
معتبرشاعر بدنام نظر بھی داغ مفارقت دے گئے : سیّد احمد قادری
اردو کے معتبر شاعر بدنام نظر بھی مختصر علالت کے بعد 12 دسمبر کی صبح داغ مفارقت دے گئے ۔ چند روز قبل ہی گیا کے ایک ہسپتال میں علاج کے لئے داخل ہوئے تھے جہاںانھوں نے آخری سانس لی ۔ ان کی خواہش کے مطابق انھیں ان کے آبائی گاو¿ں کونڈہ(شیخ پورہ)لے جایا گیا ، جہاں انھیں سپرد خاک کیا جائے گا ۔اسی جگہ 1941ءمیں ان کی ولادت بھی ہوئی تھی ۔
بدنام نظر کے انتقال پر اردو کے مشہور افسانہ نگار اور صحافی ڈاکٹر سیّد احمد قادری نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بدنام نظر سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے ، جب کبھی وہ گیا آتے ، مجھ سے ملنے ضرور آتے اور گھنٹوں ادب کے حوالے سے گفتگو کیا کرتے تھے ۔ ڈاکٹر سید احمد قادری کے مطابق بدنام نظر بے پناہ صلاحیوںکے مالک تھے ، اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی اور وہ اکثر انگیری شعر¿ا کی نظمیں روانی سے سنایا کرتے تھے ۔
سید احمد قادری نے بتایا کہ بدنا نظر نے پہلی نظم ”دیوانہ“ 1958 ءمیں کہی تھی جو کہ مشہور زمانہ رسالہ ”شمع“ میں شائع ہوئی تھی ۔ اس نظم کی اشاعت کے کچھ برسوں بعد ہی ان کی نظموں کا ایک معیاری مجموعہ ” تہی دست “ منظر عام پر آیا تھا ، جس کی کافی پزیرائی بھی ہوئی تھی ۔ پھر وقت کی گردش نے انھیں ادب سے دور کر دیا اور کافی عرصہ تک ادبی دنیا سے لاتعلق رہے ، جس کی وجہ کر انھیں ادبی طور پر کافی نقصان ہوا اور وہ لوگوںکے ذہن سے نکل گئے ۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ تخلیق کار کبھی بھی بے رحم وقت کے آگے سپر نہیں ڈالتا ہے اور انھوں نے بھی ایسا ہی کیا ۔
گزشتہ چند برسوں سے بے حدمتحرک اور فعال ہو گئے تھے اور 2015 ءمیں اپنی غزلوں کا بے حد شاندار مجموعہ ” نزول “ لے کر سامنے آئے ۔ اس کی اشاعت کے دو برس بعد یعنی 2017 ءمیں اپنی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ” بارگراں“ شائع کیا۔ ابھی ان کتابوں کی بازگشت گونج ہی رہی تھی کہ وہ جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے بدنام نظر کی شاعری کے حوالے سے یہ بھی بتایا کہ وہ بانی ، زیب غوری ، عمیق حنفی ، وکیل اختر ،پرویز شاہدی ، مصور سبزواری اور عین رشید وغیرہ کے ہم عصر تھے اور اگر بدنام نظر کا شعری سفر تسلسل سے جاری رہتا تو یقینی طور پر وہ اپنے ہم عصرشعرا¿ کے درمیان سرفہرست رہتے ۔
سید احمد قادری کے مطابق بدنام نظر اردو کے مشہور شاعر وکیل اختر سے بہت قریب تھے اور دوسال قبل ہی انھوں نے اپنے دیرینہ دوست وکیل اختر کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے ایک کتاب کا مسودہ مرتب کر مغربی بنگال اردو اکاڈمی کو اشاعت کے لئے جمع کی تھی۔ افسوس کہ ان کی زندگی میں وہ کتاب منظر عام پر نہیں آ سکی۔ ڈاکٹر سید احمد قادری کے مطابق بدنام نظربہت زندہ دل انسان تھے اور ان کے انتقال سے معیاری اردو شاعری کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے ۔ اللہ پاک انھیں جوار رحمت میں جگہ دے ۔ آمین۔ثم آمین