مضامین و مقالات

ایران میں مہنگائی کا طوفان،وزیر خزانہ کو ایوان سے برطرف کردیاگیا

سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد

رابطہ: 8099695186

ایران ایک جمہوری ملک ہے اور جغرافیائی اعتبار سے یہ ملک بہت اہم سمجھا جاتا ہے،قدرتی گیس، تیل اور قیمتی معدنیات اسکے دامن میں پوشیدہ ہیں،رقبہ کے اعتبار سے دنیا میں سترہویں نمبر پر شمار کیا جاتاہے،ایران دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے،اس ملک کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے،جو سلطنت مدائن 678 برس قبل مسیح سے لیکر صفوی اور رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت تک پھیلی ہوئی ہے،یہ ملک اپنے تہذیب وتمدن کے اعتبار سے ایشیاء میں تیسرے اور دنیا میں گیارہویں نمبر پر ہے،یورپ اور ایشیاء کے وسط میں ہونے کے باعث اسکی ایک تاریخی اہمیت ہے،ایران اقوام متحدہ سے غیروابستہ ممالک کی تحریک،اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم(اوپیک) کا بانی رکن ہے،تیل کے عظیم ذخائر کی بدولت بین الاقوامی سیاست میں یہ ملک اہم ترین کردار اداکرتاہے،لفظ ایران کا مطلب آریاؤں کی سرزمین ہے،ملک ایران 1648195 مربع کیلو میٹر پر پھیلا ہواہے،وہاں کی کل آبادی 85 ملین سے زائد ہے،آبادی کے لحاظ سے ایران دنیا میں 17 ویں نمبر پرہے،آج کل ایران اقتصادی بحران کا شکار ہے اور وہاں کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بے لگام وبےتحاشہ مہنگائی ہے۔
ابھی دوتین دن پہلے ایرانی پارلیمنٹ نے اپنے وزیر خزانہ کا مواخذہ کرتے ہوئے انھیں ایوان سے برطرف کردیا،ایران میں بڑھتی اور بےتحاشہ مہنگائی نے وزیر خزانہ کو پارلیمنٹ سے برخاست کروادیا،ایرانی پارلیمنٹ نے گذشتہ اتوار اور یکم رمضان کے دن وزیر خزانہ عبدالناصر ہمتی کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور کرتے ہوئے،انہیں ایوان سے برطرف کردیا،ایرانی پارلیمنٹ نے اقتصادی بدانتظامی اور اپنی کرنسی ریال کی قدر میں مسلسل کمی پر ملک کے وزیر خزانہ کو برطرف کرنے کے حق میں ووٹ دیا،پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا کہ 273 میں سے 182 ارکان نے عبدالناصر ہمتی کے خلاف ووٹ دیا،جبکہ ایوان میں 290 نشستیں ہیں۔یہ برطرفی ایرانی صدرمسعود پزشکیان کی کابینہ کے اقتدار سنبھالنے کے 6 ماہ بعد عمل میں آئی ہے۔یہ قدم ملک میں بڑھتی مہنگائی،بے روزگاری اور ریال کی تاریخی گراوٹ کے درمیان اٹھایا گیا ہے۔ صدر مسعود پزشکیان نے مواخذے کی کارروائی کے دوران اپنے وزیر خزانہ کا دفاع کیا اور کہا کہ معاشرے کے موجودہ معاشی مسائل کا تعلق کسی ایک فرد سے نہیں ہے اور نہ ہی ہم فرد واحد کو اسکے لئے ذمہ دار ٹھہراسکتے ہیں،دوسری جانب ارکان پارلیمان نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے عبداالناصر ہمتی کو ملک کے معاشی مسائل کا ذمہ دار قرار دیا،ایک رکن پارلیمنٹ روح اللہ متفکر آزاد نے اپنے بیان میں کہا کہ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی نئی لہر کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتے،غیرملکی کرنسی کی قدر اور اشیاء کے نرخوں میں اضافے کو بہرحال کنٹرول کرناچاہئے،ایک اور رکن پارلیمان فاطمی محمد نے کہا کہ ملک کے حالات یہ ہو گئے ہیں کہ لوگ دوائیں اور طبی آلات خریدنے سے قاصر ہو گئے ہیں،خیال رہے کہ مسعود پزشکیان نے گزشتہ برس جولائی میں معیشت کی بحالی اورمغربی پابندیوں کے خاتمے کے عزم کے ساتھ صدر کا عہدہ سنبھالا تھا،مگر وہ اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں ہنوز ناکام ہیں،ایرانی ریال کی قدر گرتی چلی جا رہی ہے اور افراط زر بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کا