
ہندستانی تہواروں کا گلوبل ہونا وزیر اعظم کی نگاہ میں ایک مستحسن صورت حال
عرض داشت
صفدر امام قادری
وزیر اعظم نریندر مودی نے تہواروں کے صوبہ در صوبہ پھیلنے اور ملک گیر سے لے کر بین الاقوامی طور پر منائے جانے کو ایک تہذیبی انقلاب سے تعبیر کیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس بار دیوالی ملن کی ایک تقریب منعقد کی جس میں وزیر اعظم نریندر مودی شامل ہوئے اور انھوںنے ہندستانی ماحول میں متعدد تہواروں کے پھیلتے سلسلے اور ان کی معیشی حیثیت پر کچھ خاص باتیں کہیں۔ سب سے معرکے کی بات ان کی نگاہ میں یہ تھی کہ ہمارے ایسے تہوار جو مقامی یا علاقائی حیثیت کے تھے، وہ پورے ہندستان ہی نہیں، عالمی سطح پر جہاں جہاں ہمارے ملک کے باشندہ ہیں، وہ منا رہے ہیں۔ انھوںنے بہ طورِ مثال دسہرا کو پیش کیا اور یہ بتایا کہ بنگال سے یہ ملک کے گوشے گوشے میں منایا جارہا ہے۔ ان کا سیاسی محاورہ بھی اس میں تیار ہوا کہ اب یہ تہوار لوکل سے گلوبل ہورہے ہیں۔ وہ قافیہ بندی کے خاصے شیدائی ہیں اور مختلف زبانوں کے الفاظ اور بالخصوص انگریزی کے الفاظ سے ایسے لسانی کھیل مرتب کرتے رہتے ہیں۔ انھوںنے چھٹھ کی مثال دی اور کہا کہ پہلے یہ تہوار بہار اور مشرقی اترپردیش میں منایا جاتا تھا مگر اب یہ ہندستان کے ہر صوبے اور دوسرے ملکوں میں بھی منایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب ان کے پرانے نعرے ’’ووکل فار لوکل‘‘ کے اتباع میں ہورہا ہے کیوںکہ جو چیزیں مقامی تھیں ، اب وہ قومی اور بین
الاقوامی طور پر قابلِ قبول ہورہی ہیں۔
وزیر اعظم ہند نے دسہرا اور نو راترا کی مثالیں پیش کیں مگر اپنے گجرات کے اس تہوار کو وہ بھول گئے جو علاقائی سے رفتہ رفتہ قومی سطح پر پہنچ گیا جسے ہم ڈانڈیا کے نام سے جانتے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ بھی بتایا کہ دیوالی اور چھٹھ کے دوران ایک ہفتے میں ساڑھے چار لاکھ کروڑ روپے کا کاروبار ہوا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ ہندستانی عوام نے بڑھ چڑھ کر یہ کام کیا ہے اور اپنے تہواروں کے لیے وہ فیاضی سے خرچ کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ اچھا کیا کہ تہواروں کی کاروباری حیثیت کو خاص طور سے یاد رکھا۔ اس بات پر ان کی نگاہ نہیں جاتی ہے کہ یہ پیسے کہاں سے آئیںگے اور کن طبقوں میں آئے ہیں یا کتنے ضروری اور غیر ضروری مدوں میں تہوار کے موقعے سے خرچ ہورہے ہیں؟ یہ بات زیر غور رہنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وزیر اعظم ان تہواروں سے سماجی انقلاب اور تہذیبی تبدیلیوں کی شاہ راہ تلاش کررہے ہیں تو انھیں عوام کی سطح پر ان امور پر توجہ دینی ہوگی۔
