مضامین و مقالات

کیا ہم سے چوک ہو گئ؟ 

ریاض فردوسی۔9968012976
عالم ہے سو بے عقل ہے،جاہل ہے سو وحشی
منعم ہے سو مغرور ہے،مفلس سو گدا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
 7 اکتوبر کو صبح صبح یہ خبر موصول ہوئی کہ حماس نے کئ منٹوں میں کئ ہزار راکٹ اسرائیل پر داگے ہیں جس میں ہزاروں اسرائیلیوں کی جان چلی گئی۔اس خبر کو سنتے ہی پوری دنیا کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئ،حالانکہ اگر جزبات سے اوپر اٹھ کر دماغ سے غور کیا جائے تو یہ موقع خوشی منانے کا نہیں تھا کیونکہ حماس کے اس حملہ میں بےقصور اور نہتھے عورت،مرد اور بچے مارے گئے تھے جو جنگ میں شریک نہیں تھے۔جب یہ حملہ ہوا اس وقت  اسرائیل میں امن و امان تھا،کوئی جنگ نہیں ہو رہی تھی،لیکن ہم نے حماس کے اس حملہ کی مذمت کرنے کی بجائے اس کی ستائش کی۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگ کے دوران بھی غیر اہل قتال پر حملہ کرنا جرم سمجھا جاتا ہے،جبکہ اسرائیلیوں پر  7 اکتوبر کو جو حملہ ہوا وہ جنگ کا دن بھی نہیں تھا۔
ہماری اس خوشی سے دنیا کے دیگر اقوام کو تکلیف پہونچی ہے۔ جو لوگ غیر جانبدار ہیں انہوں نے بھی حماس کے 7 اکتوبر کے حملہ کی مذمت کی ہے۔ہمارے اس عمل سے دوسرے غیر مسلم لوگ جو ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں وہ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے اللہ تعالی ہی جانتا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ ہمارے بارے میں مثبت بات نہیں سوچتے ہوں گے۔
قرآن مجید میں سورہ البقرہ آیت نمبر 190  میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مسلمان مدافعت میں جنگ کرے اور اس کے ساتھ یہ بھی تنبیہ کی گئی کہ جنگ کے دوران جذبات کے رو میں بہ کر ہم ان لوگوں کو قتل نہ کریں جو جنگ میں شامل نہیں ہیں۔اللہ کی رسول ﷺ نے مسلمانوں کو منع کیا کہ جنگ میں عورتوں،بچوں،ضعیفوں،مذہبی لوگوں،اپاہج لوگوں کو قتل نہیں کیا جائے۔یہاں جن لوگوں کو قتل کرنے سے منع کیا جا رہا ہے وہ ہمارے لوگ نہیں ہیں بلکہ ہمارے دشمن کے لوگ ہیں۔ اس لئے ہمیں انتباہ کیا گیا کہ عداوت میں کہیں ہم ان لوگوں کو مار نہیں بیٹھیں۔اسی لۓ کتاب اللہ میں کہا گیا کہ حد سے تجاوز نہیں کرو اور اللہ تعالی حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اس لئے حماس کا  7 اکتوبر کا عمل بھی پسندیدہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی خود اسے پسند نہیں کرتا۔
مدافعت کے جنگ میں بھی اگر ہم اس قانون کی پیروی نہیں کریں گے تو ہمیں اللہ کی طرف سے فتح بھی حاصل نہیں ہوگی۔
ہم سبھی جانتے ہیں کہ احد کی جنگ میں صحابہ کرام کی ایک جماعت سے  حضور ﷺ کی ایک حکم پر عمل نہیں کر نے سے فتح ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہو گئ تھیں۔پھر ہم  یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ جنگ   لڑنے کے جو اخلاقی اصول اور قاعدے اللہ تعالی نے ہمی سکھایا ہے اس پر عمل نہیں کرکے ہم جنگ جیت جائیں گے۔ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایک مہم میں ایک صحابی نے ایک ایسے شخص کا قتل کر دیا جو کلمہ پڑھ چکا تھا۔جب یہ خبر نبی کریم ﷺ کو ملی تو آپ ﷺ نے اس صحابی کو ڈانٹا اور انکے اس عمل کی پزیرائی نہیں کی بلکہ مذمت کی۔اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ غلطی غلطی ہے اور اس کی ہر حال میں مذمت ہونی چاہیے۔
 اللہ تعالی کا ارشاد ہے:(سورۃ۔ المائدة آیت نمبر  2)
ترجمہ:اور باعث نہ ہو تم کو اس قوم کی دشمنی جو کہ تم کو روکتی تھی حرمت والی مسجد سے اس پر کہ زیادتی کرنے لگو اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر اور مدد نہ کرو گناہ پر اور ظلم پر اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
 یعنی جس قوم نے تم کو واقعہ حدیبیہ کے وقت مکہ میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے سے روک دیا تھا اور تم سخت غم و غصہ کے ساتھ ناکام واپس آرہے تھے۔اب جب کہ تم کو قوت اور قدرت حاصل ہے تو ایسا نہ ہونا چاہیے کہ پچھلے واقعہ کے غم و غصہ اور بغض کا انتقام اس طرح لیا جائے کہ تم ان کو بیت اللہ اور مسجد حرام میں داخل ہونے اور حج کرنے سے روکنے لگو۔ کیونکہ یہ ظلم ہے اور اسلام ظلم کا انتقام ظلم سے لینا نہیں چاہتا،بلکہ ظلم کے بدلہ میں انصاف کرنا اور انصاف پر قائم رہنا سکھلاتا ہے۔