اظہار اراکین پارلیمان نے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزیر خزانہ و اقتصادیات کو ان کے عہدے سے ہٹا کر کیا ہے،ہمتی کے خلاف ووٹنگ ہوئی،جس میں 273 میں سے 182 ارکان پارلیمنٹ نے وزیر خزانہ کے خلاف ووٹ دیا،ایران کو ایک عرصے سے معاشی بحران کا سامنا ہے،اتوار کو بلیک مارکیٹ میں ریال کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے 920,000 لاکھ تک گر گئی،جو 2024 کے وسط میں 600,000 لاکھ تھی،وہاں کے حالات بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ایران کی معیشت دسمبر 2024 میں مزید کمزور ہوئی کیونکہ شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف بحران گہرا ہوتا چلا گیا۔ایران کو 2018 سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد ایران پر مزید سخت پابندیوں کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔امریکہ نے حال ہی میں ایران کی تیل کی تجارت پر نئی پابندیاں عائد کیں،جس سے اس کی معیشت پر مزید دباؤ ڈالا گیا۔عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ایران میں افراط زر کی شرح 2019 سے مسلسل 30 فیصد سے اوپر رہی ہے۔یہ شرح 2026 میں 48 فیصد تک پہنچ جائے گی۔اسی وجہ سے اپریل 2023 میں ایرانی پارلیمنٹ نے اس وقت کے وزیر صنعت رضا فاطمی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔اسرائیل کے ساتھ جاری کشیدگی بھی ایران کے اقتصادی بحران کی ایک بڑی وجہ بن گئی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر متعدد بار حملے کر چکے ہیں جس کی وجہ سے تجارت اور سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر یہ تنازعہ بڑھتا ہے تو اس سے ایران کی معیشت پر مزید سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ایرانی وزیر خزانہ کے مواخذے اور ان کو برطرف کرنے کے بعد خبرہے کہ ایران کے نائب صدر جواد ظریف بھی اپنے عہدے سےمستعفی ہو گئے ہیں،ایران کے نائب صدر محمد جواد ظریف نے اچانک اپنے عہدے سے استعفی دے دیا،ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق صدر مسعود پزشکیان کو جواد ظریف کا استعفی موصول ہو گیا ہے،تاہم اس پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا،استعفی دینے کے بعد جواد ظریف نے انکشاف کیا کہ انہیں اور ان کے خاندان کو شدید الزامات،دھمکیوں اور توہین کا سامنا تھا،انہوں نے کہا کہ ایران کی عدلیہ کے سربراہ نے انہیں مستعفی ہونے کا مشورہ دیا،جس پر میں نے عمل کیا،جوادظریف 2013 سے 2021 تک حسن روحانی کی حکومت میں وزیر خارجہ رہے،انہوں نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا،جس کے باعث وہ عالمی سطح پر ایک نمایاں سفارت کار سمجھے جاتے ہیں،ان کے استعفی کو ایرانی سیاست میں بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کے اثرات ایران کی داخلی و خارجی پالیسی پر بھی پڑھ سکتے ہیں،تجزیہ نگاروں کے مطابق اقتصادی بحران کی وجہ سے ایرانی نائب صدر نے استعفی دیاہے،تاکہ کہیں ایوان انکا مواخذہ بھی نہ کرلے،مواخذے سے بچنے کی یہ کوشش بھی ہوسکتی ہے۔
یہ تو تھی ایران کی تازہ صورتحال،آئیے اب ذرا جائزہ لیتے ہیں اپنے ملک بھارت کا،یہاں کی صورتحال کیا ہے،اس کو سمجھنے کے لئے گزشتہ ہفتے کی یہ رپورٹ جواواخر فروری میں شائع ہوئی ہے،ملاحظہ فرمائیے۔”ہندوستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت میں سے ایک ہے،غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی آبادی تقریبا 1.4 ارب ہے اور اتنی بڑی آبادی میں سے تقریبا 100 کروڑ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے پاس اشیائے ضروریہ کے علاوہ کچھ بھی خریدنے کو پیسے نہیں ہیں،یعنی بھارت کو کنگال بنادیاگیا،’بلوم وینچرس’ کی سنسنی خیز ایک نئی رپورٹ میں اس تعلق سے کچھ اہم انکشافات ہوئے ہیں،اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے والے لوگوں کی تعداد 13 سے 14 کروڑ کے درمیان محدود ہے،یہ تعداد اتر پردیش کی آبادی سے بھی کم ہے،اس کے علاوہ 30 کروڑ ایسے لوگ ہیں جو دھیرے دھیرے خرچ کرنا سیکھ رہے ہیں،لیکن ان کی جیبوں میں اتنے پیسے نہیں بچ رہے ہیں کہ وہ اضافی خرچ کر سکیں،ڈیجیٹل پیمنٹس نے ہندوستانی شہریوں کی خریداری کو آسان تو بنا دیا ہے لیکن لوگوں کے خرچ کرنے کی عادتوں میں اب بھی پس و پیش کی کیفیت بنی ہوئی ہے،ہندوستان میں امیروں کی تعداد میں اس تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ نہیں ہو رہا ہے،جتنی تیزی سے امیروں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے،یعنی جو پہلے سے امیر ہیں وہ مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں، لیکن نئے امیروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے،اس کا اثر براہ راست بازار پر پڑ رہا ہے، کمپنیاں اب سستی مصنوعات بنانے کے بجائے مہنگے اور پریمیم پروڈکٹس بنانے پر زور دے رہی ہیں،مثلا لگزری اپارٹمنٹس کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور سستے وقابل استطاعت گھروں کی حصہ داری گزشتہ پانچ سالوں میں 40 فیصد سے کم ہو کر صرف 18 فیصد رہ گئی ہے،قیمتی اسمارٹ فون تو تیزی سے فروخت ہو رہے ہیں لیکن سستے ماڈل کے خریدار کم ہو گئے ہیں کولڈ پلے اور ایڈیشران جیسے بین الاقوامی ستاروں کے مہنگے کنسرٹ ٹکٹ پلک جھپکتے ہی فروخت ہو جاتے ہیں،لیکن عام لوگوں کے لئے تفریح مہنگا ہوتا جا رہا ہے، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے بعد ہندوستان کی معیشت کی بحالی k کی شکل کی رہی ہے یعنی امیروں کے لیے اچھے دن توآگئے لیکن غریبوں کی حالت اور خراب ہو گئی،اس کو اس طرح سمجھیئے کہ 1990 میں ہندوستان کے سر فہرست 10 فیصد لوگ 34 فیصد قومی آمدنی کے مالک تھے،آج وہی 10 فیصد لوگ 57.7 قومی آمدنی کے مالک ہو گئے ہیں،ملک کے سب سے غریب 50 فیصد لوگوں کی آمدنی 22.2 فیصد سے کم ہو کر محض 15 فیصد رہ گئی ہے یعنی امیروں کے لئے دنیا اور چمکدار ہو گئی ہے،جبکہ غریبوں کے لئے حالات پہلے سے زیادہ مشکل ہو گئے ہیں،ہندوستان کا متوسط طبقہ بھی مشکلات میں پھنستا جا رہا ہے،مہنگائی میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے، گزشتہ 10 سالوں میں ٹیکس دینے والے متوسط طبقے کی آمدنی عملی طور پر جمود کا شکار رہی ہے،یعنی مہنگائی کے حساب سے دیکھیں تو ان کی تنخواہ نصف ہو گئی ہے،اگر آج کی بات کریں تو متوسط طبقے کی بچت گزشتہ 50 سال کی کم ترین سطح پر ہے لوگوں کی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے”
بھارت میں ہر روز مسلسل یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ 2047 تک بھارت ترقی یافتہ ملک بن جائے گا،وزیراعظم مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت اور بی جے پی این ڈی اے کا یہ عزم ہے اور عوام کو بھی اسی کے لیے پکارا جا رہا ہے،وزیراعظم نے بھارت کو دنیا کے لئے کارخانہ قرار دیا ہے،حالانکہ یہ جزوی سچائی لگتی ہے کیونکہ بھارت مینوفیکچرنگ پیداوار اور صنعت وغیرہ میں مسلسل پیچھے جا رہا ہے،مقصد یہ طے کیا گیا تھا کہ اس شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ تقریبا 25 فیصد ہونا چاہیے لیکن یہ حصہ 15 فیصد سے بھی کم ہو گیا ہے یہ وہ شعبہ ہے جس میں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوتے ہیں،دراصل بھارت مینو فیکچرنگ ہب کی بجائے ٹریڈنگ ملک بنتا جا رہا ہے،یہاں عام آدمی کی اوسط آمدنی تقریبا 28 فیصد بڑھی ہے،جبکہ صنعت کاروں اور امیروں کی آمدنی میں 350 فیصد کا اضافہ ہوا ہے،یہ اقتصادی عدم مساوات بھارت کی اصل حقیقت ہے،اس لئے ترقی یافتہ معیشت کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہونی چاہئے،اس وقت بھارت چار ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے سے بہت پیچھے ہے تو پھر یہ پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت والا ملک کیسے بنے گا؟