وزیر اعظم ہند تہواروں کے مذہبی اور سیاسی پہلوئوں پر یکسر کوئی جملہ نہیں کہا۔ اس کے دو معنی ہوتے ہیں ۔ پہلا تو یہی کہ ان کی نگاہ میں ہندستان کا ہندو سماج ہی اصل ہندستان کو بناتا ہے، اس لیے ساری گفتگو اسی مذہب کے تہواروں کے حوالے سے وہ کرتے رہے۔ ہندستان تہذیبی تکثیریت کا ملک ہے، اس لیے یہ بات کسی جہت سے بھی مناسب نہیں کہ کسی ایک مذہب چاہے اس کی تعداد اسّی فی صد ہی کیوں نہ ہو، صرف اس سے یہ ملک ایک لمحے کے لیے پہچانا جاتا ہے تو یہ جمہوریت پر بوجھ ہوگا اور اپنے ملک کی آزادی کے لیے خون بہانے والے اور جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جان کی بازی لگانے والے مجاہدینِ آزادی کے خوابوں سے کھلواڑ ہوگا۔
وزیر اعظم کا پہلا مسئلہ تو یہی ہے کہ کہیں نہ کہیں وہ اس ملک میں جمہوری تقاضوں کے تحت آئینِ ہند کے ڈھانچوں کو مضبوط کرنے والی سیکولرزم کے اداروں کو مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اسی لیے ان کو تہواروں کے موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے کبھی یہ یاد نہیں آیا کہ ہندستان میں مسلمان ، سکھ، عیسائی، جین ، بودھ اور آتش پرست جیسے لوگوں کی موجودگی سے یہ ایک گلدستے کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ انھیں ایک ہی رنگ کے پھول پر زیادہ اعتبار ہے۔ اگر تاریخ کی کتابوں کو یا آئین کو ٹھہر کر وہ پڑھتے تو ایسی غلطی نہیں ہوتی۔ وہ ہمارے شاعر نظیر اکبر آبادی کو ہی پڑھ لیتے تو انھیں یہ سمجھ میں آجاتی کہ اب سے ڈھائی تین سو برس پہلے ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے ایک ساتھ عید، ہولی، شب برات، دیوالی سے لے کر بلدیو جی کے میلے تک کو ایک جیسی تہذیبی ہما ہمی کا حصہ بنایا۔ تبھی یہ ممکن ہوا کہ یہ معاشرہ ایک گلدستے میں گتھا ہوا اپنے مختلف رنگ اور خوشبوئوں کے ساتھ ہمیں میسر آیا اور تمام قوموں کے افراد مل جل کر انگریزی طاقتوں سے لڑنے میں کامیاب بھی ہوئے۔
وزیر اعظم کو جس بات کی طرف اشارہ کرنا تھا، وہ کمال ہوشیاری سے انھوںنے بچا کر رکھا اور باتوں کو غیر سیاسی اور نِرے معصومانہ انداز میں پیش کرنے کی چالاکی دکھائی۔ پورے ملک میں آج احیا پسندی کا دور ہے اور اسی کے سہارے بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی سیاست اور سارے تنظیمی کاموں کو انجام دیتی ہے۔ گذشتہ پچیس تیس برسوں میں آرایس ایس اور اس کی صلاح سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں نے کئی کام قومی سطح پر کیے ہیں۔ جشنِ آزادی اور جشنِ جمہوریہ کے پروگراموں میں شدت پسندی کی شمولیت ، تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ اس ملک کی تعمیر و تشکیل اور آزادی میں تمام طبقوں کا نہیں صرف ایک مذہبی طبقے کا ہاتھ ہے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی کی لال قلعے سے پندرہ اگست کے موقعے پر جو پہلی تقریر نشر ہوئی تھی، اس میں درجنوں مجاہدینِ آزادی کے نام شامل تھے، جن میں سے ایک نام آزاد بھی تھا۔ اس تقریر پر ایسے اعتراضات شروع ہوئے تھے کہ وزیر اعظم نے مسلم مجاہدینِ آزادی کی خدمات کو زیادہ توجہ کے لائق نہیں سمجھا اور صرف ابوالکلام آزاد کا ہی نام لیا۔ اس وقت حکومتِ ہند نے اس بات کی صفائی پیش کی تھی کہ وہاں آزاد سے مطلب چندرشیکھر آزاد تھا، ابوالکلام آزاد نہیں ہے۔ یہ قومی تہوار اپنی شدت پسندی کے ساتھ اس لیے سامنے لائے جارہے ہیں کہ ہندستان کی پرانی سیکولر شبیہہ کو عوام کی نظروں میں بدلا جاسکے۔ حال کے دنوں میں تو آرایس ایس کے حلقے کے ہزاروں گمنام مجاہدینِ آزادی کی ڈھونڈ ڈھونڈ کر پہچان کرنے کی کوشش کی گئی اور آزادی کے امرت مہوتسو کا تو یہ ایک خفیہ ایجنڈا ہی تھا۔ جب کہ پورا ملک یہ جانتا ہے کہ جنگِ آزادی کے آخری دنوں میں ہندو مہاسبھا اور ویسی جماعتیں کھُل کر انگریزوں کی طرف داری میں سامنے آگئی تھیں۔
