اسلامیات،افسانہ و غزلیات

لڑکیوں کی تعلیم ضروری کیوں

محمد صدرعالم نعمانی

صدر علماء بورڈ ہند

علم کی فضیلت واہمیت قرآن وحدیث میں کثرت سے ہے،
اقرأ باسم ربک الذی خلق۔ پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے آپ کو پیداکیا (القرآن) ۔ ہر قوم اور ملک کی ترقی کا انحصارعلم ہی پرہے۔ تعلیم حاصل کئے بغیر نہ کوئ قوم ترقی کرسکتی ہے اور نہیں ملک، ابھی تک ہمارے معاشرہ میں تعلیم کے تئیں دوہرا نظریہ پایا جاتا ہے۔یعنی ابھی بھی کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ علم صرف اور صرف مرد ہی حاصل کرسکتے ہیں، عورتیں علم حاصل کرکے کیا کریں گی،ان کے لیے امور خانہ داری ہی کافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ کی ترقی عورت کی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ۔ کیوں کہ عورت کبھی بیٹی ، کبھی بیوی اور کبھی ماں ہوتی ہے، اور معاشرہ کی اچھائی و برائی دونوں کی ذمے دار ہوتی ہے۔کسی بھی گھر کو بنانے اور بگاڑنے میں عورت کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ سماج کے تقریباً سارے معاملات میں عورت کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے، تعلیم ہر کسی کا بنیادی حق ہے، پھر لڑکیاں اس سے محروم کیوں ۔

جب کہ ہمارا کام تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم انھیں حصول علم پر مزید آمادہ کریں ، جب کہ معاشرہ اور گھربارکی ترقی، اور ان سب کو سنوارنے ونکھار نے میں عورت کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے اور ہم عورت کو ہی علم کے زیور سےآراستہ وپیراستہ نہیں ہونے دیتے ہیں ۔ ایسے میں ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل کیوں کر ہو پائےگی اور وہ کس طرح سماج کو صحیح ڈھنگ سے سنوار سکےگی۔

اسلام نےخواتین کے لئے تعلیم کو بہت ضروری قراردیا ہے۔حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے کہ”طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمہ "(ابن ماجہ)علم کاحاصل کرنا ہرمسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے،۔بعض روایات سے ثابت ہے کہ آپﷺ کے پاس بچیاں آتیں اور آپ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت ان کے پڑھانے میں صرف کرتے ۔ ہمارے دین کا آغاز بھی علم سے ہی ہوا۔ غار حرا میں نبی پاکﷺ پر قرآنی آیات کے ذریعے علم ہی عطا ہوا۔آپﷺ کی ازواجِ مطہرات بھی خواتین کو قرآن و حدیث کا علم سکھاتی تھیں ۔آپﷺ نے خواتین کی تعلیم کے بارے میں فرمایا: "جس شخص نے ایک یا ایک سے زیادہ بیٹیوں کو تعلیم دی اور اچھے طریقے سے ان کی پرورش کی تو وہ جہنم کی آگ سے دور رہے گا”۔ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے ، ماں کی گود میں بچہ اگرچہ بہت چھوٹا اور معصوم ہوتا ہےلیکن اس کی شخصیت اس گود کے سانچے میں ڈھلنا شروع ہوجاتی ہے۔یہ ہرگز خیال نہ کریں کہ بچہ کم فہم ہے اور کچھ نہیں سمجھتا بلکہ بچہ والدین کے اشارے سمجھتا ہے۔اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتا ہے۔اپنا مطلب سمجھاتا ہےاور اسکا مطلب سمجھتا ہے۔

اگر ماں تعلیم یافتہ ہو گی تو وہ اس کی معصوم زندگی پر اپنے خیالات نقش کرے گی۔اپنے بچوں کو نیک و بد سمجھائےگی اور وہ انھیں اچھا انسان بنانے کی کوشش کرے گی۔ایک شخص کو تعلیم دینا صرف اسی کو تعلیم دینا ہے، جبکہ ایک عورت کو تعلیم دینے کا مطلب پورے خاندان کو تعلیم دینا ہے۔اسلام سے قبل عرب کے لوگوں میں جہالت اور بہت سی برائیاں تھیں وہاں ایک برائی یہ بھی تھی کہ لوگ اپنی بیٹیوں کو زمین میں زندہ گاڑدیا کرتےتھے۔جب خدا نے نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس کو مبعوث فرمایا تو جہالت دم توڑ گئی۔انسانیت کے مایوس چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔آپﷺ نے بچیوں کو ان کا حق دلایا انہیں پڑھانے لکھانے اوران کی اچھی پرورش و پرداخت پر زور دیا۔

