اسلامیات،افسانہ و غزلیات

امام مالک بن انس رحمہ اللہ ( 711-796ھ)

تحریر ۔۔۔۔۔۔أسد الرحمن تیمی
امام مالک بن انس رحمہ اللہ، جنہیں شیخ الاسلام، حجت الامہ،امام دار الہجرہ، مفتی حجاز،فقیہ امت اور اماموں کے سردار جیسے القاب سے بھی جانا جاتا ہے، علم حدیث اور علم فقہ دونوں میں یکساں ماہر اور امام کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ فن حدیث میں ان کی جلالت شان کو بتانے کے لیے ان کی "مؤطا”کافی ہے۔ وہ اہل سنت کے چار مشہور فقہی مسالک میں سے ایک "فقہ مالکی” کے امام اور بانی اور  دوسرے نمبر کےامام  ہیں۔ پہلے امام ابو حنیفہ (نعمان بن ثابت) ہیں۔
امام مالک بن أنس اپنی وسعت علمی،  حدیث میں مہارت ،فقہی بصیرت, فہم و فراست، حسن اخلاق، باوقار اور بارعب شخصیت کے لئے مشہور تھے ۔ بڑے بڑے علماء  ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ۔ امام شافعی کہتے ہیں: "مالک آسمان علم کے درخشندہ ستارہ اور تابعین کے بعد مسلمانوں کے لیے اللہ کی حجت ہیں”.
ان کی کتاب "موطا” حدیث کی ابتدائی اور صحیح ترین کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔اس کتاب کے بارے میں امام شافعی کہتے ہیں: قران کریم کے بعد صحیح ترین کتاب "موطا” ہے.
 امام مالک کی پیدائش سن 93 ہجری میں مدینہ منورہ کے ایک ایسےعلمی گھرانے میں ہوئی جس کا علم حدیث سے بہت ہی گہرا اشتغال تھا۔ بچپن میں ہی قران کریم حفظ کر لیا۔ ابتدائی تعلیم ابن ہرمز سے حاصل کی۔ پھر اس زمانے کے بڑے بڑے اساتذہ مثلاً عبداللہ بن عمر کے شاگرد نافع اور ابن شہاب زہری وغیرہ دگر علماء سے علم حدیث حاصل کی۔ 70 سے زیادہ شیوخ  مدینہ نے جب اس بات کی گواہی دی کہ مالک ابن انس پڑھانے اور فتوی دینے کے لائق ہوگءے  ہیں تو پھر مسجد نبوی میں ان کا حلقہ درس قائم  ہوا جہاں وہ حدیثیں پڑھاتے اور فتوے دیتے۔ حدیث نبوی کا احترام، پرسکون ماحول اور مدرس کارعب وھیبت ان کے درس کی بنیادی خصوصیات میں سے  تھی۔ اکثر سوالات کے جواب میں وہ کہتے کہ "مجھے معلوم نہیں”۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ "میں ایک انسان ہوں  کبھی صحیح رائے تک پہنچتا  ہوں اور کبھی غلطی بھی کرتا ہوں اس لیے میری جو رائے قران و حدیث کے مطابق ہو اسے ہی لینا اور جو اس کے مطابق نہ ہو اس سے چھوڑ دینا”۔  179 ھ میں مالک بن  انس بیمار پڑے اور 20 دن تک بیمار رہنے کے بعد رفیق اعلی سے جا ملے۔نمازجنازہ  اس وقت کے امیر مدینہ نے پڑھائی اور بقیع میں سپرد خاک ہوئے۔
امام مالک جب کسی حدیث کو سنتے تو پوری توجہ اور یکسوئی سے سنتے،  یہاں تک کہ ایک بار ایک ہی مجلس میں 40 حدیثیں سن کر دوسرے دن اپنے استاد ابن شہاب زہری کو سنا دیتے ایک بارابن شہاب زہری نے کہا تھا کہ: "مالک تم علم کے مخزن ہو”۔ وہ حد درجہ صبر گزار اور متحمل تھے تلاش علم کی راہ میں انہوں نے بڑی بڑی مشکلات اور پریشانیاں برداشت کیں ۔ دوپہر کی چلچلاتی  دھوپ میں علم  کی تلاش میں  نکل جاتے۔کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس پر خود  کا عمل نہ ہو۔ وہ انتہائی پروقار  شخصیت کے مالک تھے یہاں تک کہ درس کے دوران اگر کوئی شخص آجاتا اور سلام کرتا تو حاضرین میں سے کسی کو  جواب دینے کی ہمت نہیں ہوتی تھی صرف اشارے ہی میں کوئی جواب دے پاتا۔حکمرانوں پر بھی ان کی ہیبت طاری ہو جاتی تھی۔ اگر کوئی حکمراں ان کے درس میں آجاتا  تو اپنے اپ کو چھوٹا اور کم تر محسوس کرتا۔ان کی فراست اور دور اندیشی کبھی غلط نہیں ہوتی تھی۔ لباس و پوشاک پر کافی توجہ دیتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ عالم کا لباس خوبصورت ہونا چاہیے۔