ہر صوبے کے گائوں محلوں میں چھوٹے بڑے مندروں یا کھلے میدانوں میں کیرتن، اشٹ جام اور طرح طرح کے ست سنگ یا بابا حضرات جو سامنے آتے رہتے ہیں، اس کا بھی ایک واضح ڈیزائن ہے اور یہ بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے طرفداروں کو متحد کرنے کا ایک لائحۂ عمل ہے۔ ۲۰۱۴ء کے دور میں بابا رام دیو کس طرح آندھی طوفان کی طرح آئے اور کس سلیقے سے غیر سیاسی انداز میں نریندر مودی کو سربراہی سونپ دینے کے لیے ماحول سازی کرکے اپنی مالی قوت بڑھانے کا حتمی کام کرگئے۔ حقیقت میں مذہب کے نام پر عوام کو جمع کرنے اور انھیں مذہبی پیغام دیتے دیتے ایک آخری مرحلے میں سیاسی پیغام کان میں پھونک دینے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا بھلا ہوجائے گا۔
اب چھے مہینے سے زیادہ قو می انتخاب میں وقت نہیں بچا ہے۔ نریندر مودی کو بھی معلوم ہے کہ ایودھیا کے رام مندر اور اس کے کمپلیکس سے پارلیمنٹ کی تین سو سیٹیں نہیں ملیں گی۔ الگ الگ صوبوں میں حکومتیں جارہی ہیں اور جانے والی ہیں۔ اس سے بھی پارلیمنٹ کی سیٹوں میں مزید تخفیف کے امکانات ہیں۔ اس گراوٹ کو سنبھالنے کے لیے جارح احیا پسندی کا قومی اور بین الاقوامی شور ہی ایک راستہ ہو سکتا ہے۔ نریندر مودی تو اس کمال کے وزیر اعظم ہیں کہ امریکہ اور انگلینڈ میں جاکر معمولی مذہبی اجتماعات کرالینے اور ان میں جاکر تقریر کرآتے ہیں۔ جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے تہوار گلوبل ہورہے ہیں۔ خلیج کے ملکوں میں مندر بنواکر اس کا افتتاح کرلینے سے بھی ان کو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ عالمی منڈی میں ہمارا مذہب اور ملک دونوں اپنے قیمت پارہے ہیں۔ وہ کسی بھی تہوار کے ثقافتی اور عوامی پہلو کو قابل توجہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کی مارکیٹنگ اور سیاسی فائدے پر زیادہ توجہ رہتی ہے۔ بنگال، بہار، اترپردیش اور مہاراشٹرا کے تہواروں کو انھوںنے بہ طورِ مثال اس لیے بھی اپنی تقریر کا حصہ بنایا کیوںکہ آئندہ پارلیمنٹ میں انھیں اسی میدان میں سب سے زیادہ زور آزمائی کرنی ہے۔ ہر کام میں وہ پانچ سو اور ہزار کروڑ گننے کے عادی ہیں۔ صرف انھیں خطِ افلاس سے نیچے کے اربوں ہندو مسلمانوں کی مالی حالت کو سدھارنے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ کاش! ان تہواروں کے موقعے سے غربا کے لیے ایک پیکج فراہم کردیتے تو ساڑھے چار ہزار کروڑ کے مارکیٹ ویلیو میں کچھ اضافہ بھی ہوتا اور کچھ اندھیرے گھروں میں چراغ بھی روشن ہوتے۔
مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں
[email protected]