مضامین و مقالات

ہمارے ملک کے لئے لمحۂ فکریہ!

سقراط کے کارِسیاست پر اعتراضات! آج بھی قابل توجہ:

مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی
چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈریسرچ ٹرسٹ بنگلورو جامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور، بہار

سقراط کے کارِ سیاست پر اعتراضات بڑے مدلل تھے۔ اُس نے حکومت کو بہتر انداز میں چلانے کاجوفارمولا دیا تھا ، وہ آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے۔ سقراط نے سیاسی قیادت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا تھا:
”جب اسمبلی کااجلاس ہوتاہے اوراس میں تعمیروترقی کے مسائل پربات ہوتی ہے تواُن مسائل کے حل کے لیے اُنہیں طلب کیاجاتاہے جوتعمیروترقی کے بارے میں علم رکھتے ہیں لیکن جب حکومت چلانے کا مرحلہ آتاہے توہراس شخص کو بُلالیاجاتا ہے ، جو اس کا اہل ہوتا ہے نہ ریاستی امورکے بارے میں علم رکھتا ہے۔ یوں ریاست کا زوال شروع ہوجاتا ہے”۔
سقراط نے ایسی ہی بات اسمبلی ممبران کے بارے میں بھی کہی تھی:
”اسمبلی منافع خوروں اورذہنی معذوروں پر مشتمل ہے جو ہروقت یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیسے سستی چیز مہنگے داموں بیچ کرزیادہ منافع کمایا جائے۔ ایسی سوچ رکھنے والے ممبرانِ اسمبلی عوامی مسائل کا حل کیسے نکال سکتے ہیں؟ جب تک اسمبلی اورانتظامیہ میں ماہرین، فلسفی اور صاحبِ علم لوگ آگے نہیں آئیں گے ، ریاست بدحال ہی رہے گی‘‘۔
سقراط 469 قبل مسیح کا فلسفی تھا ، سیاست اور حکومت کے بارے میں اس کے نظریات آج کے جدید دور سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔
غور کیا جائے تو ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ وہی ہے جو عہدِ سقراط میں درپیش تھا۔ اُس وقت اسمبلی کا ممبر کوئی بھی شخص بن سکتا تھا اورآج بھی ہماری اسمبلیوں کے دروازے ہراس شخص کے لیے کھلے ہیں جو الیکشن جیت کر آ جائے۔ اُس وقت بھی امورِ حکومت چلانے کے لیے کوئی معیار مقرر نہیں تھا اورآج ہمارے ملک میں بھی وزیر، مشیر اورمعاو نِ خصوصی بننے کے لیے کوئی خاص پیمانہ مقرر نہیں ہے ، جسے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے ، اسے عہدہ مل جاتاہے اورجس پریہ عنایت نہیں ہوتی ، وہ بھلے کتنا ہی اہل اور قابل ہو ، عہدہ حاصل نہیں کرپاتا۔
اِس بات سے کون انکاری ہے کہ جمہوریت میں انتخابات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ، مگر یہاں سوال یہ ہے کہ الیکشن لڑنے کا معیار کیا ہے ؟
باقی دنیا کو چھوڑیں ، یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے ملک میں الیکشن میں حصہ لینے کا معیار پیسہ ہے۔ جو بھی اس معیار پر پورا اترتا ہے ، وہ کھل کرسیاست کرتا ہے اور جو انتخابی اخراجات کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا ، وہ اس نظام کے پاس سے بھی نہیں گزرسکتا۔ میرے نزدیک بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ ” Right
man for the right job ”
"صحیح کام کے لیے صحیح آدمی” ہے۔
باقی ماندہ سبھی مسائل اُس کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ اگر کسی طرح یہ مسئلہ حل ہوجائے تودیگرمسائل خودبخود ختم ہونے لگیں گے۔
بھارت میں سب سے بڑا انتظامی عہدہ وزیراعظم کاہے اور اس کرسی پرہمیشہ وہی بیٹھتا ہے جوفاتح پارٹی کاسربراہ ہو۔ یہی نہیں ، وزیراور مشیر بھی وہی افراد بنتے ہیں ، جو پارٹی سربراہ کے وفادار ہوں۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے اس نظام حکومت میں اہلیت، صلاحیت اور قابلیت کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں ، جب اسمبلیوں میں اصل نمائندگی سرمایہ داروں اورصنعتکاروں کی ہو گی تو عوام کے مسائل کا حل کیسے نکلے گا ؟
اہل، فلسفی اور صاحبِ علم لوگ کیسے حکومتوں کا حصہ بنیں گے ؟ قومی اسمبلی ہویا صوبائی اسمبلیاں ، ان تمام ایوانوں کا کام قانون سازی ہے ، مگرہماری اسمبلیوں میں بیشترممبران کو قانون سازی کی کچھ سمجھ ہی نہیں۔ وہ اسمبلیوں میں حاضری لگانے آتے ہیں اور پچھلی قطاروں میں بیٹھ کر گھرچلے جاتے ہیں۔
بھارت کی سیاست میں ایک اور مسئلہ بھی نہایت گمبھیر ہے۔ یہاں وزرا کے محکموں کا تعین ان کی اہلیت، صلاحیت اور تعلیمی پس منظرکودیکھ کر نہیں بلکہ مبینہ طور پر ، ان کے کاروبارکودیکھ کرکیا جاتا ہے۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ متعلقہ وزیر اپنے کاروباری مفادات کے خلاف کیسے فیصلے کرسکتے ہیں؟ نجانے کیوں ہمارے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مسائل کا حل ماہرین کے پاس ہوتاہے ، ان افراد کے پاس نہیں جو خود مسائل کا سبب ہوں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button