
مجروح سلطان پوری کے اشعار میں لفظی کساو
اردو زبان وادب کی تاریخ اتنی بھی کم عمر نہیں کہ اس زبان کو کمسن کہا جائے ۔سچ تو یہ ہے کہ اب یہ بناو سنگھارکے لیے کسی مخصوص سنگھار میز کی محتاج نہیں ۔جہاں چاہے وہاں اپنا سنگھار کر لیتی ہے ۔مگر اس بدلتے ادوار میں زبان میں بھی تحقیقات کاسلسلہ برقرار رہا اور اب بھی جاری ہے ۔جس سے عمیق مطالعہ پسند لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو نئے رنگ روپ میں ڈھالتے ہیں اور پیش کرتے رہتے ہیں ۔جو ہرزندہ زبان کی ارتقائی منزلوں کی طرف سفر کی پہچان ہے ۔مگر اردو ادب گروہ بندی سے کبھی آزاد نہیں رہا ۔تنقیدی تصادم، برتری و شیخی اور ایسا ویسا، یوں اور یوں کا مرض ہردور میں لاعلاج رہا ۔یہی وجہ ہے کہ حلقہء اربابِ ذوق نے اہلِ ثروت و اہل اثر رسوخ کی پزیرائی میں اپنی تشہیر کی راہ ڈھونڈ لی ۔اور زیادہ تر انھی پہ قلم اٹھایا ۔بل کہ کتابیں بھی مرتب کیں ۔منظم گروہ بندی نے اپنے اپنے گروہ کے ہلکے پھلکے کو بھی گرو ثابت کرنے کی ہمیشہ کوششیں کیں ۔جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ نردھن قلم کار بے دھن تو تھے ہی لیکن اچھے فن کار ہونے کے باوجود بے فن قلم کاروں کی فہرست میں بھی جگہ نہیں پاسکے ۔۔۔
مجروحؔ صاحب عروس البلاد میں مقدرکی سلطانی لے کر آئے اور فلمی دنیا سے وابستگی کے بعد آسودہ حال ہوئے ۔حکمت کی مہارت کی طرح وہ جب شعریت میں حکمت کی طرح عمیق پن اور مقدارتعداد سے کام لینے لگے فن کاری شفا بخش نسخہ ہو گئی ۔۔مگر ان کی شہرت بلندی ان کی فلمی دنیا سے وابستگی سے ہے ۔غزل کے وہ اچھے شاعر تھے اس میں شبہ تو نہیں ۔لیکن اگر صداقت سے کام لیں تو ان کے ملنے جلنے والے بھی وہ لوگ زیادہ تھے جو مالی حیثیت سے خوش حال تھے ۔لہذا ان کی غزل فن کاری کی تشہیر میں ان کا عمل دخل زیادہ ہے۔مشہور کے قریب رہ کر اپنی پہچان بنانے کا شوق. کسے نہیں ہوتا ۔۔البتہ گیتوں کے حوالے سے انھیں جوشہرت ملی وہ عالم گیر تھی اور ہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی شاعری کم زور ہے ۔نہیں ۔ایسا نہیں ۔لیکن جو کچھ راقم ان کے تعلق سے تفصیل میں گئے بغیر چند لفظوں میں کہنا چاہتا ہے ۔اس کا اعتراف خود مجرؔوح اپنی شاعری اور اکثر نامہ ترسیلی میں بھی کرتے رہے ہیں
۔
"ہجوم دہر میں بدلی نہ ہم نے وجع خرام
گری کلاہ ہم اپنے ہی بانکپن میں رہے ”
مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان کی تعلیم عربی، فارسی، اردو ہی سے تھی ۔لہذا اردو غزل ہی میں نہیں فلمی گیتوں میں بھی. مجروحؔ نے اسی روایتی وضع سے قلم چلایا جو انھوں نے اپنے ادب پرکھوں کے مطالعے سے اخذ کیا تھا ۔فارسی الفاظ کو نغموں میں استعمال سے گریز نہیں کیا ۔ بعض قلم کاروں کے لیے وہ متنازعہ بھی رہے اس کی وجوہات کی تفصیل کی قطعی یہاں ضرورت بھی نہیں ۔ان پہ لکھے گئے مضامین سے اسے سمجھا جا سکتا ہے ۔۔۔یاپھر اس طرح کے شعروں میں وہ خود جھلکتے ہیں ۔
