
آزاد ہندُستان میں مسلمانوں کی حقیقی آزادی
آزادی کسی بھی قوم کے لیے ایک قیمتی نعمت ہے جو انہیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق دیتی ہے۔ یہ نہ صرف خود مختاری کی علامت ہے بلکہ مذہبی، لسانی، تعلیمی، تہذیبی، ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی ترقی کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔سوئے قسمت ہمارے وطن ہندُستان نے انگریزوں کی غلامی کا طویل دور دیکھاہے۔ انگریزوں نے اپنی تجارتی کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندُستان کی اقتصادیات پر کنٹرول حاصل کیا ،پھر سیاسی طور پر بھی قبضہ جما لیااور عوام پر طرح طرح کے ظلم و ستم کیے۔ ہندُستان کی زرعی اور صنعتی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے انہوں نے ہندُستانی خام مال برطانیہ منتقل کر کے وہاں مصنوعات تیار کیں، پھر انہی مصنوعات کو ہندُستان میں فروخت کیا، جس سے مقامی دستکاریاں وصنعتیں برباد ہو گئیں ۔ان میں سب سے زیادہ تباہی ہتھ کرگھا صنعت(پارچہ بافی) کی ہوئی جو ملک میں زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والی صنعت ہے۔
انگریزوں کے مظالم جب بڑھ گئے تو ہندو اور مسلمان سپاہیوں اور عوام نے مل کر1857ء میںپہلی جنگ آزادی لڑی جسے انگریزوں کے بہی خواہ سر سید احمد خان نے ’’غدر‘‘ کہا۔ بعد میںمہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، مولانا ابو الکلام آزاد، سردار ولبھ بھائی پٹیل اورعبدالقیوم انصاری ودیگر قائدین کی قیادت میں انڈین نیشنل کانگریس کے شانہ بشانہ آل انڈیا مومن کانفرنس اورجمعیۃالعلماء ہند جیسی جماعتوں نے آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کی۔تحریک خلافت اور عدم تعاون جیسی تحریکوںنے عوام کو انگریزوں کے خلاف متحد کیا۔ محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی جدوجہد کی مگر اس نے قیام پاکستان کا مطالبہ کردیا جس میں وہ کامیاب بھی ہوئی ۔1947ء میںآزادی کے ساتھ ہی ملک تقسیم بھی ہوگیااور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
ہندُستان ایک عظیم سرزمین ہے جہاںمختلف مذاہب اور ان کے ماننے والے اپنے عقائد پر عمل پیرا رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے اور محبت کے ساتھ رہتے آئے ہیںنیز کثرت میں وحدت یہاںکاچلن ہے۔ آزادی کے بعد کانگریس پارٹی ایک غالب سیاسی طاقت بن کر ابھری اور ایک طویل مدت تک برسر اقتدار رہی ۔ بد قسمتی سے آزادی کے بعدبعض فرقہ پرست سیاستدانوں کی سازش کے سبب ملک میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی صورت حال قائم نہ رہ سکی اورمسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے کام لیا جانے لگا ۔آزادی کے محض دو برس ہی ہوئے کہ 1949ء میں رات میں چوری چھپے بابری مسجد میںرام کی مورت رکھ کر مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی ابتدا کردی گئی۔
حکومت اتر پردیش(کانگریسی وزیر اعلی گووند ولبھ پنت)کے ظلم کی انتہاتو تب ہوگئی جب مسجدسے مورت ہٹوانے کی بجائے وہاں تالا لگواکر مسلمانوں کے لیے نماز پڑھنے پر پابندی لگوادی گئی۔جبکہ وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دوراقتدار میں1986ء میں عدالت کا سہارا لے کربابری مسجد کا تالا کھلوادیا گیا اور ہندوؤں کو وہاں پوجا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔1989ء میںراجیو گاندھی حکومت نے رام مندر کے شیلانیاس کی اجازت دی جو بابری مسجد کے انہدام کی طرف پہلا قدم ثابت ہوا۔کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کے دور اقتدار میں 6 ؍دسمبر 1992 ء کو اتر پردیش کے ایودھیا میں انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔گویا کانگریس کی مرکزی حکومت کی ناک تلے سیکولرزم کی بنیاد ڈھادی گئیجس سے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس مزید گہر ا ہوگیا۔