ویسے 30 ٹریلین ڈالر کے جھوٹے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں،جس ملک میں 81 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو ہر ماہ مفت اناج فراہم کیا جارہا ہو اور یہ اسکیم 2029 تک جاری رہے گی،وہ ملک 2047 تک ترقی یافتہ ممالک کے گروہ میں کیسے شامل ہوسکتا ہے؟دراصل مفت خور سیاست ایک طبقے کو سست اور نکما بنا رہی ہے اور معیشت کو کھوکھلا کررہی ہے،کیونکہ بھارت میں ہنر کی کمی ہے،پیداوار میں کمی ہے،آمدنی اور خرچ کے موازنہ میں عدم توازن ہے،تویہاں کی معیشت کس طرح بڑھ سکتی ہے؟ 10 فیصد لوگوں کے ذریعے ملک کب تک چل سکتا ہے؟یہ بھارت کی داخلی حقیقت ہے،چونکہ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے یا آمدنی کے ذرائع خشک ہوتے جارہے ہیں،اس لئے اسکا اثر اوسط بچت پر بھی پڑے گا،بھارت میں بچت کے معاملے میں تقریبا 44 فیصد کمی آئی ہے،جو بچت 20/2019 میں 11 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ تھی،اب 2025 میں وہ گھٹ کر 6.52 لاکھ کروڑ روپے ہو گئی ہے،ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی پر کوئی قابو نہیں پایا جارہا ہے،تعلیم اور صحت میں کوئی اہم ترقی نہیں ہورہی ہے،ہماری کرنسی مسلسل گرتی جا رہی ہے،آج بازار کی کشادگی کے وقت ڈالر کی قدر 87.36 روپے تھی،جوملکی تاریخ میں سب سے کم ترین سطح پر ہے،2014 میں بھاجپا کے اقتدار میں آنے سے بھارت آزادی کے بعد سے اب تک کے سب سے بدترین اورمشکل دور سے گزر رہا ہے،جون 2024 میں ملک پر 176 لاکھ کروڑ کا قرضہ تھا،اب یہ قرضہ مارچ 2025 تک بڑھ کر181 لاکھ کروڑ ہوجائے گا،ایسی صورت میں یہ کہنا درست ہے کہ نریندر مودی ہر سطح (خارجی و داخلی) پر اقتصادی و سفارتی‌ جنگ ہار چکے ہیں،اپریل میں اقتصادی تباہی کا جو طوفان متوقع ہے،وہ منھ سے نوالہ ہی نہیں چھینے گا تن سے کپڑے بھی اتار لے گا۔۔
بھارت کے لوگوں کو جھوٹ اور فریب کے ذریعے کب تک بہلایا جائے گا؟ اپنے یہاں بھی ایران جیسی صورتحال ہے،ایران ان دنوں جس طرح اقتصادی بحران کا شکار ہے،وہاں بے روزگاری،مہنگائی اور افراط زر کی مسلسل کمی کی وجہ سے جن چیلنجوں کا سامناہے،ٹھیک اسی طرح اپنے بھارت کی صورتحال بھی یہی ہے،لیکن ایران میں وزیر خزانہ کا مواخذہ ہورہاہے اور انھیں پارلیمنٹ سے برطرف کیا جارہاہے،وہاں کا نائب صدر ملکی حالات کے پس منظر میں استعفی دے رہاہے اور بھارت میں کیا ہورہاہے؟یہاں بڑھتی مہنگائی کے بارے میں وزیر خزانہ سے سوال کیاجاتاہے،اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمت کے بارے میں سوال پوچھا جاتاہے تو فینانس منسٹر فرعونی لہجے میں میڈیا والوں کو جواب دیتی ہیں کہ میں پیاز اور لہسن وغیرہ نہیں کھاتی ہوں،ملک میں بے روزگاری سرچڑھ کر بول رہی ہے،مہنگائی کا عفریت آسمان چھورہاہے،کرنسی زمیں بوس ہورہی ہے،ایسے میں بھارت کے فینانس منسٹر اورحکمراں طبقے کا مواخذہ کب ہوگا؟کس چیز کا انتظار کیاجارہاہے؟اور انھیں پارلیمنٹ سے کب برطرف کیا جائے گا،کیا بھارت میں بھی حکمراں طبقے کا کوئی وزیر اخلاقی طور پر استعفی دے گا؟اگر نہیں تو پھر ملک کے لئے آگے کا راستہ کیاہے؟

*(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*
[email protected]

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button