مضامین و مقالات

عالم کی سب سے بڑی سیکیولر جمہوریت بھارت دراصل کس کا ہے؟

 

۔ نقاش نائطی

نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز دہلی

. +966562677707

 

کیا چاند ستاروں کی موجودگی کا بھی ثبوت مانگا جائیگا؟ بھارت کے مسلمانوں کو غدار دیش دروھ اور پاکستان چلے جاؤ کہنے والو، ذرا اپنے بھارت کی تاریخ ہی کو اچھی طرح پڑھ اور سمجھ لو۔ اس چمنستان بھارت پر تم سنگھی ھندوؤں سے زیادہ، ہم مسلمانوں کا زیادہ حق ہے۔

کیا تم بھول گئے؟سینٹرل لیجسلیٹیو اسمبلی پر بم دھماکے کے الزام میں دیش کی آزادی کے سب سے بڑے نیتا سمجھے جانے والے، ویر بھگت سنگھ کو جب عدلیہ میں انگریز جج کے سامنے پیش کیا گیا تھا تو انگریز جج کے یہ پوچھنے پر کہ مسلمان مغلوں نے تم بھارتیہ ھندوؤں پر 800 سالہ لمبے عرصے تک حکومت کی تو، تم یا تم جیسے کسی ھندو نے،ان مغل حکمرانوں کےخلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی؟ آج جب ہم صرف 150 سال سے تم بھارتیوں پر حکومت کررہے ہیں تو تم ہمارے خلاف صف بستہ ہم سے نجات حاصل کرنے، ہم پر بم حملہ کرتے ہوئے، انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کے مرتکب ہورہے ہو؟ اس کے جواب میں ویر بھگت سنگھ نے کیا خوبصورت جواب دیا تھا؟ اسے آپ ہی کے ھندو کی لکھی ہسٹری کی کتاب گرور اینڈ گرور میں لکھے بھگت سنگھ کے جواب کو ہم یہاں نوٹ کئے دیتے ہیں۔