کانگریس پارٹی کی یہ منافقت ہی ہے کہ ملک میں ریزرویشن کے فائدے سے مسلمان اور عیسائی دلت محروم ہیں کیونکہ آرٹیکل 341 کے تحت مذہبی قید لگا دی گئی ہے۔ 1950ء میں ایک صدارتی فرمان کے تحت صرف ہندو درج فہرست ذات (SC) کو ریزرویشن و دیگر مراعات مل سکتی تھیں۔ اس کے بعد1956ء میں سکھوں کواور 1990ء میںبودھوں کوبھی اس میں شامل کر لیا گیا، لیکن مسلمان دلتوں کو خارج رکھا گیا۔23؍ جولائی 1959ء کوایک دوسرے آرڈیننس میں یہ منظور ہوا کہ دلت مسلمان اگر ہندو بنیں تو یہ ریزرویشن ان کو ملے گا۔ اس سیاہ شرط کا مقصد مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے ایک چور دروازہ کھولنا ہے ۔اس طرح کانگریس کے دور اقتدار میں مسلمانان ہندبے روزگاری، تعلیمی ،اقتصادی اور سیاسی بدحالی و پسماندگی کی ایسی تصویر بنادیے گئے کہ ان کی حالت دلتوں سے بھی بد تر ہوگئی جس کا انکشاف سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔
کانگریس پارٹی کے دور اقتدارمیںمختلف مواقع پر ملک کے مختلف حصوں مسلم کش فسادات ہوئے۔مثلاًرانچی1967ء ، بھیونڈی1970ء ،بنارس1977ء ، جمشید پور1979ء، مرادآباد 1980ء ، ایک بار پھربھیونڈی1984ء ،میرٹھ1987ء ،بھاگلپور1989ء ودیگرمتعدد مقامات پر رونما ہونے والے فسادات کے علاوہ 1992ء میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک بھر میںہوئے فسادات جن میں ہزاروں مسلمانوں کی جانیں گئیں اور جائیدادتباہ کر دی گئیں۔ان فسادات کو روکنے اورفسادیوںکو سزا دلوانے میں کانگریس پارٹی کی حکومتوں نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی بلکہ زیادہ تر فسادات میں پولس و انتظامیہ کا کردار مسلم مخالف ہی نظر آیا۔اس طرح جہاں مسلمانوں کو ڈر و خوف میں مبتلاء رکھا گیا وہیں املاک اور کاروبار تباہ کرکے اقتصادی طور سے ان کی کمر توڑ دینے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔
کانگریس پارٹی کے دور اقتدار میں مسلمانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے معاملات میں پھنسائے جانے اور جیلوں میں ڈالنے اور بعض اوقات ان کا انکاؤنٹر کردینے کے متعدد واقعات پیش آئے۔ مالیگاؤں بم دھماکوں (2006ء )میں مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا، لیکن بعد میں این آئی اے کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ ان واقعات کے پیچھے دائیں بازو کی تنظیمیں تھیں۔ گجرات میںگودھرا فساد(2002ء) کے بعد متعدد مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا، حالانکہ بعد میں کئی مقدمات میں انہیں بری کر دیا گیا۔ 2008ء میںدہلی پولیس نے دعویٰ کیا کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں دہشت گردوں کو مارگرایا گیا، مگر کئی حلقوں نے اس کی شفافیت پر سوال اٹھائے اور اسے جعلی قرار دیا۔ ان واقعات سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ تعصب سے کام لیاگیا۔
