنیاد پرست ہیں؟ لیکن، وزیر اعلی یوگی پر ان دلیلوں کا کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے ۔  اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ یوگی کا رویہ کسی لاعلمی یا حقائق سے ناواقفیت کا نتیجہ نہیں ہے ۔ یہ ان کی نفرت کی سیاست کے حصے کے طور پر دانستہ طور پر اپنایا گیا موقف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے ساتھ دینی مدارس کی بھی مخالفت کی جا رہی ہے ۔ بغیر یہ سوچے کہ مدارس دینیہ بنیادی تعلیم کے فروغ کا وہ کام کر رہے ہیں جو حکومت نہیں کر پا رہی ہے ۔
سنگھ، بی جے پی کی فرقہ وارانہ لسانی سیاست کی جڑ میں انگریزوں کی بنائی ہوئی ہندی اور اردو کی جھوٹی نفرت یا بائنری ہے ۔ جس کی آر ایس ایس اور بی جے پی وارث رہی ہے بلکہ اسے مزید آگے بھی بڑھایا ہے ۔ جہاں ہندی کے مفاد کے نام پر اردو کو دبانے کی سیاست کی جاتی ہے، جس کا ثبوت آدتیہ ناتھ کا موقف ہے ۔ لیکن نام نہاد قومی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں کی ثقافتوں کو اس طرح بیگانہ کیا جانا، اردو کے معاملے میں فرقہ وارانہ اصرار کی وجہ سے زیادہ شدید ہو سکتی ہے، لیکن یہ اسی تک محدود نہیں ہے ۔ درحقیقت ہندی کے علاوہ کم و بیش تمام ہندستانی زبانوں کے ساتھ اس فرقہ وارانہ لسانی سیاست کے رویہ کا یہی سلوک ہے ۔ جبکہ ہندی، اردو میں رسم الخط کے علاوہ کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔ دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ البتہ ہندی کو مشکل اور معیاری بنانے کے لئے اس میں سنسکرت، پالی اور پراکرت کے الفاظ کو شامل کیا جاتا ہے ۔ وہیں اردو کو فارسی اور عربی کے الفاظ مشکل بناتے ہیں ۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ جس وقت یوگی آدتیہ ناتھ اردو کو بنیاد پرستی کی زبان قرار دیتے ہوئے اس پر حملہ کر رہے تھے، اسی وقت مودی حکومت کے وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے نام نہاد قومی تعلیمی پالیسی اور اس سے متعلق کئی فیصلے مسلط کرنے کے لیے جنوب میں تامل ناڈو حکومت کے خلاف بھرپور جنگ چھیڑ دی تھی ۔ اس جنگ میں مرکز کا اہم ہتھیار ریاستی حکومت کو بدنام کرنے کے پروپیگنڈے کے علاوہ تعلیم کے لیے مرکزی فنڈز کو روکنے کی دھمکی ہے ۔ ریاست پر تین زبانوں کے فارمولے کو مسلط کرنا اس جنگ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے ۔  یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ تامل ناڈو کی حکومت اور عام طور پر جنوبی ہندوستان کا بیشتر حصہ آج کے حالات میں ان لسانی فارمولوں کو ہندی کو مسلط کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھتا ہے ۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے مرکزی حکومت پر این ای پی میں ہندی تھوپنے کا الزام لگایا ۔ اس کے جواب میں مرکزی وزیر تعلیم نے کہا تمل ناڈو میں تمل ہی مرکزی زبان ہوگی ۔ قومی تعلیمی پالیسی کا مقصد مادتی زبان کو فروغ دینا ہے ۔ جبکہ بجا طور پر یہ سوال اٹھاتا رہا ہے کہ کیا نام نہاد تین زبانوں کے فارمولے میں عملاً ہندی اور انگریزی کے علاوہ کوئی تیسری زبان ملک کے وسیع ہندی بولنے والے علاقے میں کہیں بھی لاگو نہیں ہو رہی ہے؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہندی، اردو بولنے والے خطہ کے ایک بڑے حصے میں، سنسکرت کو تیسری زبان کے طور پر منتخب کرنے کے نام پر، اسے عملی طور پر دو زبانوں کے فارمولے کے طور پر نافذ کیا جا رہا ہے ۔ یہاں سنسکرت کو دوسری ہندوستانی زبانوں کے حقوق غصب کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ جبکہ سنسکرت سماج میں اپنا مقام کھو چکی ہے ۔
سنسکرت کو فروغ دینے کے پیچھے فرقہ وارانہ سیاست کی بنیاد وہ کٹھ ملا پن والی سوچ ہے، جو یکسانیت کو قومی یکجہتی کے ذریعہ کی شکل میں پیش کرتی ہے ۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ ہمارے جیسے معاشرے میں، جس میں مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں کا بھرپور تنوع ہے، یکسانیت مسلط کرنے کی کوششیں قومی یکجہتی کے بجائے ٹوٹ پھوٹ کا ذریعہ بنتی ہے ۔ یہ بالکل وہی ہے جو ہم مودی کے دور میں ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ اگرچہ موجودہ حکومت کو ایک رسمی حیثیت کے طور پر بار بار حلف اٹھانا پڑتا ہے کہ وہ تکثیریت پر یقین رکھتی ہے، لیکن اس نے یکسانیت اور مرکزیت مسلط کرنے کا جو عمل شروع کیا ہے وہ قومی یکجہتی کے دھاگوں کو تباہ کرنے میں مصروف ہے ۔
اس کے ایک حصے کے طور پر، زبان کی فرقہ وارانہ سیاست ہندی کو ایک غالب زبان کے طور پر مسلط کر کے، دیگر تمام ہندوستانی زبانوں کے ساتھ اس کے تعلقات میں نفرت کے بیج بو رہی ہے، جب کہ زبانوں کے درمیان فطری رشتے باہمی دینے اور لینے کے تعلقات ہیں، جو سب کو تقویت بخشتے ہیں، باہمی نفرت کے رشتے نہیں ۔  کرناٹک اور مہاراشٹر کی سرحد پر واقع بیلگام کے علاقے میں جہاں لوگ دونوں زبانوں کے امتزاج سے ماخوذ ملی جلی زبان کا استعمال کرتے رہے ہیں، کنڑ بنام مراٹھی کے ٹکراؤ کی لسانی سیاست جو کر رہی ہے زبانوں کے رشتوں میں نفرت کے بیج بوئے جانے کی ہی مثال ہے ۔ ہندی کی بالادستی کے قیام سے اس کا تعلق یہ ہے کہ ہندی کی اس حیثیت کا دعویٰ زبانوں کے باہمی تال میل میں بالادستی کے ماڈل کو ہی قائم کرتا ہے ۔ اس کی جڑ میں کسی کا استحصال اور کسی کے خلاف نفرت موجود رہتی ہے ۔ وزیر اعظم نے جہان خسرو تقریب میں اپنی تقریر سے اردو ہندی کی اس بحث پر لگام لگانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن یہ بحث تھمتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ۔ اردو کا شکوہ اب بھی اپنی جگہ قائم ہے؛
کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں جانا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button