اس ظالم قوم نے اپنی قوت و اقتدار کے وقت مسلمانوں کو مسجد حرام میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے سے ظلماً روک دیا تھا۔تو اس کا جواب یہ نہ ہونا چاہیے کہ اب مسلمان اپنے اقتدار کے وقت ان کو ان افعال حج سے روک دیں۔
 قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ عدل و انصاف میں دوست و دشمن سب برابر ہونے چاہئیں تمہارا دشمن کیسا ہی سخت ہو اور اس نے تمہیں کیسی ہی ایذا پہنچائی ہو اس کا معاملہ بھی انصاف ہی کرنا تمہارا فرض ہے۔یہ اسلام ہی کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ دشمنوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور ان کے ظلم کا جواب ظلم سے نہیں بلکہ انصاف سے دینا سکھاتا ہے۔حماس کے جوابی کارروائی میں اسرائیل نے بھی فلسطینیوں پر ظلم کیا۔اسرائیلیوں پر فلسطینیوں نے راکٹ نہیں برسایے تھے۔ لیکن اسرائیل نے ان کے گھروں کو تباہ و برباد کر دیا۔ہزاروں بے قصور اور بے گناہ  فلسطینیوں کو شہید کر دیا جن میں زیادہ تر بچے،مریض اور ضعیف مرد وعورت ہیں۔
جو زندہ بچ گئے ان کو بھوک اور پیاس سے تڑپایا۔یہاں تک کہ اسرائیل نے ہسپتال میں زیر علاج زخمی لوگوں پر راکٹ مارا جس میں پانچ ہزار سے زائد کے قریب بے گناہ لوگوں کی جان گئ۔اسرائیل کی اس عمل کی  مذمت کی گئی ہے۔
حماس کے اس عمل سے بین الاقوامی برادری (International community) کی ہمدردی اسرائیل کو حاصل ہو گئ اور اسے ایک موقع فراہم ہو گیا کہ اس بہانے فلسطینیوں پر پھر سے  ظلم کرے،ان کے مکانات اور زمینوں پر قبضہ کرلے۔
امریکہ  بھی اسرائیل کے پشت پر کھڑا ہو گیاہے۔کاش ہم بھی پہلے دن حماس کی غلطی( قرآن اور حدیث کی روشنی میں) کی مذمت کرتے،کہیں ہم سے چوک تو نہیں ہو گئ؟ والله اعلم۔ ہم تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ تعالی سے دعا کریں کہ اسرائیل اس بہانے غزہ پر مکمل طور قابض نہ ہو!
آخر میں!
ہے خاک فلسطین پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
معصوم فلسطینی شہریوں کا بہیمانہ قتل دراصل انسانیت کا قتل عام ہے۔غزہ میں اسرائیلی جنگ میں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی تعداد نے ہم انسانوں کے اخلاقی ضمیر کو داغدار کر دیاہے۔اسرائیلی جارحیت سے شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 11900 سے زیادہ ہوگئی ہے۔
وہ لوگ بے یار و مددگار ہیں،حتی کہ ہماری دعائیں بھی ان مظلوموں کے ساتھ نہیں؟(الا ماشاء اللہ)
ہمارے دل ان کی آہ بکا سے کیوں نہیں مغموم ہوتے؟
ہماری آنکھیں ان تڑپتے،سسکتے،زخموں سے چور پیارے پیارے معصوم بچوں کے لۓ،میری پاک اور مقدس ماں بہنوں کے لۓ،محترم و مکرم بزرگوں اور مریضوں کے لۓ کیوں نہیں نم ہو رہے ہیں؟
کیا ہمارے دل پتھر کے ہو چکے ہیں؟
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
قدیم زمانہ میں جنگ و جدال کے ذریعہ زمین کا حق حاصل کی جاتی تھی۔سال 711 ء میں طارق ابن زیاد نے ہسپانیہ پر فوج کشی کی اور اسے فتح کیا اور دھیرے دھیرے پورے ہسپانیہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور ہسپانیہ ایک مسیحی ریاست سے اسلامی ریاست بن گیا۔یہ سب کچھ طاقت اور شمشیر کی ذریعہ مسلمانوں نے کیا۔پھر 1492ء میں دنیا کی محبت و عیش پرستی کی وجہ سے مسلمان کمزور ہو گۓ اور مسیحی طاقتور ہو گۓ اور طاقت کے ذریعہ مسیحیوں نے دوبارہ ہسپانیہ مسلمانوں سے اپنے قبضہ میں لے لیا اور مسلمانوں کو ہسپانیہ سے بے دخل کر دیا۔بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے فلسطین عیسائیوں کے ماتحت تھا،پھر فاروق اعظم عمر رضی اللہ ‌عنہ کے عہد خلافت میں فلسطین عیسائیوں سے مسلمانوں کی ملکیت میں آیا۔پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کو برطانیہ کے ہاتھوں شکست ہوئی اور فلسطین سلطنت عثمانیہ کی ملکیت نہیں رہی بلکہ فلسطین برطانیہ کے نگہداشت میں چلا گیا اور برطانیہ نے یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک ریاست بنانے کا فیصلہ کیا۔کہنے کا مطلب جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
کبھی کشتی پانی پر اور کبھی پانی کشتی میں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button