"بھگت سنگھ کا پیارا سا جواب تھا ۔ مغلوں نے، بے شک ہم پر 800 سال حکومت کی، لیکن وہ حکومت صرف چمنستان بھارت کی سر زمین پر نہ تھی، بلکہ کروڑوں بھارتیوں کے دلوں پر بھی مغلوں نے حکمرانی کی تھی” زمانہ قدیم سے مختلف راجے، مہاراجے، نواب، اور سلطان ،کنیا کماری سے دہلی کلکتہ کشمیر تک، اس چمنستان بھارت کو بندر بانٹ کی طرح مختلف ٹکڑوں میں بانٹے ہوئے،اس پرنہ صرف راج کر رہے تھے، بلکہ اپنی اپنی سلطنتوں کی توسیع و وسعت کے لالچ میں،اس دیش کی ھندو مسلم جنتا کو زبردستی اپنی اپنی افواج کا حصہ بنائے، ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے، معصوم بھارتیوں کا ناحق خون بہائے جارہے تھے، فاتح راجپوت راجہ، اپنے ہی جیسے کسی اور ھندو راجپوت راجہ پر حملہ کر، اسے شکست فاش دیتے ہوئے، اس راجیہ میں نہ صرف لوٹ مار کیا کرتے تھے، بلکہ اس راجیہ کی اپنی ھندو راجپوت ماؤں بہنوں کی عزتوں کو سر عام پامال کرنا،اپنا بہادری درشانے جیسا عمل سمجھتے تھے۔ چند برہمن راجپوت راجاؤں کے، بڑے سے بڑا راجہ بننے کی، نہ مٹنے والی بھوک کے چلتے، ہزاروں لاکھوں بھارتیہ ھندوؤں کی جانیں نہ صرف ان آپسی جنگوں میں قربان کی جاتی تھیں، بلکہ ہزاروں ھندو راجپوت عورتوں کو اپنی عزت آبرو کھوئے ہوئے، خود کشی کر مرنا پڑتا تھا یا فاتح ھندو راجپوتوں کی ھندو افواج کے ہاتھوں ہمیشہ لٹتے، بے عزتی کی زندگی جینا پڑتا تھا۔ راجپوت ھندوؤں کے ویر سمراٹ رانا سانگھا نے، اپنے دشمن راجپوت راجا کو شکست فاش دینے ہی کے لئے،پہلے افغانستان سے مسلم حکمرانوں کو، اس آسمانی ویدوں والی سر زمین بھارت پر بلوایا تھا۔ یہ مسلمان حکمران راجپوت ویر رانا سانگھا کے بلاوے پر بھارت آکر بس بھی گئے اور یہاں بھارت کی لوٹ مار قتل و غارت گری دیکھ کر، نہ صرف یہیں کے ہوکر رہ گئے، بلکہ کنیا کماری سے دہلی کشمیر کلکتہ تک مختلف راجے مہاراجہ نوابوں سے لڑتے ہوئے، یا تو انہیں شکست فاش دیتے ہوئے، یا انہیں اپنی تابع داری میں لیتے ہوئے، نہ صرف ایک وشال اکھنڈ بھارت کی تعمیر کی تھی۔ بلکہ یہاں کی دولت لوٹ کر اپنے ملک افغانستان یا ایران لے جانے کے بجائے، اسے یہیں بھارت میں، عظیم الشان عمارتیں، پارک باغات اسکول و ہاسپیٹل و سڑکین شاہرائیں تعمیر کرتے ہوئے، بڑے بڑے مندروں مسجدوں درگاہوں کی تعمیر و اس کہ دیکھ ریکھ پر، اس دیش کی دولت کو خرچ کرتے ہوئے، مختلف راجوں مہاراجوں نوابوں سلطانوں کی ہوس و بھوک کے ہاتھوں، صدا لٹتے رہے بھارت کو، ترقی پزیری کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے ، اتنی ترقی دی تھی کہ اس وقت کا سب سے بڑا وشال بھارت، اپنی 27فیصد جی ڈی پی کے ساتھ، پورے عالم میں سونے کی چڑیا ایسا مشہور ہوا تھا کہ آج ہم بھارتیوں کے یورپ و امریکہ و کھاڑی کے عرب دیشوں میں ملازمت کے لئے گئے جیسا، یورپ و وسط ایشیا کے گورے بھارت روزی روٹی کمانے آتے تھے۔ اس وقت سونے کی چڑیا بھارت کی ایسی چمک دمک تھی کہ آدھے عالم پر حکمرانی کرتی ملکہ انگلستان نے، تاجروں کے بھیس میں اپنے ایجنٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کو، بھارت بھیجا تھا۔ اور مغل حکمرانوں کی اجازت سے تجارت کے بہانے یہاں بھارت آکر، بھارت کے مختلف راجوں مہاراجوں نوابوں کو،مغل حکمرانوں کے خلاف صف بستہ ہونے، حربی مدد کرتے ہوئے اور مغلوں کے ہاتھوں ہزیمت زدہ، نظام حیدر آباد، شیواجی مہاراج جیسے راجوں نوابوں کو، مغلوں کے خلاف لڑاتے ہوئے، چمنستان بھارت میں ھندو مسلم منافرت کا بیچ بوتے ہوئے، مغلوں کو کمزور کرتے ہوئے، بھارت پر انگریز حکمرانی کی راہ ہموار کی تھی۔ اورآپ لوگ (ماقبل آزادی ھند، ھندو مہا سبھائی اور ان کی اولادیں آج کے یہ سنگھی آرایس ایس، بی جےپی والے، تجارت کے بہانے ھند آکر،یہان کے مختلف ھندو حکمرانوں کو آپس میں لڑاکر،انہیں ہتھیار اور گولہ بارود بیچتے ہوئے،بتدریج ھند پر قبضہ کرنا شروع کیا تھا۔آپ سنگھیوں نے مغلوں کے خلاف ان فرنگی گوروں کی مدد نہیں کی ہوتی تو انگریز بھارت میں، مغل حکمرانوں کے خلاف بھارت کو کبھی غلام نہیں بناسکتے تھے۔اور بھارت اب تک کتنی تروی کرچکا ہوتا!