امام مالک نے بہت ساری کتابیں لکھیں لیکن ان کی مشہور ترین کتاب مؤطا ہے، جو فقہ مالکی کے اہم اور بنیادی مراجع میں سے ایک ہے۔علماء اسلام کے بیچ یہ کتاب بے حد مقبول اور متداول ہے بہت سارے لوگوں نے اس کی شرحیں لکھی ہیں جن میں ابن عبدالبر کی "الاستذکار”  اور "التمہید” اور ابن العربی کی ” القبس فی شرح مؤطا مالک بن انس ” قبولیت اور شہرت کے اعتبار سے بڑھی ہوئی ہیں ۔
امام مالک کہتے ہیں: "دل کے سکون کے لیے ضروری ہے کہ ادمی کا خفیہ عمل اس کے ظاہری عمل سے زیادہ بہتر ہو”۔  ” تھوڑی اور کافی چیز زیادہ اور غافل کر دینے والی چیز سے بہتر ہے”.    "زیادہ بات چیت مناسب نہیں ہے یہ خواتین اور کمزوروں کی خاصیت ہے”.
امام مالک نے بہت سارے شیوخ سے استفادہ کیا ۔ انہیں  کسی بھی امام کے مقابلے میں تابعین اور تبع تابعین کی بڑی جماعت سے  فیض اٹھانے کا زیادہ موقع ملا۔ ان کے اساتذہ کی تعداد 900 تک پہنچتی ہے، جس میں تین سو صرف تابعین  ہیں۔ ان کے مشہور اساتذہ می۔ابن هرمز(  سب سے پہلے استاد  ), نافع مولى ابن عمر، زيد بن أسلم، ابن شهاب الزهري، أبو الزناد، عبد الرحمن بن القاسم بن محمد بن أبي بكر، أيوب السختياني، ثور بن زيد الديلي، إبراهيم بن أبي عبلة، وحميد الطويل، ربيعة بن أبي عبد الرحمن، هشام بن عروة، يحيى بن سعيد الأنصاري، عائشة بنت سعد ابن أبي قاص، عامر بن عبد الله بن الزبير، أبو الأسود محمد بن عبد الرحمن بن نوفل الأسدي القرشي کے نام شامل ہیں ۔
مالک بن انس سے فیض اٹھانے والوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جن لوگوں نے ان سے حدیث سنی ان میں ان کے چچا أبو سهيل،  يحيى بن أبي كثير، ابن شهاب الزهري، يحيى بن سعيد، يزيد بن الهاد، زيد بن أبي أنيسة، عمر بن محمد بن زيد، وغيرهم. نیز امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھی ان سے حدیث سنی ہے ۔ان کے علاوہ الأوزاعي، حماد بن زيد، إسماعيل بن جعفر، وسفيان بن عيينة، عبد الله بن المبارك، وابن علية، عبد الرحمن بن القاسم، عبد الرحمن بن مهدي، عبد الله بن وهب، الوليد بن مسلم، يحيى القطان، وأبو داود الطيالسي، عبد الله بن نافع الصائغ، مروان بن محمد الطاطري، عبد الله بن يوسف التنيسي، عبد الله بن مسلمة القعنبي، أبو نعيم الفضل بن دكين، الهيثم بن جميل الأنطاكي اور دوسرے ہزاروں حضرات شامل ہیں۔سب سے اخر میں وفات پانے والےان کے شاگرد اور “موطأ” کے راوی أبو حذافة أحمد بن إسماعيل السہمی ہیں جوان کے بعد 80 سال تک زندہ رہے۔
احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ "علم کے میدان میں مالک ابن انس کی بلندی  وبرتری سیادت اور رفعت وعظمت خاص طور سے حدیث نبوی کے احترام و اکرام میں ان کے  تفوق اور سبقت  کے معترف سارے علماء ہیں”.
