اسلامیات،افسانہ و غزلیات

کیا روزے کا تصور اسلام سے قبل بھی موجود تھا اور اسلام میں اس کا آغاز کب ہوا؟

مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی

مکہ یا مدینہ میں اسلام کی آمد سے قبل بھی روزہ رکھنے کا رواج تھا لیکن اس کے قواعد و ضوابط ویسے نہیں تھے جو اسلام کی جانب سے دیے گئے۔

اگرچہ حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم روزے رکھتے تھے لیکن اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں پر 30 دن روزے رکھنا لازم نہیں تھا۔
روزے اسلام میں سنہ دو ہجری یعنی پیغمبر اسلام کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے دوسرے سال فرض قرار دیے گئے جس کے بعد سے پوری دنیا میں مسلمان روزہ رکھتے آ رہے ہیں۔

مسلمانوں کے علاوہ روزے کی طرح پورا دن فاقہ کرنے کا مذہبی عمل یہودیوں اور دیگر کئی مذہبی گروہوں میں بھی موجود ہے لیکن روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور باقی چار بالترتیب توحید، نماز، زکوٰۃ اور حج ہیں۔

جس سال روزے فرض کیے گئے اس سے دو سال قبل یعنی سنہ 622 عیسوی میں حضور اکرم صلی علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے ساتھ مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی اور ہجرت کے برس سے اسلامی سال کی گنتی شروع ہوئی۔

اسلامی ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ دو ہجری میں رمضان کے مہینے میں روزے رکھنے کو لازم قرار دینے کی آیات نازل ہوئی تھیں۔

چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور ، کرناٹک مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی بتایا کہ قرآن کی جس آیت میں روزہ فرض کیا گیا اس میں ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ عمل ایسے ہی لازم ہے جیسے کے ماضی کی قوموں پر فرض تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب واضح ہے کہ اسلام سے قبل بھی مختلف مذاہب اور اقوام میں روزہ رکھنے کی روایت موجود تھی تاہم اس کی شکل مختلف تھی جیسے کہ یہودی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اب بھی روزہ رکھتے ہیں۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل مکہ اور مدینہ میں لوگ مخصوص تاریخوں پر روزہ رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی لوگ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے جبکہ کچھ ہر قمری ماہ کی 13، 14 اور 15 تاریخ کو بھی روزے رکھے جاتے تھے۔

مولانا موصوف نے کہا کہ دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام پر بھی روزہ فرض تھا لیکن یہ مدت ایک ماہ تک کی نہیں تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے بھی مکہ میں قیام کے دوران ہر قمری مہینے میں تین دن روزے رکھے۔ یہ سال میں 36 دن بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روزوں کی روایت پہلے سے موجود تھی۔‘

انھوں نے اسلامی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں مہینے میں تین دن روزے رکھے جاتے تھے جبکہ حضرت موسیٰ نے ابتدا میں 30 دن تک کوہِ طور پر روزے رکھے تھے۔ بعد میں مزید دس دن کا اضافہ کرتے ہوئے انھوں نے لگاتار 40 روزے رکھے۔
انہوں نے کہا پہلے انبیا پر 30 دن کا روزہ رکھنا فرض نہیں تھا۔ کچھ انبیا پر عاشورہ کا روزہ فرض تھا جبکہ کچھ پر ہر قمری مہینے کی 13، 14 اور 15 تاریخ کو روزہ فرض تھا۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ اس دعوے میں کوئی حقیقت نہیں کہ پیغمبر اسلام مکہ میں قیام کے دوران روزہ رکھتے تھے۔

حضرت موسیٰ نے ابتدا میں 30 دن تک کوہِ طور کے پہاڑ (جسے آج جبل موسی کے نام سے جانا جاتا ہے) پر روزے رکھے تھے

مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد جب پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ مدینہ والے عاشورہ یعنی محرم کی دس تاریخ کو روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے پوچھا کہ تم روزہ کیوں رکھتے ہو؟ ان لوگوں کا جواب تھا کہ اس دن خدا نے حضرت موسیٰ کو فرعون کے چنگل سے آزاد کیا۔ اس لیے ہم روزہ رکھتے ہیں۔

حضرت موسیٰ کے زمانے میں بھی عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا لیکن 30 دن کے روزے صرف پیغمبر اسلام کے دور میں فرض کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ حضوراکرم صلی علیہ وسلم قمری مہینے کی 13، 14 اور 15 تاریخ کو بطور نفل روزہ رکھتے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button