ھندو کی لکھی ہسٹری کی کتاب گرور اینڈ گرور میں لکھا ہوا ہے کہ بھگت سنگھ نے دو ٹوک اس انگریز جج سے کہا تھا کہ "مغلوں نے جس بھارت کو سونے کی چڑیا مشہور کیا تھا،آپ نے گنگا کنارے کھڑے انگریز جہازوں پر، ایک اسپنج کی طرح بھارت کی دولت کو چوس چوس (لوٹ لوٹ) کر، انگلستان ویلزندی کنارے اسے نچوڑتے ہوئے، بھارت کی لوٹی ہوئی دولت سے مالامال کرتے ہوئے، انگلستان کوآبادکیا تھا۔ آپ تو بھارت کی دولت لوٹ لوٹ عالم کے مالدار ترین ملک بن گئے تھے لیکن مغلوں نے یہاں آکر اس وقت کے سو سے زیادہ مختلف راجوں ریاستوں میں بٹے، بھارت کو نہ صرف ایک عظیم وشال اکھنڈ بھارت میں بدل کے رکھدیا تھا بلکہ ھندو مسلمانوں کو محبت چین و آشتی کے ساتھ رہنا سکھاتے ہوئے، ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس کے آج کے فقیر منش لٹیرے، مسٹر پھینکو کے نعرے کو دو ڈھائی سو سال قبل ہی عملا” پورا کرتے ہوئے، ھندو مسلمان، سب کا ساتھ لیتے ہوئے، عالم کا نہ صرف اس وقت کا، بلکہ اب تک کے عالم کا سب سے زیادہ 27 فیصد جی ڈی پی والا، سونے کی چڑیا ملک بھارت بنادیا تھا۔ مغل حکمرانوں نے، اپنے ملک ایران عراق و دیگر کھاڑی کے عرب ملکوں کے اعلی تعلیم یافتہ کاریگروں کو بھارت لاکر، دہلی کا لال قلعہ، قطب مینار اور ہمایوں کا مقبرہ، اور آگرہ کا تاج محل نیز فتح پور سیکری کے عجیب و غریب شاہ کار عمارتیں تعمیر کرتے ہوئے، نہ صرف اس وقت کے، بلکہ مغل راج ختم ہوئے آج پونے تین سو سال بعد بھی، یہ عالیشان عمارتیں، نہ صرف بھارت کی شان سمجھی جاتی ہیں، بلکہ دنیا بھر کر سیاحوں کو بھارت کھینچ لاتے ہوئے، لاکھوں کروڑ کا زرمبادلہ بھارت کی جھولی میں ڈالتے ہوئے، بھارت کی معشیت کو اب بھی مستحکم کر رہی ہیں

سب سے اہم آج کل کے سنگھی مودی یوگی جو ان مغل حکمرانوں کے خلاف بھارت کی جنتا کے اذہان کو پراگندہ کررہے ہیں۔ انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہونا چاہئیے، 11 سو سال قبل جب یہ مغل حکمران یہاں بھارت کی سرزمین پر آئے تھے تو اسوقت سے ان کی حکومت اختتام تک، ان مغل حکمرانوں کی آل کے تمام تر لوگ،نہ صرف یہیں کے ہوکر رہ گئے تھے بلکہ یہیں اسی زمین میں دفن ہوتے ہوئے، تا قیامت اسی سرزمین بھارت کا حصہ بن چکے ہیں، جبکہ برہمن راجوں مہاراجوں کے ساتھ سے، مغلوں کو شکست فاش دئے، بھارت کو غلام بنانے والے، فرنگی انگریزوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے،اس وقت کے ھندو مہا سبھائیوں کی، آج کی اولادیں، برہمن پونجی پتی گجراتی کروڑ پتیوں کی طرح، بھارت میں کمانے اور یہاں کے بنکوں کو چونا لگاتے ہوئے لاکھوں کروڑ بھارت کے پیسے لوٹ لےجا ودیش میں بستے، وہاں کے ودیشی ملکوں کو آباد کر، اپنے بھارت کو کنگال نہیں کیا تھا۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں جتنے بھی مالی معشیتی گھوٹالے ہوئے ہیں اور جتنے بھی ھندو برہمن، بینکوں کو چونا لگا یہاں بھارت کی دولت کو لوٹ کر، ودیش بھاگ گئے ہیں اگر تحقیق و محاسبہ کیا جائے تو سوائے وجئے ملیہ یا ایک آدھ دوسرے راجیہ کے ھندو کے علاوہ، سب کے سب گجراتی برہمن ہی لاکھوں کروڑ کا بھارت کو چونا لگا، لوٹ لوٹ کر ودیش لے جاچکے ہیں۔ ہم تو یہی کہیں گے اگر کوئی اہل علم آر ٹی آئی قانون کی مدد سے یا اپنے ذرائع سے،بھارت کے آزاد ہونے سے اب تک ان گجراتی برہمنوں کے ہاتھوں بھارت کی لوٹ کی تفصیل دیش واسیوں کے سامنے لائی جائے تو، دیش کی 138 کروڑ جنتا کو بخوبی ادراک ہوگا کہ فرنگی انگریز کے ان گجراتی برہمن چیلوں نے، انگریزوں کے نقش قدم پر، انگریزوں سے زیادہ بھارت کو لوٹ کر، بھارت کو کنگال بنایا ہوا ہے