کانگریس کی ناقص کارکردگی کے باعث مسلمانان ہند اور دیگر عوام ناراض ہوگئے۔شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کانگریس کے اقتدار کے دوران بی جے پی ’’ہندو احیا پرستی‘‘کے جذبات ابھار نے میں کامیاب ہو گئی ،جس کی بدولت 2014ء میںشری نریندر مودی کی قیادت میں اقتدار حاصل کر لیا۔ شری نریندر مودی کے گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے 2002ء میں گودھرا میں مسلم کش فساد ہواجس میں دو ہزار سے زائد مسلمان قتل ہوئے، عورتوں کی عصمت ریزی ہوئی، حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کیے گئے اور بچوں کو نیزوںپراچھالا گیا۔ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد فرقہ پرستوں کے حوصلے مزید بڑھ گئے۔
بساا وقات بی جے پی اور اس کی معاون تنظیموں کے رہنماؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور بیانات دیے جانے لگے۔2020ء میں دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں فرقہ وارانہ فساد کے دوران بعض بی جے پی رہنماؤں کے اشتعال انگیز بیانات نے تشدد کو ہوا دی جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ بعض اوقات مساجد، مزارات وخانقاہوں پرحملہ کرکے نقصان پہنچایا جاتا ہے اورفرقہ پرستوں کی جانب سے چوک چوراہوں پر میٹنگ منعقد کرکے مسلمانوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں نیز معاشی مقاطعہ کا اعلان کیا جاتا ہے۔عدالت کا سہارا لے کر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کر دی گئی جس میں سرکارنے ہر طرح سے ساتھ دیا۔ شری نریندر مودی نے ایک سیکولر ملک کا وزیر اعظم رہتے ہوئے مندر کی بنیادر کھی اور اس کا افتتاح بھی کیا۔ اب بنارس کی گیان واپی مسجد فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہے۔
مودی حکومت کے دوران شہریت ترمیمی قانون (CAA) نہ صرف متعارف کرایا گیا بلکہ تمام تراحتجاج و مخالفت کے باوجود اسے قانون کی شکل دے دی گئی جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش، اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم مہاجرین کو ہندُستانی شہریت دینے کی گنجائش پیدا کی گئی، لیکن مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ اس اقدام کو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے طور پر دیکھا گیا، جس سے انہیں بے وطن کرنے کے خدشات پیدا ہوئے۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) کے ساتھ مل کر، CAA نے مسلمانوں کے حقوق کو خطرے میں ڈال دیا اور انہیں اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے جدوجہد کرنے پر مجبور کیاگیا۔
اپریل 2021ء میںکرناٹک میںبی جے پی کے ایک رکن اسمبلی باسنگوڈا پاٹل یتنال نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کی۔ جون 2022ء میںنپور شرما نے ایک ٹی وی ڈیبیٹ میں اور نوین جندل نے ایک ٹویٹ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔2023ء میں تلنگانہ میں بی جے پی کے ریاستی صدر اور رکن اسمبلی راجہ سنگھ کی جانب سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کا واقعہ پیش آیا۔ان واقعات سے ہندُستان میں مسلمانوں اوران کی محترم شخصیات سے بڑھتی ہوئی نفرت اور مذہبی عدم برداشت کے رجحان کا پتا چلتا ہے۔
مودی حکومت کے دور میں گؤرکھشکوں نے 2015 میں دادری (اتر پردیش)کے محمد اخلاق، 2017 میں راجستھان کے پہلو خان کو گائے کا گوشت گھر میں رکھنے یا اسمگلنگ کے شبہ پر ہجوم نے قتل کردیا۔2017ء میں ٹرین میں سفر کر رہے ہریانہ کے جنید خان کو دیکھ کر فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کو ’گائے کا گوشت کھانے والے‘ کہہ کر مار اپیٹااور ٹرین سے نیچے پھینک دیا جس سے اس کی موت ہوگئی۔ بی جے پی کے بعض رہنماؤں نے ہجومی قتل کے واقعات میں ملوث تنظیموں کی حمایت کی ،لیکن ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی گئی۔ مختلف ریاستوں جیسے یوپی، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، ہریانہ، اور آسام میں مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کے لیے بلڈوزر کی کارروائیاں کی گئیں، جس سے سینکڑوں لوگ بے گھر ہوئے اور ان کے ذرائع معاش تباہ ہو گئے۔ ان کارروائیوں کو ماورائے عدالت سزا کی شکل دی گئی۔
’لوجہاد‘ کے نام پر بین المذہبی شادیوں کو نشانہ بناتے ہوئے مسلمانوں پر ہندو خواتین سے تعلقات رکھنے کا الزام لگا کر تشدد کیا گیا۔ فرقہ پرستوں نے مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے شادی کروانے کی دھمکیاں اور منظم طور پر کچھ مسلم لڑکیوں کوکبھی دھوکے سے پیار محبت میں تو کبھی سازشا پھنسا کر ہندو لڑکوں سے شادی بھی کروائی ۔ افواہوں یا غلط فہمیوں پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تبریز انصاری کو 2019 میں جھارکھنڈ میں ہجوم نے ’جے شری رام‘ کہنے پر مجبور کرکے مارا پیٹا، جس سے اس کی موت ہوگئی۔ ان واقعات کے بعد حکومت کی جانب سے مؤثر کارروائی نہ ہونے کے باعث اکثر مجرمین بچ نکلے۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بیانات اور ویڈیوز سے فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا ملی جس سے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا ہوا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور ظلم و زیادتی کے معاملات بڑھ گئے۔
کانگریس اور مودی حکومت دونوں نے مسلمانوں کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا۔ کانگریس کے دور میں مسلم کش فسادات صوبائی حکومتوں کی ناکامی کی وجہ سے ہوتے رہے، جبکہ مودی حکومت میں منظم اور منصوبہ بندطریقے سے مسلم مخالف فسادات، نفرت انگیز تقاریر، اور ہجومی قتل میں اضافہ ہوا۔ مودی حکومت کا نعرہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘‘ہے، مگر عملی طور پر مسلم مخالفت ہی نظر آتی ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی پیچیدگیاں، کورونا وبا کے دوران صحت عامہ کا ناقص نظام اور مزدوروں کی وطن واپسی کے ناقص انتظامات مودی حکومت کی ناکامیوں کے ثبوت ہیں۔ اب 2024ء میں تیسری بار تشکیل پانے والی مودی حکومت کی نوعیت قدرے بدل توگئی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ سابقہ روش پر قائم رہتی ہے یا ’’ستا دھرم‘‘ نبھاتی ہے۔
آزادی کے بعد مسلمانوں کو مختلف چیلنجزکا سامنا رہا ہے۔ نہ صرف کانگریس بلکہ غیر کانگریسی حکومتوں کا تجربہ بھی کامیاب نہیں رہا۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو حاشیے پر رکھا اور پسماندگی کے غار میں پہنچایا۔جمہوریت میں سیاسی شراکت داری ہی طاقت اور خوشحالی کاسر چشمہ ہوتی ہے، اس لیے مسلمانوں کو نئی سیاسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سیاست دوستی یا دشمنی کا کھیل نہیں ہے بلکہ مواقع کا کھیل ہے۔ سیاسی میدان میں مضبوط موجودگی قائم کرنے کے لیے مختلف سماجی، دینی و ملی جماعتوں اور تنظیموں کا ایک فیڈریشن بنانا چاہیے نیز برادران وطن کے ہم خیال افراد کے ساتھ نیٹ ورک قائم کرنا چاہیے۔ ذاتی مفادات، حاشیہ برداری، سیاسی جہانگردی اور چپقلش کو ایک طرف رکھ کر اپنے اندر سیاسی قیادت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں سے روابط مضبوط ہونا چاہیے تاکہ فیصلہ سازی کے عمل، ملک کی پالیسیوں اور ایجنڈوں کی تشکیل میں زیادہ سے زیادہ بات کرنے اور اپنا موقف پیش کرنے کے مواقع حاصل ہوں۔