امام ذہبی فرماتے ہیں کہ ” میرے علم کے مطابق مالک ابن انس میں کچھ ایسی خوبیاں جمع تھیں جو کسی دوسرے میں نہیں ہیں ، مثلاً ان کی روایت حدیث، ذہانت، گہری سمجھ وسعت علمی،  دینداری ثقاہت اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد درجہ پیروی پر امت کا اتفاق ہے، صحت روایت کے سلسلے میں وہ ایک حجت کی  حیثیت رکھتے ہیں اس پر بھی  اتفاق ہے.”
امام مالک کے سامنے آج  کی طرح راءج اپنا کوئی ویسا  خاص اصول فقہ نہیں تھا ۔ البتہ انکے شاگردوں نے ان کے فتاوے کے گہرے مطالعہ اور تحقیق کے بعد مالکی اصول فقہ کا استنباط کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مالک کے اصول فقہ : قرآن، حدیث ، اجماع ،  اہل مدینہ کا عمل، قیاس، مصالح مرسلہ ، استحسان ، عرف وعادت،سد ذرائع اور استحصاب ہیں ۔
قاضی عیاض کہتے ہیں کہ: فقہ مالکی کی نشونما مدینہ منورہ میں ہوئی اور وہاں سے حجاز, مصر اور دگر افریقی  اور مغربی ممالک میں رائج ہوتا گیا ۔ اندلس میں ایک بڑی مدت تک  فقہ مالکی غالب رہا۔
امام ذہبی "سیر  اعلام النبلاء” میں کہتے ہیں کہ امام مالک کے زمانے میں مدینہ منورہ کے اندر تابعین کے بعد امام مالک  جیسا قابل عالم نہیں تھا، اس لیے لوگوں میں یہ مقولہ رائج ہوگیا کہ "مالک کے رہتے  مدینہ میں کوئی  دوسرا فتوی نہیں دے سکتا”۔
مذکورہ مقولے کے پیچھے کی کہانی دمیری نے اپنی کتاب”النجم الوھاج” اور سفیری نے اپنی کتاب "مجالسہ علی البخاری” میں اس طرح بیان کی ہے کہ امام مالک کے زمانے میں ایک بار مدینہ منورہ کے اندر کسی خاتون نے ایک خاتون کو غسل میت دیا اسی دوران غسل دلانے والی خاتون کا ہاتھ میت کی شرمگاہ سے چپک گیا۔ لوگ ہکا بکا تھے کہ کیا کیا جائے! ہاتھ کاٹا کاٹا جائے یا شرمگاہ؟ لوگوں نے امام مالک سے پوچھا تو امام مالک نے فرمایا کہ غسل دینے والی سے پوچھو کہ اس نے غسل دیتے وقت کیا کہا تھا جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ میں نے کہا تھا کہ "اس شرمگاہ نے کتنی ہی بار اپنے رب کی نافرمانی کی ہے”.  مالک نے فرمایا کہ اس نے تہمت لگایا اسے 80 کوڑے لگاؤ  جیسے ہی اسے 80 کوڑے لگے ہاتھ شرمگاہ سے چھٹ گیا ۔اس کے بعد سے یہ مقولہ لوگوں میں رائج ہو گیا کہ مالک کے رہتے مدینہ میں کوئی فتوی نہیں دے سکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button