اب رہی بات مسلم حکمرانوں نے بھارت کو کیا دیا ہے، تاریخ کی کتابوں کے حوالے ہی سے بھارت میں سب سے پہلے جنگی توپ لانے والے مغل حکمران ظہیرالدین بابر ہی تھے۔

1799 مراٹھا کنگ شیواجی مہاراج اور نواب حیدرآباد کی کمک کے ساتھ انگرئزوں کی فوج کے ہاتھوں شکست کھاتے ہوئے، اس سرزمین بھارت پر اپنی جان نچھاور کرنے والے حضرت ٹیپو سلطان شہید علیہ الرحمہ کے خزانے سے ملی، انکی اپنی خود کی لکھی کتاب "فتح المجاہدین” انگریز سپہ سالار اپنے ساتھ برطانیہ لے گئے تھے تو اسوقت 1801 سے 1805 تک پورے 5 سال انگریزوں کے اعلی تعلیم یافتگان نے اس کتاب فتح المجاہدین سے، آس وقت ٹیپو سلطان کی بنائی ہوئی دنیا کی پہلی میزائیل ٹیکنولوجی "میسورین میزائل” کے راز کو جاننے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے تھے۔ دراصل حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمہ کی لکھی اس کتاب فتح المجاہدین میں، اس وقت ٹیپو سلطان کے بنائے، میسیورین میزائل بنانے کا راز فارسی میں لکھا ہوا تھا، ٹیپو سلطان کی تاریخ پڑھ کے ان سے متاثر ہو 20ویں صدی کے آخری سالوں میں مدراس ٹمل ناڈ کے مسلمان سائینس دان، اے پی جے عبدالکلام نے، میزائل ٹیکنالوجی پر تحقیق کا کام شروع کیا تھا اور اگنی اور پرتھوی میزائل کا تحفہ بھارتیہ افواج کو دیتے ہوئے، بھارتیہ افواج کو عالم کی طاقت ور ترین افواج میں سے ایک بنا دیا تھا۔ پورا بھارت اگنی اور پرتھوی میزائل کے خالق، سابق صدر ھند، آے پی جے عبدالکلام کو، جہاں میزائل میں آف انڈیا کی حیثیت جانتا ہے، اے پی جے ابوالکلام، حضرت ٹیپو سلطان کو، اپنا میزائل ٹیکنالوجی کا استاد تسلیم کرتے ہیں۔ تو گویا عالم کو سب سے پہلے میزائل ٹیکنالوجی دینے والے، میزائل میسورین کے موجد یا فاؤنڈر سلطان حضرت ٹیپو سلطان ہی تھے۔ اسکے اعتراف کے طور امریکی اسپیس ٹیکنولوجی، ناسا کی عمارت کے استقبالیہ ھال میں، دیوار پر حضرت ٹیپو سلطان شہید کی گھوڑے پر بیٹھی قدر آدم پینٹنگ انکے بنائے میزائل کے ساتھ انہیں سلام کرتے بنائی گئی ہے۔ کیا یہ بات ہم بھارتیوں کے لئے باعث صد افتخار بات نہیں ہے؟اتنا سب کچھ جانتے بوجھتے آج کی دنیا کے سب سے گھاتک ہتھیار میزائل کے موجد حضرت ٹیپوسلطان شہید علیہ الرحمہ کو،انکی فرنگی انگریزوں کے اس وقت تلوئے چسٹنے والوں کی آج کی اولادین یہ سنگھی منافرتی غنڈے حضرت ٹیپو شہید کو آزادی ھند کا ھیرو تک تسلیم کرنے سےگریز کرتے پائے جاتے ہیں۔اب تو عالم کے تعلیم یافتگان کو بخوبی معلوم ہوچکا ہے کہ عصر جدید حرب کے سب سے موثر ترین ہتھیار،میزائل ٹیکنولوجی

