اسلامیات،افسانہ و غزلیات

جسم اور رشتے

غلام علی اخضر
”حرامی“
”رنڈی طوائف رنڈیوں کی بستی میں رہتی ہے اور پارسا بنتی ہے۔دیکھتا ہوں کب تک اسے بچا کر رکھتی ہے۔“ رنجن نے اس کی طرف تھوکتے ہوئے دانت پیس کر کہا۔
وہ بے حس وحرکت کھڑی دیکھتی رہی اور اس کی آنکھوں سے جھر جھر آنسوگرنے لگے۔وقت اور حالات نے آج اسے کہاں لا کر کھڑا کر دیا تھا کہ آج اسے اس طرح کی گالیوں کا سامنا کر ر پڑ رہا تھا۔جب کہ وہ ایک شریف خاندان اور خوشحال گھرانے کی لڑکی تھی بھگوان کی کرپا سے زندگی عیش و عشرت سے گزر رہی تھی مگر اسی دوران وہ نحس دن آیا کہ اس کے والدین نے ایک حادثے میں داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔پونم گھر کی بڑی لڑکی تھی اور ایک چھوٹا بھائی جو سات سال کا تھا ۔پونم اس وقت پندرہ سال کی تھی ۔چھوٹے بھائی کو اس کے والدین ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔والدین کے گزرنے کے بعد سبھی نے منھ موڑ لیا ۔یہاں تک کہ چچاﺅں نے تو جائیداد پر بھی قبضہ کر لیا۔ بدقسمت پونم ناخواندہ تھی ،اسے کوئی ایسی راہ نہیں دکھ رہی تھی جس سے وہ اپنے والدین کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔ہر وقت اس کے ذہن میں چھوٹے بھائی کو ڈاکٹر بنانے کی فکر رہتی۔کشمکش کے بیچ ایک دن پونم نے گھر چھوڑنے کا ارادہ کرلیا اور دوسرے دن صبح ہوتے ہی اپنے بھائی کو بوڈنگ اسکول (Boarding school)میں چھوڑ کر نم آنکھوں سے اس کے رخسار اور پیشانی کا بوسہ دے کر واپس ہو رہی تھی کہ تبھی بھائی نے کہا:
” پونم دیدی!مجھے چھوڑ کر کیوں جا رہی ہویہ اسکول ہے یا قید خانہ؟کہیں آپ مجھ سے دور تو نہیں جا رہی ہیںدیدی میرے بغیر آپ رہ لیں گی؟۔“
بھائی کے منھ سے یہ بات سنتے ہی پونم کا قدم تھم گیا اور دوڑ کر بھائی سے چمٹ گئی ۔
”گورو !میرے بھائی تمھیں ڈاکٹر بننا ہے نا“
”ہاں پونم دیدی !“
تو پھر تمھیں یہاں رہنا ہوگا۔“گورو اسکول میں پڑھنے لگا ۔سال بھی نہ گزا تھا کہ گھر میں والدین کی چھوڑی ہوئی رقم ختم ہوگئی۔اب امتحان کی گھڑیاںانگرائی لے رہی تھیں ۔سورج گھر واپسی کی تیاری میں تھا۔ آسمان بے رونق چہرہ لیے زمین کو تک رہا تھا۔ شام کی آمد پر چوچوچو کی آواز سے کیڑے مکوڑے استقبال کر رہے تھے ۔سہ پہر ختم ہونے کے بعد بھی آج ہوا ایسی چل رہی تھی کہ ہونٹ خشک اور ہر پندرہ منٹ میں پیاس کا شدید احساس ہو رہا تھا مگر اس کے باوجود پونم کے ارادے کمزور نہ ہوئے اب مکمل سورج غائب ہو چکا تھا اور رات کی پہلی پہر ختم ہونے کو تھی کہ پونم گھر میں تالا لگا کر اسٹیشن کی راہ لی۔یہاں اس کی ملاقات تبو سے ہوئی جو ایک نسوانی ہرفن مولا اور تجربہ کار عورت تھی ۔پونم اسے ہم سفر اور اپنا رہنما سمجھ کر اس کے ساتھ ممبئی روانہ ہو گئی ۔طویل مسافت طے کرنے کے بعد جب اسٹیشن قریب آیا تو تبو نے پوچھا۔
”تمھیں کون لینے آرہا ہے ،اور کیسے جاﺅں گی؟تبو نے بلاﺅز سے چنوٹی نکالتے ہوئے کہا۔