آپ ذرا غور فرمائیے کے والد کو ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے۔گھر میں سارا دن بچوں کا سابقہ ماں سے رہتا ہے۔اب اگر ماں علم کے زیور سےآراستہ ہوں تو بچے اپنی ماں سے علم کے موتی ضرور حاصل کریں گے۔اگر بچے ماں سے پڑھائی میں مدد نہ بھی لیں پھر بھی ماں سے علم کی خوشبو آتی ہی رہے گی۔بچہ پہلے دن روٹی کا لقمہ بائیں ہاتھ میں پکڑتا ہے تو ماں اسے فوراً سمجھاتی ہے کہ بیٹا لقمہ دائیں ہاتھ سے پکڑو۔ تعلیم یافتہ مائیں اپنے بچوں کو پاکیزہ ماحول دیتی ہیں۔انہیں علم ہوتا ہے کہ آج تکلیف اٹھا کر بچوں کی تربیت کی گئی تو کل یہی ننھے منے پودے شجرسایہ دار بنیں گے اور ان درختوں کے سائے سے پورا معاشرہ اور پورا ملک مستفید ہوگا۔بچہ جب اپنے پاؤں پر چلنا شروع ہو جائےتو ماں اپنے بچے پر مزید توجہ دینا شروع کر دیتی ہے۔پڑھی لکھی ماں جانتی ہے کہ بچہ اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔اسے پتہ ہے کہ گلی میں ایسے بچے بھی کھیلتے ہیں جو ماؤں کی توجہ کے مستحق ہیں لیکن مائیں ان پڑھ ہونے کی وجہ سے ان بچوں کو گلی میں کھیلنے کودنے اور گالی گلوچ کرنے سے نہیں روکتیں۔تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کو ایسے ماحول سے دور رکھتی ہیں۔بچوں کا دل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلیں لیکن ماں کا علم بچوں کو ایسے گندے ماحول سے بچالیتا ہے۔

اگر ماں تعلیم یافتہ ہو تو اسے علم ہو سکے گا کہ ان کا بچہ اچھی کتابیں پڑھتا ہے یا بری۔ماں کتابوں کے انتخاب میں اگر بچے کی رہنمائی کرے گی تو وہ اچھی کتابوں کی طرف راغب ہو گا۔اچھی کتاب اچھے دوست کی مانند ہوتی ہے جس طرح اچھا دوست اچھائی کی طرف مائل کرتا ہےاسی طرح اچھی کتاب بھی اچھائیوں کے راستے پر گامزن کر دیتی ہے۔ تعلیم یافتہ ماں بچے کو کوئی کہانی یا واقعہ سناتی ہے تو اس کا مقصد صرف وقت گزارنا نہیں بلکہ اس کی نگاہیں بچے کی ذہنی تربیت پر مرکوز ہوتی ہیں۔درس وتدریس ایک ایسا پیشہ ہےجو خواتین کے مزاج کے مطابق ہے۔یہ ایک ایسا پیشہ ہے کہ خواتین پردے میں رہتے ہوئے اورمردوں سے الگ تھلگ رہ کر ملک و قوم کی بچیوں کو تعلیم دے سکتی ہیں۔اس کیلئے بنیادی شرط خواتین کا خود تعلیم یافتہ ہونا ہے۔عورت کو خدا نے صنفِ نازک بنایا ہے۔اسے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا روپ دے کر باپ، بیٹا ، بھائی اور خاوند کے لیے محبت، خلوص کا پیکر بنا دیا ہے۔ہمدردی، شفقت اور نرمی عورت کی فطرت کا حصہ ہیں۔

عورت گھریلو زندگی کو جنت بھی بنا سکتی ہے اور جہنم بھی۔اگر خاتون خانہ علم سے بےبہرہ ہو تو وہ کھانا، پکانا، سینا، پرونا اور دیگر امور سلیقے سے سرانجام نہیں دے سکے گی جبکہ ایک پڑھی لکھی عورت سلیقہ شعاری اور ہنرمندی سے گھریلو ذمہ داریاں نبھا سکتی ہے۔اگر عورت علم حساب اور علم معاشیات کو بالکل نہ سمجھے تو اس کے گھر کا بجٹ تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا۔اگر کمائی 19 کی ہوگی اور خرچ 20 کرے گی۔اس طرح اس کا گھریلو نظام اس کی جہالت کی وجہ سے بگڑ جائے گا۔بحیثیت مجموعی عورتوں کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت اچھے اور برے میں فرق کرنا جانتی ہے۔اسلیے یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنی بچیوں کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کریں تاکہ ہمارا آنے والا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے-

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button