عالم انسانیت کو دینے والے حضرت ٹیپو شہید علیہ الرحمہ ہی ہیں۔ اس 20 ویں صدی میں، بھارت کو اگنی و پرتھوی میزائل سے لیس کرنے والے، بابائے میزائل ھند بھی الحمد للہ مسلمان ہی ہیں۔

قحط سالی سے نپٹنے اور کسانوں اور عام خریداروں کے درمیان بچولیوں اور پیسے والے تونگروں کی لوٹ کھسوٹ سے اپنی رعایا کو بچانے، کسانوں سے براہ راست اناج خرید کر حکومتی سطح پر بھنڈار گھر محفوظ رکھنے کی شروعات مسلم بادشاہ ھند خلجی دور حکومت میں شروع کی گئی تھی اور اسی خلجی دور حکومت میں بازار میں ب

بیچے جانے والی تمام اجناس سرکاری قیمتیں متعین کی گئی تھیں تاکہ گجراتی ساہوکاروں کی ذخیرہ اندوی لوٹ مار سے عام انسانوں کو آمان دلائی جاسکے۔

بھارت کے سابق شہنشاہ شیر شاہ سوری ہی وہ مسلم شہنشاہ تھے جنہوں اپنے زمام حکومت میں، آج کے ریونیو ٹیکس سسٹم سے بھارت کو متعارف کیا تھا اور اس ٹیکس سسٹم کی شروعات کی تھیں ۔ بھارت میں پولیس و ڈاک نظام متعارف کرانے کا اعزاز بھی مسلم شہنشاء شیر شاہ سوری کے سر پر سجتا ہے۔ یہی نہیں ان ایام جب تعمیرات کی ایسی شاندار مشینیں دریافت نہیں ہوئی تھیں کلکتہ سے پاکستان پشاور تک دونوں طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر، سایہ دار درخت لگے، عظیم الشان شاہراہ گرینڈ ٹرنک ہائی وے کی تعمیر بھی مسلم شہنشاہ شیر شاہ سوری ہی کی زمام حکومت دوران بنائی گئی تھی۔ پہلے کے سکوں والے کرنسی نظام میں جدت لاتے ہوئے، موجودہ دور والے نوٹوں کے کرنسی نظام کو بھی شروع کرنے کا سہرا مسلم شہنشاہ شیر شاہ سوری ہی کو جاتا ہے۔

انگریز حکومت کے خلاف بھارت کے مسلمان صوفی سنتوں نے ہی، انگریزوں کے اناج کے گودام لوٹ کر غریب بھارتیوں میں تقسیم کرتے ہوئے، سے 1773عیسوی میں سب سے پہلی بغاوت کی ابتدا کی تھی جسے انگریز تاریخ دان اپنی کتابوں میں فقیر اینڈ سنیاسی ربلئین (بغاوت) کے نام سے یاد کرتے ہیں اور یہ فقیر سنیاسی والی بغاوت تقریبا 50 لمبے سال تک چلی تھی۔