یہ سوال سنتے ہی پونم بالکل خاموش ہو گئی بہت دیر کے بعد آہستہ سے بولی۔
”جہاں قسمت لے جائے گی۔“
”اچھا تو تم پہلی بار ممبئی آئی ہو اوئی تیرا کوئی نہیں اس دنیا میں ۔گھبرا مت میں ہوں نا، چل میرے ساتھ ،میرا بھی کوئی نہیں ہے۔ آج سے تو میری چھوٹی بہن بن کر رہنا۔“پونم خاموش نظروں سے اسے دیکھتی رہی اوراس کے ساتھ اس کے گھر چلی آئی ۔تبو اسے اپنی چھوٹی بہن کی طرح مانتی تھی اور وہ تبو کو بڑی بہن کی طرح ۔تبو گھاٹ گھاٹ کی پانی پینے والی ایک آزاد عورت تھی۔ اس لیے گھر واپسی کے وقت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔اس کے گھر مختلف مردوں کا آنا جانا پونم کو شک میں مبتلا کر دیتا ہے اور سوچنے لگتی ہے کہ تبو کہیں جسم فروشی کا کام تو نہیں کرتی۔آخر ایک دن یہ شک اس وقت یقین میں تبدیل ہو گیا ۔جب عیاش ’رنجن‘ کی نظراس پر پڑی۔ پونم کا اٹھارہ سالہ قاتلانہ عمر ،اس کے اُبھرے ہوئے ٹائٹ پستان اور اس کی نسوانی کشش اس قدر کافرانہ تھی کہ عام نوجوان تو کیا اچھے اچھے زاہد و سوامی کے قدم پھسل جائیں۔رنجن نے جوں ہی پونم کی طرف قدم بڑھایا تبو نے زور سے اس کے گال پر تھپڑ رسید کر دیا اور ڈھکیلتے ہوئے بولی۔
” میری معصوم بہن کی طرف قدم بڑھانے کی ہمت کیسے ہوئی ۔“اور اسے ڈھکیلتے ہوئے گھر سے باہر کر دیا۔
”حرامی رنڈی تیری بہن رنڈیوں کا کسی سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا دیکھتا ہوں کب تک رشتہ نبھاتی ہے۔ایک دن یہ بھی طوائف ہی بنے گی او رتمھیں اس غلطی کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی ۔رنجن نے غصہ سے اس کی طرف تھوکتے ہوئے کہا۔
”جا جا میں بھی دیکھ لوں گی تیرے جیسے کتنے آتے اور جاتے ہیں ۔“تبو نے زور سے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔
رنجن کی بات سنکر پونم زارقطار رونے لگی کیوں کہ آج برسو کی چھپی رازاس کو سمجھ میں آگئی تھی کہ آخر اسے پیچھے کمرے میں کیوں بند کرکے رکھا جاتا تھا۔وہ تبو سے گلوگیر آواز میں بولی:
”تبو دیدی! یہیہ سب کیا ہے آپ جسم فروشی“بولتے بولتے اس کی ہچکی بندھ گئی اور بات ادھوری چھوڑ دی۔
”پونم !میری بہن زندگی کے حالات نے مجھے طوائف بننے پر مجبور کیا ۔انسان پیٹ پالنے کے لیے طوائف تک بن جاتا ہےبھوک انسان سے کچھ بھی کرا لیتی ہے یہیہ بڑی ظالم چیز ہے ،میری بہن لیکن تم گھبراﺅ نہیںمیں تمھیں وچن دیتی ہوں جب تک میں زندہ ہوں تمھیں کچھ نہیں ہوگا ،تمھاری آبرو کی حفاظت یہ بے آبرو بہن کرے گی ۔“اور وہ اکثر تنہائی میں بدبداتی رہتی ،پونم میری چھوٹی بہن ہے ،اسے میں اپنے سامنے طوائف بنتے نہیں دیکھ سکتی ، ہر گز پونم کے ساتھ ایسا ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔
تبو کے ساتھ پونم کے دن ہفتے اور ہفتے مہینے میں مہینے سال میں بدلنے لگے۔ادھر گورو بھی بارہویں پاس کر گیا اور دوسرے سال نِیٹ کا امتحان بھی دیا ۔ایک روز تبو گھر سے کسی کام کے لیے نکلی مگر پھر دوبارہ واپس نہیں آئی ۔ پونم نے اسے سبھی جگہ تلاش کیا لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ ادھر بھائی کے ایڈمیشن کے لیے بڑی رقم کی ضرورت پڑی، جو اس کے پاس تھے وہ ناکافی تھی ۔پروس میں ایک شرما جی رہتے تھے۔تبو بھی ان کی بہت تعریف کرتی تھی ۔وہ بہت امیر دلدار اور سخی تھے وہ ان کے گھر پہنچ گئی لیکن سومی قسمت آج سات بجے ہی وہ چار مہینے کے لیے کلکتہ کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔پونم مایوس اور بے خیالی کے عالم میں گھر آرہی تھی کہ سامنے سے آتے ہوئے رنجن سے ٹکڑاگئی۔ رنجن کی نظر جب پونم پر پڑی تو وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے بولا:
”آپ تبو کی بہن ہو نہ“
”جی!“پونم آہستہ سے بولی۔
”میرے گھر کیوں آئی تھی “
” شرما جی سے ملنے آئی تھییہ آپ کا گھر ہے۔“
”ہاںاور آپ کے شرما جی!۔ میرے پاپا ہیں۔رنجن نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
”تمھارے چہرے سے معلوم ہو رہا ہے کہ تم کسی پریشانی میں ہو۔“
”نہیں“پونم نے آہستہ سے کہا۔
پونم اسے ایک ٹک دیکھتی رہی اور سوچنے لگی کہ شرما جی کتنے شریف ہیں ،ان کی شرافت پورے آس پروس میں مشہور تھی لیکنیہ رنجنہے بھگوان یہ تو کَل یُگ ہے۔
”ارے بتاﺅ میں وہ رنجن نہیں رہا پہلے سے کافی بدل چکا ہوں۔میں تمھاری کیا مدد کر سکتا ہوں ۔“
”مجھے پچاس ہزار روپئے کی ضرورت ہے۔“پونم کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی۔
” بس اتنی سی بات پریشان نہ ہو کل ہی تمھارے گھر لے کر آجاﺅں گا ۔“
دوسرے دن رنجن خاموشی سے روپے دے کر واپس آ گیا۔ابھی مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ وہ نشہ کی حالت میںصبح و شام دروازے پر آکر روپے کا مطالبہ کرنے لگا ۔ اس کے تقاضے سے پونم پریشان ہو گئی ،جہاں مدد کو جاتی سب انکار کرتے ۔اس نے فقیرانہ بھیس اپنا کر دربدر اپنا دکھڑا بھی سنایا ۔کچھ لوگوں نے مدد کی مگر وہ ناکافی تھی ۔اکثر لوگ یہ کہہ کر بھگا دیتے ۔
”آج کل یہ مانگنے کے بہانے ہیں ۔“
”در بدر بھٹکنے کے بعد رات گیارہ بجے مکان پر پہنچی ۔پوری رات اسے نیند نہیں آئی ۔ابھی ہلکی سی اس کی آنکھ لگی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا۔
”اچھا تو تبو آج تمھیں رکھ کر گئی ہے ۔“تبو کے بعد تم نے اس کی گدی لے لی۔
یہ سنتے ہی پونم نے دروازہ بند کر دیا۔ شاید اسے تبو کے غائب ہونے کی خبر اب تک معلوم نہیں تھی ۔اتنے میں باہر سے آواز آئی ۔
”دیکھو!میں آج بہت دن کے بعد آیا ہوں واپس نہیں جاﺅں گا بولو کتنا لوگی دیکھو پندرہ ہزار دینے کو تیار ہوں“ میں نے تمھیں جو روپئے دیے ہیں اے معاف کرکے اور پیسے دے سکتا ہوں اگر تم تیار ہو تو۔
تبھی پونم نے دروازہ کھول دیا ۔آج حالات نے اسے دروازہ کھولنے پر مجبورکر دیا تھا ۔ سالوں سے طوائف کی نگری میں محفوظ پونم آج کسی گھاٹ کا پانی پینے جا رہی تھی۔رنجن بروسوں کی پیاس بجھا کر جاتے وقت اس کی جھولی میں اور رقم دیتے ہوئے بولا ۔