کانگریس سمیت دیگرپارٹیوں کی جو غلطیاں ہوئی ہیں وہ سبھوں کے سامنے ہیں اور ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، جوہوچکا وہ ہوچکا۔اس کے باوجودمسلمانوں کے لیے کانگریس بھی ایک متبادل ہوسکتی ہے ۔ لالو پرساد یادو سے بھی بعض غلطیاں ہوئی ہیںلیکن انہوں نے سیکولر قدروں سے کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا ۔نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ ر ہتے ہوئے بھی کافی حدتک سیکولرموقف اختیارکیا۔تاہم خواتین بل، این آر سی،طلاق ثلاثہ اور تازہ وقف بل کے معاملے میں بی جے پی کی حمایت کی ہے۔پرشانت کشور کی پارٹی جن سُوراج پارٹی کی جانب عوام بالخصوص مسلمانوں کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ ملک کا آئین سیکولر ہے اور مسلمان ہمیشہ اس کی پاسداری کرتے آئے ہیں، اس لیے موجودہ حالات میں بھی سیکولرزم کے ساتھ، مگر اپنی شرطوں کے تحت ہی جانا چاہیے۔آئین کی دفعہ 341 سے مذہب کی قید ہٹا کر مسلمانوں کو ریزرویشن میں شامل کرنے کا مطالبہ بھی ضروری ہے۔ مسلمانوں کو اس پارٹی کے ساتھ چلنا چاہیے جو انہیں آبادی کے تناسب سے نمائندگی دے اور تعلیم، روزگاراور سماجی تحفظات کی یقین دہانی کرائے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ مسلم معاشرے میں موجود طبقاتی تفریق اونچ نیچ، اشراف و ارذال کی فکراور ذات برادری کی بنیاد پر برتری کی سوچ کو ختم کرنا ضروری ہے، نیز ایسے نظریات کے حاملین چاہے وہ عالم ہوں، دانشور ہوں، یا مفکر، ان سے برأت کا اظہار کرنا چاہیے۔ تمام تعلیمی، سماجی، دینی اوردینی و ملی اداروں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ مسلمانوں کے ہر طبقے اور حلقے کی مؤثر نمائندگی ہو تاکہ کوئی بھی خود کو نظرانداز یا محروم نہ سمجھے۔ بصورت دیگر دوسروں سے شکایت کرنا بے سود ہوگا، کیونکہ ایسی شکایتیں ہمارے اندرونی حلقوں میں بھی موجود ہیں، جنہوں نے ملت کو کمزور کیا ہے۔ اگر ہم اپنے سابقہ موقف کا از سر نو جائزہ لیں اور اپنے اندر ایک جامع معاشرہ تشکیل دیں تو یہ ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہو سکتی ہے اور یہی مسلمانوں کی حقیقی آزادی کی اصل روح ہوگی۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو پہلے اپنا محاسبہ کرنا ضروری ہے۔مسلم معاشرے میں موجود اونچ نیچ،اشراف و ارذال کی فکر اور ذات برادری کی تفریق ختم کرتے ہوئے اور ایسے نظریات کے حاملین و مبلغین سے برأت کا اظہار کرنا چاہیے،چاہے وہ کوئی عالم ہو،دانشور ہویا مفکر ۔تمام تعلیمی،سماجی،دینی و ملی جماعتیں اور ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ مسلمانوں کے تمام حلقے و طبقے ان کی نمائندگی کریں، تاکہ کوئی خود کو نظر انداز یا محروم نہ سمجھے ۔بصورت دیگر دوسروں سے شکایت کرنا بے سود ہوگا کیونکہ ایسی شکایتیں مسلمانوں کے اپنے حلقوںمیں بھی موجودہیں جنہوں نے ملت کو کمزور کیا ہے۔اگر ہم اپنے سابقہ موقف کا از سر نو جائزہ لیں اور اپنے اندر ایک جامع معاشرہ تشکیل دیں تو یہ ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہو سکتی ہے اور یہی مسلمانوں کی حقیقی آزادی کی اصل روح ہوگی۔