1857 میں مسلم عالم دین علامہ فضل حق خیر آبادی نے، انگریزوں کے خلاف جہاد فرض ہونے کا فتوی دیتے ہوئے، مسلمانوں کو بھارت کی آزادی کی عملی جدوجہد شروع کرنے پراکسایا تھا۔ جس کے چلتے شمالی ھند دیوبند کے علماء نے دیوبند سے دہلی آکر،اسے انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرایا تھا۔ جس پر اس وقت کا انگریز لیفٹینٹ جنرل جان ھیڈسن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ بڑی مشکل سے ہم نےبآغیوں کے قبضہ سے دہلی کو دوبارہ آزاد کرایا تھا۔ انگلینڈ سے آئے ایک ٹیلگرامک خط میں، انگلینڈ والےبرطانوی سامراج نے قبول کیا تھا 1857 کا غدر یا جنگ آزادی ھند، دراصل علماء کرام کی آزادی ھند کی جدوجہد تھی۔ اس پر وہ بڑے فخر سے لکھتے ہیں کہ ہم نے اس وقت بغیر قانونی کاروائی کے دسیوں ہزار مسلمان عالموں کو، نہ صرف موت کے گھاٹ اتارا تھا بلکہ ان علماء دین کو دیوبند سے دہلی آنے والی شاہراہ کے دونوں طرف کے درختوں پر انہیں پھانسی دی تھی تاکہ انکی لٹکتی لاشوں کو دیکھ کر، بھارتی عوام آئیندہ انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے کی ہمت نہ کر پائیں۔ 1857 کی غدر کی پاداش میں جن 57،209 بھارتیوں کو مارا گیاتھا ان میں 27 ہزار صرف علماء دین اسلام شہید کئے گئے تھے۔

تاریخی کی کتاب گرور اینڈ گرور میں، ویر ساورکر، جان نکلسن کی کتاب کا حوالہ دیکر لکھتے ہیں، 1857 کی پہلی جنگ آزادی کا سب سے زیادہ اثر مسلم قوم کو 27 ہزآر علماء کرام کی شہادت اور بہادر شاہ ظفر کو انکی اسیری میں رہتے، ان پر کئے جانے والے ظلم کی صورت اٹھانا پڑا تھا۔ انکے اپنے دو بیٹے اور ایک پوتے کو شہید کر انکے تین سر ایک بڑی رکابی پلیٹ میں رکھ، لال مخمل کے کپڑے سے ڈھک کر، صبح ناشتے میں، والی ھند، بہادر شاہ ظفر کے سامنے ناشتے کے طور جب پیش کیا گیا تھا تو اس کے بعد سے بہادر شاہ ظفر نے، فرط غم میں ناشتہ کھانا تک چھوڑ دیا تھا۔ بیک جنبش قلم بہادر شاہ ظفر کو ، گر شہید کردیا جاتا تو بھارت کی عوام کی بغاوت کاخطرہ، انگریز کو جو تھا، اس لئے طویل وقتی اثر انداز ہونے والا زہر بہادر شاہ ظفر کو متواتر دیا جاتا رہا تاکہ وہ تل تل ٹڑپ، قدرتی موت مرجائیں، اسی لئے انگریز ڈاکٹر زہر آلود مرہم علاج کے بہانے، بہادر شاہ ظفر کی آنکھوں میں لگاتے تھے جس سے انکی بینائی جاتی رہی، انہیں سازش کے تحت اندھا کرنے کا مقصد، انکے معذور ہونے کا بہانہ بنا، انہیں تاجدارِی بھارت سے بیگانہ کرنا جو تھا۔۔

