اسلامیات،افسانہ و غزلیات

دو بیل

غضنفر علی

ہیں تو یہ دونوں بیل ہی مگر منشی پریم  چند کے بیل نہیں۔ پریم چند کی کہانی میں تو بیلوں کی جوڑی ہے مگر میں جن بیلوں کی کہانی سنا رہا ہوں انھیں بیلوں کی جوڑی کہنا درست نہیں کہ یہ بے جوڑ ہیں گرچہ ایک ہی جگہ رہتے ہیں مگر یہ ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ ان میں سے ایک ایسا ہے جس کے نہ آگے ناتھ ہے نہ پیچھے پگہا۔بالکل بے لگام ہے۔ وہ رات دن سانڈ کی طرح اینڈتا رہتا ہے۔ جب
جدھر چاہتا ہے سینگ مار دیتا ہے۔ کبھی کسی بچھڑے کو ٹکریں مار مار کر لہو لہان کر دیتا تو کبھی کسی بچھیا کو خراب کر دیتا۔ کسی کے ناند یعنی چارہ پانی کے برتن کو توڑ پھوڑ دیتا ہے تو کبھی کسی کی کھڑی فصل کو تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے۔ کسی شخص کو اتنا دوڑاتا کہ وہ بے دم ہو کر رہ جاتا ہے  اور کسی کو سینگ پر اٹھا کر ایسا پٹکتا ہے کہ وہ آدمی چاروں خانے چت ہو جاتا ہے۔
اسے کانجی ہاؤس میں بھی باندھ کر نہیں رکھا جا سکتا کہ اس کے ماتھے پر میونسپلٹی کا ٹھپّا لگا ہوا ہے جس کا مطلب ہے یہ بیل سرکاری پناہ گاہ میں ہے۔ یعنی اسے قانونی طور پر تحفّظ حاصل ہے، اسے کوئی مار نہیں سکتا ۔کسی قسم کی زد نہیں پہنچا سکتا بھلے یہ کسی کو جان سے مار دے۔ کسی وجود کو ملیا میٹ کردے۔ اسے ہستی سے مٹا دے۔
دوسرا بیل واقعی بیل ہے۔ شب و روز جوئے میں جتا رہتا ہے۔ چپ چاپ چلتا رہتا ہے، بے چون و چرا ایک سیدھ میں بڑھتا رہتا ہے یا ایک دائرے میں گھومتا ریتاہے۔ ہر وقت مالک کے سونٹے کی آواز اس کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ بیل کیا یہ تو بالکل گائے ہے جس حالت میں کھڑا کر دیجیے۔ کھڑا رہتا ہے۔ جدھر ہانک دیجیے ہنک جاتا ہے۔ اف تک نہیں کرتا۔ سر کیا دُم تک نہیں ہلا پاتا۔ بیل کہیں کا ،کی کرخت اور نفرت آمیز آوزیں رات دن سنتا ریتا ہے۔ ممکن ہے سن کر کڑھتا بھی ہو مگر اس کی کڑھن نہ کبھی سنائی دیتی ہے اور نہ ہی کبھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ گائے کی طرح دودھ تو نہیں دیتا مگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو دودھ دیتا بھی ہے۔ اس کا دودھ تھنوں سے نہیں نکلتا بلکہ اس کے خون اور چربی سے باہر آتا ہے اور سیدھے کچھ لوگوں کے خون میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کا خون جلتا ہے اور چربی پگھلتی ہے تو دودھ بنتا ہے۔ اس کا دودھ سفید نہیں زرد اور مٹ میلا ہوتا ہے۔
اسے بیل بولنے میں کسی کو عار نہیں جب دیکھو تب اس کے ارد گرد بیل کہیں کا کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ ایک تو وہ پیدائشی بیل ہے اوپر سے ہم نے اس کا نام بھی بیل رکھ دیا ہے۔
دوسرا جس کا اوپر ذکر ہوا، بیل ہی ہے یعنی وہ بھی بیل کی جون ہی میں پیدا ہوا مگر اب وہ بیل نہیں بجار کہلاتا ہے کہ وہ بھگوان کے نام پر چھٹّا چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ جدھر چاہے جائے جو چاہے کھائے جو چاہے کرے، اس پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ کسی قسم کی پابندی نہیں۔
پوری کائنات اس پر کھلی ہوئی ہے، فضائیں مہربان ہیں۔ اس کی نشو و نما میں کہیں کوئی روکاوٹ نہیں۔ اسی لیے وہ پہاڑ کی طرح  اونچا اور چٹان کی مانند مضبوط ہے۔ اس کی کھال مخمل کی صورت چکنی ہے اور چاندی کی طرح چم چم چمکتی ہے۔ اس کے سینگوں میں اتنی قوت ہے کہ چٹان کو ٹکر مار دے تو چٹان چکنا چور ہو جائے۔ پہاڑ بھی مٹی کی مانند بھربھرا کر گر پڑے۔ وہ چلتا ہے تو لگتا ہے بیل نہیں ہاتھی چل رہا ہے بلکہ ہاتھی جھوم رہا ہے۔
ان میں سے ایک یا تو ہل کے جوئے میں جتتا ہے یا گاڑی کھینچنے میں لگا رہتا ہے۔ اسی لیے اس گاڑی کا نام ہی بیل گاڑی پڑ گیا۔ یا پھر وہ کولھو میں جیتا ہے اور کولھو کا بیل کہلواتا ہے۔ کولھو کا بیل اس لیے کہلاتا ہے کہ وہ دن رات کولھو کھینچتا ہے اور اس وقت تک کھینچتا رہتا ہے جب تک کہ رائی کے دانوں سے تیل نہ نکل آئے۔ اس عمل میں صرف تلہن کے دانے ہی نہیں کچلتے، بیل کے جوڑ جوڑ بھی کچلتے ہیں صرف رائی اور سرسوں کے گول گول دانے ہی نہیں پچکتے بیل کے سڈول پٹّھے بھی پچکتے ہیں۔صرف دانوں سے ہی تیل نہیں نکلتا بلکہ بیل کی ہڈیاں بھی پستی ہیں اور اس کے جسم و جان سے بھی تیل نکلتا ہے۔ آپ کو یقین نہیں آرہا ہے نا کہ بیل کے جسم سے بھلا تیل کیسے نکل سکتا ہے تو زیادہ نہیں صرف ایک آدھ گھنٹ کے لیے کولھو کا جوا اپنے کندھے پر رکھ لیجیے، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ بیل کے جسم سے تیل کیسے نکلتا ہے۔
کولھو کے ناک میں تو نکیل ہوتی ہی ہے اس کی آنکھوں پر بھی  پٹی بندھی ہوتی ہے اور منہ پر بھی جاب چڑھا ہوتا ہے کہ کہیں سرسوں کے دانوں میں منہ نہ مار لے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جاب نہ بھی ہو تب بھی وہ دانوں میں منہ نہیں مار سکتا کہ اس کی بند آنکھوں میں مسلسل ایک سونٹا لہراتا رہتا ہے۔ سڑاک سڑاک کی ایک آواز اس کی سماعت میں گونجتی رہتی ہے۔ ان بیلوں کو غور سے دیکھیے،ان کی صورتوں میں ممکن ہے آپ کو کچھ اور صورتیں بھی نظر آ جائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button