"داغ سے مہکی ہوئی زخموں سے لالہ پیرہن
کس قدر ملتی ہے شاخ درد سے شاخ چمن ”
مجروحؔ زبان کی لوچ لچک سے پوری طرح واقفیت رکھتے تھے ۔لہذا ہر شعر کو انھوں نے بار بار کی فکر اور ایک طرح سے پالس کرکے چمکایا ہے ۔حشوین سے بچنے کی بھر پور کوشش کرتے رہے ہیں ۔ادب جہان کے ملاقاتیوں کے دلوں کے اندر اتر کر انتشار و افتراق کے آثار بھی جانتے رہے ہیں ۔اسی لیے جہاں جہاں انھوں نے دامن بچانے کی کوشش کی وہیں ان پہ کچھ قلم کاروں نے ان کے مزاج پہ کچھ شبہ کیا اور ان کی مخالفت بھی کی ۔لیکن مجروحؔ اکثر جزوی اختلافات کو در گزر بھی کرتے رہے ہیں ۔بعضے تو ان کی ادبی دعوت پہ ان کے یہاں پہنچے اور وقت سے پہلے انھیں ملنے نہیں دیا گیا تو دل برداشتہ ہوکران کے دروازے سے واپس بھی ہوئے ہیں ۔
"سیدھی ہے راہ شوق پہ یوں ہی کبھی کبھی
خم ہوگئی ہے کوچہ دلدار کی طرح ”
مجروحؔ ادب میں ناطرف دار تماشائی کی حیثیت سے بہت کچھ دیکھ چکے تھے ۔لہذا کبھی کبھی اپنی کج کلاہی سے حد سے زیادہ چمٹے رہے ہیں ۔مگر اشعار کی تراش خراش میں بڑی مشقت سے کام لیا۔ غزل کے کامیاب شاعر کہلانے کے باوجود انھیں خود بہت سی ادبی راہوں سے بے سفری کا احساس بھی رہا ہے ۔۔باری صاحب کو ایک خط میں لکھتے ہیں ۔۔۔
"گرامی منزلت ڈاکٹر باری صاحب ۔ایک تو پہلے ہی اس فرزند عالی مقام سے جی لگتا بھی ہے اور کبھی کبھی خلش سی بھی ہوتی ہے کہ آخر میں اتنی اعلی درجہ کی تنقیدی زبان کیوں نہیں لکھ سکتا اور اتنا وسیع مطالعہ میرا کیوں نہیں ہے ۔پھر کچھ نہ پوچھئے کہ انگریزی سے اپنی نا واقفیت کیا کیا جی جلتا ہے” ۔”
اس مختصر سے اقتباس میں انگریزی سے نا واقفیت کا اظہار ایک الگ چیز ہے لیکن وہ خود معترف ہے کہ بدلتے دور کے ساتھ جس زبان سے کام لینا ضروری تھا یعنی جس طرح کی زبان میں فن پیش کرنا چاہیے تھا نہیں کرسکے۔
اس کی وجہ تو صاف ہے کہ وہ اپنی روایتی روش سے الگ چلنے کو تیار نہ تھے ۔فلمی گیتوں میں بھی انھوں نے اپنے روایتی مروج الفاظ کو بڑی خوب صورتی سے نبھایا ۔مجروحؔ کی غزلیں اتنی بھی نہیں ہیں کہ شمار کرنے میں وقت لگے ۔۔بہ ہرکیف جتنی غزلیں ہیں بڑی فنی مشاقی کےساتھ کہی ہوئی ہیں ۔تاہم ہر ناقد ہر بڑے شاعر پہ لکھتے ہوئے کچھ تلاش کر ہی لیتا ہے۔ مجروح صاحب کی غزلوں میں میری ایسی کسی تلاش کی کوشش نہیں ہے۔آخر میں مجروحؔ صاحب کا ایک شعراور پھر اجازت ۔۔
"مجھے سہل ہوگئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے ”
منظؔر خیامی ۔۔باغ مانڈلا ۔کوکن ۔مہاراشٹر