بھارت کو فرنگی انگریزوں سے آزادی دلوانے 1790 انگریزوں سے حضرت ٹیپو سلطان کی شروع کی ہوئی آزادی ھند کی جنگ سے ان کی شہادت اور 1857 کی غدر، جنگ آزادی ھند کی آخری بغاوت تک، ہم بھارتیہ مسلمانوں کی شاندار تاریخ رہتے ہوئے بھی، اس وقت آزادی ھند کے ھیروز کی انگریزوں کو مخبری کرنے والے، انگریزوں کے وعدہ معاف گواہ، ویر ساورکر کے چیلے، اس وقت کے ھندو مہاسبھائی اور آج کے آرایس ایس بی جے پی والے، یہ سنگھی ہم 30 کروڑ بھارتیہ مسلمانوں سے، ہماری قربانیاں کیا ہیں پوچھتے ہیں؟ یہ آج کے سنگھی برہمن ہماری شاندار تاریخ سے، کیا واقف نہیں ہیں؟ یقینا وہ ہماری شاندار تاریخ کو اچھی طرح جانتے بوجھتے، آج کی نئی ھندو نسل کو،بھارت کی اصل تاریخ آزادی ھند سے بیگانہ کرنے، ہم مسلمانوں کے خلاف بہکانے اور بھڑکانے کے لئے دانستہ تاریخ کو توڑ مروڑ ، اپنا جھوٹ مکرر بولے اور بکے جارہے ہیں ۔ لیکن اس دیش کے ہزاروں سیکیولر ذہن تاریخ دانوں کی لکھی تاریخ کی کتابیں ہی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہم مسلمانوں کے آزادی ھند، ہماری قربانی کی داستانیں اور ان سنگھیوں کے انگریز کی وفاداری و آزادی بھارت کے تئیں غداری کی داستانیں، مستقبل کی نئی نسل برادران وطن کو باخبر کرنے کے لئے کافی ہیں ۔وما علینا الا البلاغ۔

 

 

 

بھارت پر مسلم حکمرانی کی ہزار سالہ روشن تاریخ غوری سلطنت سے نریندر مودی تک

 

غوری سلطنت

 

1 = 1193 محمدغوری 2 = 1206 قطب الدین ایبک

3۔ = 1210

4۔ = 1211

5 = 1236 رکن الدین فیروز شاہ

6 = 1236 رضا سلطان

7 = 1240 موزالدین بہرام شاہ

8 = 1242 الدین مسعود شاہ

9 = 1246 ناصر الدین محمود

10 = 1266 غیاث الدین بلبن

11۔ = 1286 مسجد کا 12 = 1287 کبدان

13 = 1290 شمس الدین کامرس عظیم سلطنت کا خاتمہ (حکومتی دور -97 سال تقریباً)

 

خلجی سلطنت

 

1 = 1290 جلال الدین فیروز خلجی

2 = 1292 علاؤالدین خلجی

4 = 1316 شہاب الدین عمر شاہ

5 = 1316 قطب الدین مبارک شاہ

6 = 1320 ناصر الدین خسرو شاہ خلجی سلطنت کا خاتمہ ( دور حکومت – 30 سال تقریباً )

 

تغلق سلطنت

 

1 = 1320 غیاث الدین تغلق (پہلا)

2 = 1325 محمد ابن تغلق (II)

3 = 1351 فیروز شاہ تغلق

4 = 1388 غیاث الدین تغلق (II)

5 = 1389 ابوبکر شاہ 6 = 1389 محمد تغلق (سوم)

7۔ = 1394 ………(I)

8 = 1394 ناصر الدین شاہ (دوم)

9 = 1395 نصرت شاہ 10 = 1399 ناصر الدین محمد شاہ (II)

11 = 1413 گورنمنٹ تغلق سلطنت کا خاتمہ (حکومتی دور -94 سال تقریباً)

 

سعید خاندان

 

1 = 1414 کھجور خان 2 = 1421 معیز الدین مبارک شاہ (دوم)

3 = 1434 محمد شاہ (IV)

.4= 1445= اللہ عالم شاہ۔ سلطنت سعید کا خاتمہ ( دور حکومت – 37 سال تقریباً )

 

لودھی سلطنت

 

1 = 1451 بہلول لودھی 2 = 1489 لودھی (II)

3 = 1517 ابراہیم لودھی لودھی سلطنت کا خاتمہ (حکومتی دور 75 سال تقریباً)

مغلیہ سلطنت

1 = 1526 ظہیر الدین بابر 2 = 1530 ہمایوں۔ مغلیہ سلطنت کا خاتمہ

 

سوری سلطنت

 

1 = 1539 شیر شاہ سوری

2 = 1545 اسلام شاہ سوری

3 = 1552 محمود شاہ سوری

4 = 1553 ابراہیم سوری

5 = 1554 پرویز شاہ سوری

6 = 1554 مبارک خان سوری

سوریائی سلطنت کا خاتمہ (حکومتی دور 16 سال تقریباً)

 

