مضامین و مقالات

اصلاحات کے نام پر دہشت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
محکمہ تعلیم اور اس سے متعلقہ تعلیمی اداروں کے اساتذہ وکارکنون میں ان دنوں دہشت کا ماحول پایا جا رہا ہے، یہ ماحول محکمۂ تعلیم کے ایڈیشنل چیف سکریٹری کے کے پاٹھک کے نئے نئے احکامات کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے، اساتذہ اور طلبہ کی صدفی صد حاضری کو یقینی بنانے اور ٹیوشن کلچر کو ختم کرنے کی غرض سے جو احکامات محکمہئ تعلیم کی طرف سے جاری ہو رہے ہیں، وہ انصاف کے خلاف بھی ہیں اور قابل عمل بھی نہیں، اسکول کا وقت ۹/ بجے سے پانچ بجے کر دیا گیا ہے، آخر کے ایک گھنٹہ میں کمزور طلبہ کو الگ سے پڑھانا ہے، پانچ بجے کے بعد کم وبیش انہیں ایک گھنٹہ مزید ویڈیو کا نفرنسنگ پر لگانا ہے، اس طرح مدت کار کم وبیش نو گھنٹے ہوتی ہے، یہ فیصلہ پہلے سے موجود تعلیم کے حق کے قانون کی دفعات جس میں پرائمری اسکول کے بچوں کے لیے سال میں 800گھنٹے اور پانچویں جماعت سے اوپر کے طلبہ کے لیے سال کے تعلیمی اوقات ایک ہزار گھنٹے کے بھی خلاف ہے۔جاڑے کے ایام جن میں دن چھوٹا ہوتا ہے اور شام میں سردی کے اضافہ کے ساتھ دھندھ بھی پھیل جاتی ہے، پندرہ کلومیٹر کی دوری پر بھی اگراساتذہ رہائش پذیر ہوں تو بھی ان کا اپنے ٹھکانہ تک پہونچنا آسان نہیں ہے، سب کے پاس اپنی سواری نہیں ہوتی اور جاڑے کی شام میں ایک گھنٹہ سورج غروب کے بعد دیہاتوں میں سواریاں نہیں ملتیں اس لیے اس قسم کا حکم اساتذہ کو ہراساں اور پریشان ہی کرنے والا کہلائے گا، پھر کئی کئی بار اسکول کا معائنہ اچھی بات ہے، لیکن جو لوگ معائنہ کرتے ہیں وہ بھی عام طور پر اساتذہ ہوتے ہیں جو کسی اسکول میں بحال ہوتے ہیں اور  ڈپوٹیشن پر لے کر یہ خدمت ان سے لی جاتی ہے، ظاہر ہے جب اساتذہ کی تعداد اسکول میں پہلے ہی کم ہے تو ان اساتذہ کو اسکول سے اٹھا کر معائنہ یا بی ایل او کے کام میں لگا دینا اسکول کی تعلیم کا نقصان ہے، سینکڑوں کی تعداد میں اساتذہ بی ایل او جیسے غیر تدریسی کام میں لگے ہوئے ہیں، ضلع اور بلاک کے ذمہ داراس معاملہ میں اس قدر سخت ہیں کہ تنخواہ روکنے تک سے گریز نہیں کرتے ہیں۔
 اسی طرح تعلیمی اداروں میں یونین اور تنظیم بنانے اور احتجاج کرنے کے حقوق کو بھی کے کے پاٹھک نے اپنے ایک آرڈر کے ذریعہ سلب کر لیا ہے،جمہوریت میں تنظیم بنانے اور احتجاج کرنے کا حق تسلیم کیا گیا ہے، اس لیے اساتذہ یونین نے اسے غیر آئینی وغیر جمہوری قرار دیا ہے، اس کی وجہ سے محکمہ تعلیم، اساتذہ یونین کے ما بین دوریاں بڑھی ہیں اور پڑھائی کا معیار کیا خاک بڑھے گا، دہشت کے اس ماحول میں اساتذہ اس قدر نفسیاتی دباؤ میں ہیں کہ اسکول اور کالج میں تعلیمی ماحول سازگار نہیں ہو پا رہا ہے، سارا وقت اسکول کا اسی تبصرہ میں گذر جاتا ہے کہ آج کس پر پاٹھک کی گاج گرے گی، پاٹھک کے فرمان کی مخالفت کرنے پر ممبر قانون ساز کونسل کے سنجے کمارسنگھ کی پنشن روک دی گئی، یہ بہار یونیورسٹی کے اساتذہ تنظیم کے لیڈر ہیں، محکمہ تعلیم کو ان امور پر ضرور سوچنا چاہیے، کے کے پاٹھک کے سامنے وزیر تعلیم پرفیسر چندر شیکھر کی کچھ نہیں چل رہی ہے، بلکہ ایک بار پاٹھک جی نے وزیر تعلیم کے پی اے کو سکریٹریٹ احاطہ میں داخلہ پر پابندی لگا دی تھی، اس صورت حال کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ عوام کے چنے ہوئے نمائندہ اور محکمہ کے سب سے بڑے ذمہ دار بے اثر ہو کر رہ گیے ہیں۔ بیو رو کریٹ کی حکومت کا چرچا نتیش حکومت میں عام رہا ہے، لیکن اس سے حکومت کی پکڑ بیورو کریسی پر کمزور ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے، جو جمہوری حکومت میں پسندیدہ چیز نہیں ہے۔
کے کے پاٹھک کے فرمان اور غیر منصوبہ بند معائنہ کی وجہ سے یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اسکول میں اساتذہ وقت پر آنے لگے ہیں اور طلبہ کی حاضری کا تناسب بھی بڑھا ہے، تعلیمی نظام کو چست اور درست کرنا اچھی بات ہے، لیکن دہشت پھیلا کر نہیں۔ آخر دہلی میں تعلیمی نظام کیجریوال محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل چیف سکریٹری دور حکومت میں سدھرا، جس کی ملک گیر تعریف ہوئی، یہ سُدھار اساتذہ کو دہشت اور خوف کی نفسیات مسلط کرکے نہیں ہوا، دوسرے طریقہ کار سے ہوا، جس کو کے کے پاٹھک سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button