”دیکھو میں ایک ہفتہ بعد پھر آﺅں گا ۔“مگرکئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی رنجن نہیں آیا ۔اب مجبور پونم گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے لگی۔
ادھر گورو بھی ڈاکٹر بن گیا اور روز بہ روز کی ترقی سے ایک شاندار اسپتال کھول چکا تھا ۔کالج کی پریمی کے ساتھ بغیر پونم کو بتائے شادی بھی کر لی۔ترقی اور روپئے کی ہوس میں گزرے ہوئے دن کے ساتھ بہن کو بھی وہ بھول چکا تھا۔ادھر پونم سخت بیمار پرگئی۔اسپتال میں اڈمیٹ ہونے کے بعد بھائی کو فون کیا کہ اسے آکر گھر لے جائے اب وہ ممبئی چھوڑنا چاہتی تھی کیوں کہ وہ اپنے والدین کے خواب کو شرمندہ تعبیرکر چکی تھی ۔اسے طوائف کی زندگی گزارنا بھی پسند نہیں تھا ۔وہ گھر جا کر سکون کی زندگی گزارنا چاہتی تھی ،مگر ہفتوں گزرنے کے بعد بھی بھائی اسے لینے نہیں آیا ۔اسپتال میںاس کی حالت دن بہ دن گرتی جا رہی تھی۔ڈاکٹر راہل کے زیر علاج تھی آہستہ آہستہ وہ اس کے دل میں بس گئی ۔ایک دن ڈاکٹر راہل نے اس پوچھا۔
”کیا تمھارا کوئی نہیں ہے۔“
”ہاںایک بھائی ہے اور وہ آنے والا ہے ۔“اس نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا۔
ڈاکٹر راہل کی دس سال پہلے شادی ہوچکی تھی اب وہ چالیس سال کے ہوچکے تھے مگر ایک مشکل حالت میں بیوی چھوڑ کر چلی گئی ۔اس لیے وہ دوبارہ شادی کرنے کو ذہن سے نکال چکے تھے۔مگر پونم کو دیکھنے کے بعد انھیں لگا کہ نہیں یہ ان کا گھر بسا سکتی ہے۔انھوں نے پونم سے ان باتوں کا اظہار کیا اور کہا ۔
” اگر تم راضی ہو تو میں شادی کے لیے تیار ہوں ۔تمھارے ساتھ سات پھیرے لے کر ایک نئی زندگی کی شروعات کر سکتا ہوں مجھے تم میں نہ جانے کیوں خاص بات لگتی ہے۔“
”ڈاکٹر راہل !آپ کومجھ سے اچھی لڑکی مل سکتی ہے۔“بہت دیر خاموشی کے بعد پونم نے کہا۔
پونم کا جواب سن کر ڈاکٹر راہل خاموشی سے اپنے چیمبر میں آگئے اور نرس کو کہا کہ وہ پونم کو کسی طرح راضی کرے۔نرس کئی دنوں تک اسے سمجھاتی رہی ۔ تب ایک روز پونم نے کہا میں ڈاکٹر راہل سے تنہائی میں بات کرنا چاہتی ہوں اور پونم نے راہل سے مل کر اپنی ساری سچائی بتا دی کہ وہ ایک ”طوائف “ہے۔اس کی بات سننے کے بعدوہ خاموش رہا اور کچھ دیر تک ماحول میں بھی خاموشی طاری رہی ۔پھر ڈاکٹر راہل نے خاموشی توڑتے ہوئے بولا۔
”پونم !تم طوائف نہیں بلکہ پیار کے قابل ہو اور ایک کی ہو کر زندگی گزارنا چاہتی ہو تو گزار سکتی ہو یہ تمھارا حق ہے ۔“تمھارا پاسٹ کیا تھا میں نہیں جانتا۔ اب جو تم ہمارے سامنے ہو وہی سب کچھ ہے اور فیوچر بھی۔ بس!
ڈاکٹر راہل کی بات سن کر اس کی آنکھوں سے جھر جھر آنسو گرنے لگے ۔ڈاکٹر راہل نے اس کے آنسو اپنی انگلیوں پوروں میں جذب کر لیا۔پونم کی شادی ڈاکٹر راہل سے ہو گئی۔آج وہ دولڑکے ،ایک لڑکی اورخوش مزاج پتی کے ساتھ جے پور میں خوش حال زندگی گزار رہی ہے۔ زندگی امتحان لیتی ہے۔۔۔!
و¿و¿و¿

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button