مغلیہ سلطنت

 

1 = 1555 ہمایوں (دوبارہ)

2 = 1556 جلال الدین اکبر

3 = 1605 جہانگیر

4 = 1628 شاہ جہاں

5 = 1659 اورنگ زیب 6 = 1707 شاہ عالم (پہلا)

7 = 1712 بہادر شاہ 8۔ = 1713

9۔ = 1719

10۔ = 1719…………

11۔ = 1719………… 12 = 1719 محمود شاہ

13 = 1748 احمد شاہ 14۔ = 1754…………

15 = 1759 شاہ عالم 16 = 1806 اکبر شاہ

17 = 1837 ظفر مغلیہ سلطنت کا خاتمہ۔ (حکومتی دور 315 سال تقریباً)

 

برطانوی راج

 

1 = 1858 لارڈ کنگ

2 = 1862 لارڈ جیمز بروس ایلگن

3 = 1864 لارڈ جے لارنس

4 = 1869 لارڈ رچرڈ میو

5 = 1872 لارڈ نارتھبک

6 = 1876 لارڈ ایڈورڈ لاطینی

7 =1880 لارڈجارج رپن

8 = 1884 لارڈ ڈفرن

9 = 1888 لارڈ ہینی لیسڈن

10 = 1894 لارڈ وکٹر بروس ایلگن

11 = 1899 لارڈ جارج کورجین

12 = 1905 لارڈ گلبرٹ منٹو

13 = 1910 لارڈ چارلس ہارج

14 = 1916 لارڈ فریڈرک سے خزانہ تک

15 = 1921 لارڈ رکس ایجاک رِڈگ

16 = 1926 لارڈ ایڈورڈ ارون

17 = 1931 لارڈ فرمین ویلڈن

18 = 1936 لارڈ الیجینڈرا لنلتھگو

19 = 1943 لارڈ آرچیبالڈ وہیل

20 = 1947 لارڈ ماؤنٹ بیٹن

برطانوی سامراج کا خاتمہ(حکومتی دوران سال)

 

ہندوستان، وزرائے اعظم

1 = 1947 جواہر لعل نہرو

2 = 1964 گلزاری لال نندا

3 = 1964 لال بہادر شاستری۔

4 = 1966 گولزاری لال نندا

5 = 1966 اندرا گاندھی

6 = 1977 مرارجی دیسائی

7 = 1979 چرن سنگھ 8 = 1980 اندرا گاندھی

9 = 1984 راجیو گاندھی

10 = 1989 وی پی سنگھ

11 = 1990 چندر شیکھر

12۔ = 1991 پی وی. نرسیما راؤ

13 = 1992 اٹل بہاری واجپائی

14 = 1996 دیوے گوڑا

15۔ = 1997 آئی کے گجرال

16 = 1998 اٹل بہاری واجپائی

17 = 2004 منموہن سنگھ

18 = 2014 نریندر مودی۔(حکومتی دوران سال)

800 سال سے ایک مسلم سلطنت ہونے کے باوجود ہندوستان میں ہندو باقی ہیں۔ مسلم حکمرانوں نے ان کے ساتھ کبھی نا انصافی نہیں کی اوربعد آزادی ھند، ہندوؤں کی سیکیولر جمہوری حکومت قائم ہوئے، 67 سال بعد، ھندو شدت پسندوں کی جمہوری حکومت قائم ہوئے ابھی 11سال بھی نہیں ہوئے ہیں، اور یہ شدت پسند مسلمانوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں!!

یہ معلومات 140 کروڑ اکثریت سیکیولر ذہن برادران وطن طلباء اور اساتذہ کو دی جانی چاہیے۔ تاکہ انہیں احساس ہو کہ 800 سالہ مسلم حکمرانی بھارت کے ھندو کتنے خوش تھے اور اس 11 سالہ رام راجیہ پرتیک آریس ایس بی جے پی سنگھی مودی یوگی راجیہ میں ہزاروں سال چین و سکون سے مل جل رہنے والے 30 کروڑ مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی، کیا کیا تیاریاں یہ سنگھی شدت پسند ھندو کررہے ہیں۔ وما علینا الا البلاغ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button