ملک میں مسلمانوں کی سیاسی قوت و قیادت
شیخ رکن الدین ندوی نظامی
دو مسلم اکثریتی ریاستیں ہیں۔۔
ایک کشمیر، دوسرے آسام۔۔
کشمیر میں کئی مسلم پارٹیاں اور قیادتیں موجود ہیں اور یکے بعد دیگرے ریاست پر حکومت بھی کر چکیں۔۔۔
لیکن اس کے ساتھ شروع ہی سے سوتیلا پن اور غیریت کا برتاؤ کیا جاتا رہا اور اب تو ایک مار تین ٹکڑے کردئے اور اس کی نیم خود مختاری بلکہ ریاست کی حیثیت ہی ختم کرکے union territory بنا کر مسلمانوں کو حکومت و اقتدار سے دور کر دیا گیا۔۔
دوئم آسام ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں بھی مسلم پارٹی ہے مولانا بدرالدین اجمل صاحب کی، AIUDF۔
آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ۔۔
جس کے ایک ایم پی اور پندرہ ایم ایل اے ہیں۔
اس ریاست کے ساتھ بھی غیریت برتی جاتی رہی، حتی کہ وہاں بسنے والے مسلمانوں کی شہریت ہی کو مشکوک گرادانا جاتا رہا، اور بوڈؤوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسا کر فسادات بھڑکائے جاتے رہے اور خون خرابہ کیا جاتا رہا۔۔ آٹھ آٹھ اضلاع میں بیک وقت فساد بھڑکتا، ہزاروں لوگوں کا قتل کیا جاتا رہا۔۔۔۔
کیرلا میں انڈین یونین مسلم لیگ ہے، جس کی قیادت بھی مضبوط ہے۔
اس کے لوک سبھا میں تین ممبران، راجیہ سبھا میں ایک اور ریاستی اسمبلی میں 15 ایم ایل ایز ہیں۔
حیدرآباد میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ہے، جس کے دو ایم پی ہیں۔
ریاستی اسمبلی میں سات ایم ایل ایز، دو ایم ایل سی۔
بہار میں ایک ایم ایل اے، مہاراشٹرا میں دو ایم ایل اے ہیں۔۔۔
اسی طرح ریاستی اور قومی پارٹیوں میں بھی مسلم نمائندے اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔۔۔
مگر
مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یا تو اپنی قوت کا احساس و اندازہ نہیں یا ہم عام طور پر غیروں کی تیروں اور تنقیدوں کا بآسانی شکار ہوجاتے اور بہکاؤ میں آتے ہیں اور اپنے آپ پر سے اعتماد کو متزلزل کر دیتے ہیں۔۔۔۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی قوت و طاقت کا اندازہ کریں اور اسے مزید مستحکم کریں۔۔
نوٹ: یہ مشہور و معروف پارٹیاں ہیں، اس کے علاوہ مقامی طور پر مزید ہوسکتی ہیں۔۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔۔