مضامین و مقالات

فلسطین کے حقیقی وارث کون ؟

ریاض فردوسی۔9968012976
فلسطین اسرائیل جنگ کے حوالے سے اب یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ سرزمین  فلسطین  پر کس کا حق ہے۔مسلمانوں کا یا یہودیوں کا؟
اس سوال کا جواب پانے سے پہلے ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ زمین  کی ملکیت کیسے حاصل ہوتی ہے۔قدیم زمانے سے لیکر پہلی عالمی جنگ تک زمین کی ملکیت فتح کے ذریعہ حاصل ہوتی تھی۔یعنی جب کوئی قوم کسی ارض خطہ پر حملہ آوری کرکے اسے فتح کر لیتا تو وہ قوم خود اس خطہ کا مالک ہو جاتا تھا۔اتنا ہی نہیں اس فاتح  قوم کو اس زمین سے متعلق تصرف کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوتا تھا۔کسی قوم کے لیے زمین کی ملکیت مستقل نہیں ہوتی تھی کیونکہ جب کوئی دوسری قوم پہلی قوم کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتی تو زمین کی ملکیت فاتح قوم کی ہو جاتی اور مفتوح قوم کو زمین کی ملکیت سے دستبردار ہونا پڑتا تھا۔یہی دستور تھا۔یہی رواج بھی تھا۔
زمین کی ملکیت کے حصول کے اس طریقہ کو تمام اقوام بشمول مسلمان جائز اور درست سمجھتے تھے۔
اسے ایک تمثیل سے سمجھیں۔ایک شخص ایک  بلڈنگ خرید لیتا ہے جس میں کرایہ دار ہے۔اب یہ شخص اس بلڈنگ کا نیا مالک ہو جاتا ہے،اب اس مالک کو اختیار حاصل ہے کہ اپنے کرایا داروں سے ایک نۓ ایگریمنٹ کے ذریعہ مکان کا کرایہ بڑھا دے یا پیسہ دیکر اس سے مکان خالی کروا لے۔یہ تمام اختیارات اس نۓ مالک مکان کو حاصل ہے،پرانے مکان مالک کا اختیار اور تصرف مکان بیچنے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔دوسری بات کرایا داروں کا پرانے مکان مالک کے ساتھ جو معاہدہ تھا وہ سب منسوخ ہو جاتے ہیں،یہ نۓ مکان مالک کے صوابدید پر منحصر کرتا ہے کہ وہ پرانے ایگریمنٹ کو بحال رکھے یا مسترد کر دے۔ کرایا دار کو اب نۓ مالک مکان کے معاہدہ کے مطابق  رہنا پڑیگا۔
پہلی عالمی جنگ تک زمین کی ملکیت اس طرح حاصل نہیں ہوتی تھی کہ اس خاص زمین پر کسی خاص قوم کی آبادی دوسرے اقوام سے بہت زیادہ ہے یا وہ قوم اس سرزمین کی سب سے پرانی قوم ہے یا وہ قوم بہت پہلے سے آباد ہے اور دوسری قومیں بعد میں ہجرت کرکے وہاں آباد ہوئ ہیں۔
زمین کی ملکیت حاصل کرنے کا یہ  طریقہ ہی نہیں تھا۔اسے ایک تمثیل سے سمجھیں۔مسلمانوں کے فتوحات کا دور کا آغاز ہونے سے پہلے اسپین مسیحیوں کا ملک تھا اور وہاں سو فیصد باشندے  عیسائی تھے،لیکن جب سال 711 میں طارق ابن زیاد نے اسپین کو فتح کیا پھر اس کے بعد  مسلمان مشرقی ایشیا اور شمالی افریقہ سے وہاں جاکر آباد ہو گیے تو پورے اسپین کا مالک مسلمان تھے لیکن جب سال 1492 میں مسلمان مسیحیوں سے شکست کھا گئے اور اسپین کو مسلمانوں سے واپس لے لیے تو مسیحی اسپین کا مالک بن بیٹھے۔یعنی جو قوم جب اقتدار میں ہوتی ہے وہ قوم زمین کا مالک ہوتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے وقت نوے فیصد سے بھی زیادہ مسلمان فلسطین کے باشندے تھے لیکن بدقسمتی سے فلسطین سلطنت عثمانیہ کے اقتدار سے نکل کر برطانیہ کے اقتدار میں چلی  گیی کیونکہ  برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم میں ترکی کو شکست دے دی تھی۔فلسطین کے فاتح ہونے کے سبب فلسطین اور اس میں رہنے  والوں کے ساتھ کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار اور  تصرف برطانیہ کو حاصل ہو گیا،اور برطانیہ نے حق تصرف کا استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ یہودیوں کے لیے فلسطین میں ہی ایک وطن تشکیل کرے گا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد زمین کی ملکیت یا ملک کا حکمران ہونے کا قانون بدل گیا۔اب ایک خاص جغرافیائی حدود کے اندر جو قوم اکثریت میں ہوگی حکومت کرنے کا اختیار اسی کو دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ اقلیت قوم کو اکثریت قوم کے ساتھ برابری کا درجہ دیا  گیا۔اس نۓ قانون میں اب نہ ہی کوئی حاکم ہے اور نہ ہی کوئی محکوم۔ہر شہری درجہ میں برابر ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اقلیت قوم کا درجہ دوسرے شہری کا ہے۔
