مضامین و مقالات

دیوالی ! سبھی کے دیپ سندر ہیں ہمارے کیا تمہارے کیا

ٹی ایم ضیاء الحق
دیوالی سنسکرت کے لفظ دیپاولی (دیپاں والی) سے مشتق ہے، جس کے معنی چراغوں کی قطار کے ہیں۔
ہندو مذہب میں دیوالی ایک خاص تیوہار ہے   رامائن  کہ مطابق بھگوان شری رام اور ان کی شریک حیات  بھگوان  سیتا کی 14 سال کی جلاوطنی  ( بنواس ) کے بعد ایودھیا لوٹنے کی ہے جب سارا شہر ان کے استقبال کے لیے امڈ پڑا تھا اور ایودھیا کے چپے چپے سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ آج بھی لوگ بھگوان  رام چندر جی کی اس واپسی کا جشن دل کھول کر مناتے ہیں۔اس خوشی کے موقع پر گھروں میں حتی الامکان صفائی ستھرائی کی جاتی ہے۔ رنگ وروغن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سجاوٹ ہوتی ہے۔ پکوان بنائے جاتے ہیں، ایک دوسرے کو تحفہ تحائف نذر کیے جاتے ہیں، الغرض رام جی ایودھیا واپس تشریف لائے ہیں، تو اس کے شایان شان خوشی ہر کوئی مناتا ہے،  اب رام چندر جی کو علامہ اقبال کیسے دیکھتے تھے، یہ بھی دیکھیے؛
ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اِس کو امام ہند
اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شامِ ہند
دیوالی کے تعلق  سے  اور بھی کہانیاں ہیں جن سے شاید عام آدمی واقف نہیں۔ کہتے ہیں راجا کسور نامی ایک راجا تھا، وہ بڑا ظالم اور ہوس پرست، حسین نوجوان دوشیزاؤں کو اغوا کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا پھر انہیں جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے قید کر دینا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ ہندو مذہب کے ایک دیوتا بھگوان وشنو نے بھگوان کرشن کا روپ دھار کر دیوالی کے دن دنیا کو اس ظالم سے راجا سے نجات دلائی۔
مہابھارت میں ایک اور کہانی ہے جب پانڈو اپنے بھائیوں کوروؤں کے ہاتھوں قمار بازی میں ہار گئے تو انھیں کوروؤں نے 13 سال کی جلاوطنی کا حکم سنایا تھا۔ زندگی کے 13 سال جنگلوں کی خاک چھاننے کے بعد جب پانڈو اپنے وطن ہستناپور پہنچے تو لوگوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ہستناپور پھولوں اور دیوں سے سجایا گيا۔یہ دیوالی کا ہی دن تھا۔اس کی سب سے اہم بات لکشمی دیوی اور بھگوان وشنو کا ملاپ ہے۔ لکشمی، پیار محبت، دولت و ثروت، خوش نصیبی اور خوشحالی کی دیوی ہے اور اسی لیے لوگ اس دن ان کی پوجا کرتے ہیں تاکہ دیوی سال بھر ان پر مہربان رہے
اُردو فکشن نگاروں نے بھی دیوالی پر افسانے لکھے سعادت حسن منٹو کے افسانے "دیوالی کے دیے” بہُت مشہور ہیں اس کہانی میں انسان کی امیدیں اور آرزویں پوری نہ ہونے کا بیان ہے۔ چھت کی منڈیر پر دیے جل رہے ہیں۔ ایک چھوٹی بچی، ایک جوان، ایک کمہار، ایک مزدور اور ایک فوجی یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔ سب اپنی اپنی فکروں میں غلطاں ہیں، دیے سب کو چپ چاپ دیکھتے ہیں اور پھر ایک ایک کرکے بجھ جاتے  ہیں
قاضی عبدالستار نے بھی ایک  افسانہ "دیوالی” لکھا ہے وہیں علی امام نے اپنے ناول "نئے دھان کے رنگ” میں دیوالی کے تیوہار کا ہندوستانی تہذیب اور ثقافت پر کیا اثر پڑا ہے اسے  بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے
ہندوستانی ثقافت پر اس کا اثر صوفیوں کی درگاہ سے لگایا جا سکتا ہے ہندوستان میں کئ درگاہ ایسی ہے جہاں جشن چراغاں کا اہتمام ہندو حضرت بڑے دھوم دھام سے کرتے ہیں دہلی میں حضرت نظام  الدین اولیاء کی درگاہ پر ہر سال ہندو مذہب کے ماننے والے دیوالی کے موقع پر درگاہ پر دیے روشن کرنے اور مٹھائیاں تقسیم کرنے آتے ہیں جسے مقامی طور پر عید چراغاں کہا جاتا ہے۔  وہ یہاں سے حضرت نظام الدین کے عنایت کے طور پر کچھ دیے یا موم بتیاں بھی اپنے گھر لے جاتے ہیں۔درگاہ پر دیوالی منانے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود درگاہ کی ہے۔   درگاہ خود جشن کا اہتمام نہیں کرتی ہے۔  ہندو بھائی اپنی مرضی سے آتے ہیں، دیے جلاتے ہیں اور مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔  مقامی لوگ ان کی مدد کرتے ہیں اور ان کے جشن میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ یہ دل کا اشارہ ہے اور اس کا مقصد محبت اور بھائی چارے کے جذبات کو پھیلانا ہے۔
اُردو شاعروں نے بھی دیوالی پر خوبصورت اشعار لکھے ہیں ویسے  اردو شاعری میں تمثیلات، تشبیہات و استعارات کا استعمال عام رہاہے۔ عموماً غزلوں کے اشعار میں دیوالی کو تشبیہ اور استعارے کے طور پر لیا گیاہے۔نظموں میں بھی کہیں کہیں یہ رنگ نظر آتا ہے۔حالانکہ دیوالی کو عموماً غم کا استعارہ ماناجاتاہے۔ ایسے اشعار ملاحظہ
علامہ جمیلؔ مظہری
ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے
حفیظ بنارسی
سبھی کے دیپ سندر ہیں ہمارے کیا تمہارے کیا
اُجالا ہر طرف ہے اس کنارے اس کنارے کیا
کیف بھوپالی
وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا
دشہرے سے دوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے
شکیب جلالی
پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ
ایک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے
نشور واحدی
ہستی کا نظارہ کیا کہئے مرتا ہے کوئی جیتا ہے کوئی
جیسے کہ دوالی ہو کہ دیا جلتا جائے بجھتا جائے
احمد شاذ قادری
یہ کارواں خوشی کا، اُلفت کی روشنی کا
پہنچے سبھی کے گھر تک دیپاولی مبارک
نظیر اکبر آبادی نے دیوالی کی  ایسی خوبصورت تصویر کھینچ گئے، ذرا دیکھیے؛
ہر ایک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کا
ہر ایک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا
سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دوالی کا
کسی کے دل کو مزہ خوش لگا دوالی کا
عجب بہار کا ہے دن بنا دوالی کا
جہاں میں یارو عجب طرح کا ہے یہ تیوہار
کسی نے نقد لیا اور کوئی کرے ہے ادھار
کھلونےکھیلوں بتاشوں کا گرم ہے بازار
ہر اک دکاں میں چراغوں کی ہو رہی ہے بہار
سبھوں کو فکر ہے اب جا بجا دوالی کا
مٹھائیوں کی دکانیں لگا کے حلوائی
پکارتے ہیں کہ لا لا دوالی ہے آئی
بتاشے لے کوئی برفی کسی نے ت لوائی
کھلونے والوں کی ان سے زیادہ بن آئی
گویا انہوں کے واں راج آ گیا دوالی کا
صرف حرام کی کوڑی کا جن کا ہے بیوپار
انہوں نے کھایا ہے اس دن کے واسطے ہی ادھار
کہے ہے ہنس کے قرض خواہ سے ہر ایک اک بار
دوالی آئی ہے ، سب دے دلائیں گے اے یار
خدا کے فضل سے ہے آسرا دوالی کا
مکان لیپ کے ٹھلیا جو کوری رکھوائی
جلا چراغ کو کوڑی وہ جلد جھنکائی
اصل جواری تھے ان میں تو جان سی آئی
خوشی سے کود اچھل کر پکارے او بھائی
شگون پہلے کرو تم ذرا دوالی کا
کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری
جو کچھ تھی جنس میسر بنا بنا ہاری
کسی نے چیز کسی کی چرا چھپا ہاری
کسی نے گٹھری پڑوسن کی اپنی لا ہاری
یہ ہار جیت کا چرچا پڑا دوالی کا
جہاں میں یہ جو دوالی کی سیر ہوتی ہے
تو زر سے ہوتی ہے اور زر بغیر ہوتی ہے
جو ہارے ان پہ خرابی کی فیر ہوتی ہے
اور ان میں آن کے جن جن کی خیر ہوتی ہے
تو آڑے آتا ہے ان کے دِیا دوالی کا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button