اس نۓ قانون میں یہ بھی کہا گیا کہ ایک ملک دوسرے ملک پر حملہ آور نہیں ہو سکتا،اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ آور ہوتا ہے تو دوسرے ملک کو جارہ ملک کے خلاف حق دفاع حاصل تو ہوگا لیکن یہ مدافعت بین الاقوامی قانون کو ملحوظ رکھ کر کیا جائے گا،مدافعت کا بہانہ بنا کر کوئی بھی ملک شہری علاقوں،ہسپتال،تعلیمی اداروں،مذہبی عبادت گاہوں،رفیوجی کیمپ پر بمباری نہیں کر سکتا،جوابی کارروائی میں  مجروح ملک کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ جارح ملک کے علاقوں پر قابض ہو جائے۔اس جدید قانون کے مطابق جتنے بھی ممالک وجود پزیر ہویے ہیں وہ سبھی  قومی ریاست کہلاتے ہیں۔اس نۓ قانون کے رو سے تمام مسلم ممالک کی ایک ہی کوشش ہونی چاہیے کہ اسرائیل پر دباؤ ڈالا جایے،اقوام متحدہ سے بار بار اپیل اور مطالبہ کیا جائے کہ فلسطین کو ایک  آزاد خودمختار ریاست بنا دیا جائے اور اسرائیل  مقبوضہ خطوں سے باہر نکل کر اپنے پرانے جغرافیائی حدود کے اندر واپس چلا جائے جیسے ایک گھونگا کو چھونے سے وہ اپنے کھول کے اندر چلا جاتا ہے۔
زمین کی ملکیت اور حکمرانی کے اس قدیم اور جدید قوانین کے روشنی میں یہ بحث اور استدلال بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے کہ 1948 تک فلسطین میں مسلمانوں کی تعداد دوسری اقوام سے بہت زیادہ تھی اس لیے مسلمانوں کا فلسطین پر  زیادہ استحقاق ہے یا یہودی مختلف ممالک سے مظلوم ہوکر ہجرت کرکے فلسطین میں آۓ تھے یا برطانیہ نے سازش کرکے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کر دیا اس لیے یہودیوں کا فلسطین پر کوئی استحقاق نہیں ہے یا قدیم عہدنامہ کے وقت فلسطین کے اصل باشندے کنعانی تھے اور کنعانی اصل میں عرب تھے اس لیے فلسطین پر عرب مسلمانوں کا ہی حق ہے یا یہودیوں کے جد امجد ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کرکے فلسطین میں آۓ تھے اور اس کے بعد ان کی اولاد جو یہودی  کہلاتے یہاں آباد ہوۓ وغیرہ وغیرہ۔قدیم زمانے میں جو قوم برسراقتدار ہوتی
 (People in Power)اسی قوم کے لوگ کسی ملک کا حکمران ہوتے اور جدید دور میں اکثریت والی قوم کو ایک خاص جغرافیائی حدود والے خطہ میں حکومت کرنے کا اقتدار دے دیا گیا۔
  بعض حضرات  تعصب کی وجہ سے تورات کے عبارتوں کا غلط تشریح کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فلسطین (جسے کتاب پیدائش میں ارض موعود ( Promised land) کہا گیا ہے اور جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اللہ تعالی اس سرزمین کو ابراہیم علیہ السلام کے نسل کو عطا کرے گا) پر صرف یہودیوں کا حق نہیں ہے بلکہ یکساں طور پر عرب مسلمانوں کا بھی حق ہے کیونکہ زمین عطا کرنے کا وعدہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کے نسل سے کی ہے اور عرب ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں،لیکن ان حضرات کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ انہوں نے کتاب پیدائش کا جزوی مطالعہ کیا ہے۔اسی کتاب پیدائش میں وہ عبارتیں موجود ہے جس سے یہ واضح ہے کہ اللہ تعالی نے ارض موعود کو ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسحاق علیہ السلام اور ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام اور انکی نسل کو عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ارض موعود کا وعدہ اسماعیل علیہ اور انکی نسل سے نہیں کیا گیا ہے۔ثبوت کے طور پر میں یہاں دو عبارتوں کے مفہوم کو پیش کرتا ہوں:کتاب پیدائش باب 26 میں اللہ تعالی اسحاق علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ یہ تمام زمینیں میں تم کو اور تمہاری اولاد کو عطا کروں گا اور اس قسم کی تصدیق کروں گا جو میں نے تیرے باپ ابراہیم علیہ السلام سے لیا تھا۔کتاب پیدائش باب 28 میں ہے کہ اسحاق علیہ السلام نے اپنے بیٹے یعقوب سے کہا کہ کسی کنعانی لڑکی سے نکاح نہیں کرنا،تو اپنے ماموں لبان کے کسی ایک بیٹی سے نکاح کرنا،پھر اسحاق علیہ السلام نے دعا کی کہ اللہ تعالی تجھے اور تیری اولاد کو یہ زمین تیرے قبضہ میں دے جہاں آج تو غیر ملکی کی حیثیت سے ہے،وہ زمین جسے اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو عطا کیا۔
دور حاضر میں یہی عالمی قانون ہے اور یہی عالمی نظام ہے۔ اگر مسلمانوں کو یہ عالمی قانون یا نظام  پسند نہیں ہے یا مروجہ قومی ریاست کا تصور منظور نہیں ہے تو وہ آگے بڑھ کر ایک نیا نظام پیش کرے اور موجودہ یورپی طاقتوں کو شکست دیکر  اسے نافذ کرے۔مغربی نظام کا خاتمہ اور اسلامی نظام کا قیام طاقت کے ذریعہ ہی کیا جائے گا۔کیا تمام مسلم ممالک کے اندر اتنی قوت اور طاقت موجود ہے کہ وہ امریکہ،چین،روس، برطانیہ اور فرانس جیسے سپر پاور کا مقابلہ کرے اور میدان جنگ میں انہیں شکست دے سکے۔اگر نہیں تو مسلم ممالک کو چاہیے کہ مروجہ عالمی قانون پر عمل کرتے ہوئے دو ریاست فارمولا کے رو سے اسرائیل اور فلسطین کا جھگڑا ختم کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
آخر میں!
یقیناً جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور لوگوں میں سے انہیں قتل کرتے ہیں جو انصاف کا حکم دیتے ہیں تو آپ اُنہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو(سورہ آل عمران۔آیت۔21)
بنی اسرائیل کے تین بڑے ظلم!
(1)اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔
(2) نبیوں کا بے گناہ اور بے دردی کے ساتھ قتل کرتے ہیں۔
(3)حق کے طرف بلانے والوں اور عدل و انصاف کا حکم دینے والے علماء اکرام و ناصحین کو قتل کرتے ہیں۔
ابن جریر میں درج ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔بنو اسرائیل نے تین سو نبیوں کو دن کے شروع میں قتل کیا اور شام کو سبزی پالک بیچنے بیٹھ گئے، پس ان لوگوں کی اس سرکشی تکبر اور خود پسندی نے ذلیل کر دیا اور آخرت میں بھی رسوا کن بدترین عذاب ان کے لیے تیار ہیں، اسی لیے فرمایا کہ انہیں درد ناک ذلت والے عذاب کی خبر پہنچا دو، ان کے اعمال دنیا میں بھی غارت اور آخرت میں بھی برباد اور ان کا کوئی مددگار اور سفارشی بھی نہ ہو گا۔
یہود کی سرکشی اور بغاوت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ صرف نبیوں کو ہی نہیں بلکہ ان عدل و انصاف کرنے والوں کو بھی ناحق قتل کردیتے تھے جو بُرائی سے روکتے اور نیک کاموں کی طرف بلاتے تھے۔ نبیوں کے ساتھ ان مخلص لوگوں کا تذکرہ کرکے اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت و فضیلت بھی واضح کردی ۔ بنی اسرائیل نے ۴۳ پیغمبروں کو ایک ہی دن صبح کے وقت قتل کیا۔ جب یہ لوگ اتنے انبیاء قتل کرچکے تو اللہ سے ڈرنے والوں نے ان کے اس مذموم فعل پر سخت احتجاج کیا۔ تو انھوں نے ان صالحین میں سےبھی 170سرکردہ آدمیوں کو اسی شام قتل کردیا یہ وہ لوگ تھے جو ان کو بُری حرکتوں سے روکتے اور انصاف کرنے کا حکم دیا کرتے تھے اصل سبب انبیاء کے قتل کا وہی ان کا اپنا جاہ و اقتدار خطرہ میں پڑجاتا اس لیے انھوں نے اپنی سرداریاں اور بڑائیاں بحال رکھنے کے لیے انبیاء اور صالحین کو قتل کردینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔انبیاء کا قتل گناہ کبیرہ ہے۔
سیّدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔قیامت کے دن سب سے سخت عذاب کس کو ہوگا؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کسی پیغمبر کو قتل کیا یا اچھی بات کہنے والے اور بُری بات سے منع کرنے والے کو۔(مسند احمد:1/407،ح:3868۔مجمع الزوائد:236/5)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ہمیں بہت سی احادیث سنائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس قوم پر اللہ کا غضب بھڑک اٹھتا ہے جو اللہ کے رسول کو قتل کریں۔(مسلم:1793)
طارق بن شہاب بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا اس وقت آپ نے رکاب میں پیر رکھا ہوا تھا،کون سا جہاد سب سے افضل ہے؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا!ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا۔ (سنن نسائی۔ج۔2۔ص۔186)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button